کیمسٹری (40)۔۔وہاراامباکر

کیمسٹری اور فزکس کی تاریخ ایک دوسرے سے بہت مختلف رہی ہے۔ اور اس کی وجہ ہے۔ اگر آج آپ فزکس میں غلطی کریں تو شاید خاصا وقت ضائع کر کے اس جواب تک پہنچیں کہ 4=28 جو غلط ہو گا لیکن اس سے ہونے والا نقصان شاید یہی ہو کہ آپ اپنے بال نوچ رہے ہوں اور کانوں سے محاوراتی دھواں نکل رہا ہو۔ جبکہ کیمسٹری کی غلطی اصل والا دھواں اور آگ بڑی مقدار میں پیدا کر سکتی ہے۔

ابتدائی فزسٹ کے برعکس ابتدائی کیمسٹ کو بڑی ہمت درکار تھی۔ حادثاتی دھماکے بھی کام کا حصہ تھے اور زہرخوانی بھی۔ کیونکہ یہ کیمسٹ کئی بار چیزوں کو چکھ کر شناخت کرتے تھے۔ ایک مشہور سویڈش کیمسٹ کارل شیل تھے۔ انہوں نے پہلی بار ایک زیریلی اور زنگ لگا دینے والی گیس کلورین دریافت کی اور بچ بھی گئے۔ اور معجزاتی طور پر انہوں نے ایک اور انتہائی زہریلی گیس ہائیڈروجن سائینائیڈ کو چکھا اور اس کا ذائقہ ٹھیک ٹھیک بتانے کے لئے زندہ بھی رہ گئے۔ لیکن تینتالیس سال کی عمر میں 1786 میں شیل کی خوش قسمتی کا وقت ختم ہوا۔ خیال ہے کہ ان کی موت کی وجہ پارے کی زہرخوانی بنی تھی۔

فزکس اور کیمسٹری کے کلچر میں خلیج ان کی ابتدا میں بہت واضح ہے۔ جہاں پر فزکس میں تھیلس، فیثاغورث اور ارسطو نظر آتے ہیں، وہاں پر کیمسٹری کاروبار کرنے والوں کے برآمدوں میں کی جاتی رہی ہے یا الکیمیا کی تاریک تجربہ گاہوں میں۔ اگرچہ ان دونوں شعبوں میں کام کرنے والوں کا محرک جاننے کا شوق رہا ہے لیکن کیمسٹری کی جڑیں زیادہ عملی رہی ہیں۔ کئی بار لوگوں کی زندگی بہتر کرنے کے لئے جبکہ کئی بار لالچ کے لئے۔ کیمسٹری بھی جاننے اور مادے کی تسخیر کا فن ہے لیکن ساتھ ساتھ منافع کمانے کی بہت اہلیت بھی رکھتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک طرح سے نیوٹن کے حرکت کے قوانین کو دریافت کرنا اتنا مشکل نہیں۔ اگرچہ یہ فرکشن اور ہوا کی ریززٹنس کی دھند یا گریویٹی کی ان دیکھی فورس میں چھپے ہوئے ہیں ۔ کیمسٹری اس طرح کے یونیورسل قوانین کے سیٹ کے بارے میں نہیں۔ یہ اس سے زیادہ پیچیدہ ہے کیونکہ ہماری دنیا میں مادے بہت زیادہ ہیں اور کیمسٹری کی سائنس نے رفتہ رفتہ ان سب کا پتا لگانا تھا۔

پہلی دریافت یہ کی جانی تھی کہ آخر اشیا بنی کس سے ہیں۔ بنیادی چیز کیا ہے۔ “ہر شے عناصر کا کمبی نیشن ہے”۔ اس حقیقت کا اندازہ تو بہت پہلے سے تھا۔ ارسطو نے چار عناصر پیش کئے تھے۔

اور یہ واضح ہے کہ اشیا دوسروں سے ملکر بنتی ہیں۔ پانی جمع نمک ہو تو نمکین پانی بن جاتا ہے۔ لوہا اور پانی ملیں تو زنگ۔ (کچھ گوالوں کے نزدیک خالص دودھ میں پانی ڈالیں ہو تو پھر بھی خالص دودھ ہی رہتا ہے لیکن یہ اختلافی معاملہ ہے)۔ دوسری طرف، ایک شے کو الگ حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اکثر گرم کرنے پر ایسا ہوتا ہے۔ چونے کے پتھر کو گرم کریں تو چونا اور ایک گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ نکلتی ہے۔ چینی سے کاربن اور پانی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ عام مشاہدات ہمیں زیادہ دور نہیں لے جاتے کیونکہ یہ کوئی یونیورسل وضاحت نہیں دیتے۔ مثال کے طور پر جب پانی کو گرم کریں تو یہ گیس بن جاتا ہے لیکن یہ والی گیس کیمیائی لحاظ سے پانی سے مختلف نہیں۔ پارے کو گرم کریں تو یہ مزید سادہ حصوں میں تقسیم نہیں ہوتا بلکہ اس کا برعکس ہوتا ہے۔ یہ نہ نظر آنے والی آکسیجن سے ملکر ایک کمپاونڈ بنا لیتا ہے جس کو کالیکس ہے۔

اور پھر ایک اور مظہر ہے جو جلنے کا ہے۔ جب لکڑی جلتی ہے اور آگ اور راکھ بن جاتی ہے لیکن یہ نتیجہ نکالنا غلط ہے کہ لکڑی آگ اور راکھ کا مرکب ہے۔ اور اس سے بڑھ کر یہ کہ ارسطو کے عناصر میں آگ دراصل کوئی شے نہیں بلکہ یہ وہ روشنی اور حرارت ہے جو اس وقت ملتی ہے جب کوئی شے کیمیائی تبدیلی سے گزر رہی ہو۔ جب لکڑی جلتی ہے تو جو نکلتا ہے، وہ نہ نظر آنے والی گیس ہے جس کا بڑا حصہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور آبی بخارات ہیں لیکن کل ملا کر سو کے قریب گیسیں ہیں۔ اور قدیم یونانیوں کے وقت میں کوئی طریقہ ہی نہیں تھا کہ ان کو اکٹھا بھی کر سکتے۔ الگ کر کے ان کو شناخت کر لینا تو اس کے بعد کی بات تھی۔

یہ وہ چیلنج تھے جس کی وجہ سے یہ مشکل کام تھا کہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ کونسی شے کس سے ملکر بنی ہے اور کیا بنیادی ہے۔ اور اس کنفیوژن کا نتیجہ تھا کہ ارسطو یا دوسرے قدیم مفکرین نے نہ صرف پانی، آگ وغیرہ کو بنیادی عناصر کے طور پر دیکھا بلکہ سات ایسی دھاتوں ۔۔۔ پارہ، لوہا، تانبا، سیسہ، ٹین، سونا، چاندی ۔۔۔ کی بطور عنصر بھی شناخت نہیں کر سکے جن سے وہ واقف تھے۔

جس طرح فزکس کی پیدائش کے لئے ریاضی کی ایجاد کی ضرورت تھی، ویسے اصل کیمسٹری کو بھی کچھ ٹیکنالوجیز کی ایجاد کا انتظار کرنا تھا۔ ایسا سامان جو اشیاء کا ٹھیک ٹھیک وزن کر سکے۔ ری ایکشن میں خارج یا جذب ہونے والی حرارت کی پیمائش کی جا سکے۔ یہ معلوم کیا جا سکے کہ کوئی شے تیزاب ہے یا الکلی۔ گیس کو پکڑا جا سکے، نکالا جا سکے اور اس کا تجزیہ کیا جا سکے۔ درجہ حرارت اور پریشر معلوم کیا جا سکے۔

اور ان ایجادات کے بعد سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں کیمیادان اس علم کی الجھی گرہیں کھولنے کے قابل ہوئے اور کیمیائی ری ایکشنز کے لئے سوچنے کے مفید طریقے ڈویلپ ہوئے۔ اور یہ انسانی استقامت کی سند ہے کہ ان میں سے کسی بھی ٹیکنالوجی کے بغیر قدیم شہروں میں وہ پیشے ابھرے جن کی بنیاد کیمسٹری پر تھی۔ یہ عطرسازی، رنگ سازی، شیشہ سازی، دھات سازی اور حنوط سازی جیسے پیشے تھے۔

بغیر یہ جانے کے جو ہو رہا ہے، وہ کیوں ہو رہا ہے۔ ان قدیم پیشوں کے موجدین مادے کے ساتھ کھیلتے رہے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply