• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • موجدِ انقلاب ، امامِ وقت سید ابوالاعلی مودودی رحمۃ اللّٰہ حیات و خدمات ( 41 ویں یومِ وفات پر خصوصی تحریر)۔۔نعیم اختر ربانی

موجدِ انقلاب ، امامِ وقت سید ابوالاعلی مودودی رحمۃ اللّٰہ حیات و خدمات ( 41 ویں یومِ وفات پر خصوصی تحریر)۔۔نعیم اختر ربانی

5 ستمبر 1903ء بمطابق 1321ھ میں اورنگ آباد کی دھرتی پر خواجہ قطب الدین مودود چشتی کے خاندان میں ایک سپوت میں آنکھ کھولی۔ دیکھنے والے اس حسین طفل کو دیکھتے تو انگشت بدنداں ہو جاتے۔ والدین نے اسی وصف کی وجہ سے “ابوالاعلیٰ” نام رکھا۔ ابتدائی تعلیم کے گیارہ سال اپنے والدِ محترم کے سامنے ہی زانوئے تلمذ دراز کیا۔ بعد ازاں مولوی فاضل کا امتحان پاس کرکے صحافت اور ادب کی دنیا میں قدم رکھا اور اخبار “مدینہ” اور تاج” کے بعد جمعیت علمائے ہند کے روزنامہ “الجمیعۃ” میں بطورِ مدیر کام کیا لیکن 1925ء میں جب جمعیت علمائے ہند نے کانگریس کے ساتھ اشتراک کا فیصلہ کیا تو سید مودودی رح نے احتجاجاً الجمیعۃ کی ادارت چھوڑ دی۔

یہ ابتدائی حالاتِ زندگی اس ہستی کے ہیں جنہیں عالمِ اسلام کی نمایاں شخصیات نے ابنِ تیمیہء وقت ، امام المسلمین اور المسلم العظیم کے القاب سے نوازا۔ جس نے اسلامی تعلیمات پر پڑی ہوئی قومیت ، لادینیت ، تجدد ، تفریقِ دین و سیاست ، تاویلات باطلہ اور عقائد رذیلہ کی دھول کو دلائل اور محکم استنباط کے ساتھ صاف کیا۔ معاشرے میں جڑ پکڑے ہوئے لادین نظریات اور باطل افکار کو رد کر کے صحیح اسلامی اصول ، افکار ، نظریات اور عقائد کا ڈھانچہ بنا کر امت مسلمہ کے سامنے رکھا۔ سفید پوشاک میں چھپے ہوئے سیاہ اجسام کی رنگینیت اور دوغلی پالیسی کو واضح کیا۔ “لا الہٰ”کی ضرب سے ان تمام ناخداؤں ، انسانی بتوں ، فکری معبودوں اور لیڈری کی شکل میں پھیلے ہوئے درندوں کے قتل عام کے لیے قلم و قرطاس کا سہارا لیا۔ سیاہ الفاظ سے نور کی جھلک پیدا کر کے عالمِ اسلام کو روشن و منور کرنے کا بیڑا اٹھایا اور “ترجمان القرآن” کے نام سے ایک ایسے رسالے کی ماہانہ اشاعت کا اہتمام کیا جس نے سارے زمینی خداؤں کی خدائی کا پردہ چاک کیا۔ ایسے جملوں اور فقروں کو مضامین کے گلشن میں پرویا جنہوں نے عقل و شعور رکھنے والے اربابِ علم و دانش کی فکری صلاحیتوں کو جِلا بخشی اور یوں انقلابی قافلہ اپنی پہلی منزل کی جانب روانہ ہوا۔

مولانا مودودی رح نے دین ، عبادت ، رب ، الہٰ اور معبود کی بنیادی اصطلاحوں کو تحقیق و استدلال سے اس طرح پیش کیا کہ ان کے ہر ہر جزو اور حصے سے اقامتِ دین کے فریضے کی لو اٹھتی تھی اور احیائے دین کی خوشبو چار سو پھیلتی تھی۔ لیکن خاندانی اور جدی چشتی علماء نے واویلا مچایا کہ مذہب اور سیاست کو یکجا کر کے دینِ حنیف میں نئی راہ یعنی بدعت کو سہارا دیا ہے مگر اس فکر کی مضبوطی اور پختگی نے اپنے اثرات ایسے دکھائے کہ آج ہر زبان پر جاری ہے

جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

پھر انقلابی قافلے نے قدم بڑھایا تو مولانا نے اسلامی قومیت کے ساتھ ساتھ اسلامی ریاست کا تصور پیش کیا اور رائج اصطلاحوں مثلاً تھوڈیموکریسی ، الٰہی جمہوریت ، پاپولر خلافت اور شورائیت کو عین اسلامی اصولوں کے مطابق از سرِنو پیش کیا۔ اور انتخابی سیاست کی ایسی صراطِ مستقیم دکھائی جس نے ساری دنیا کو بشمول مسلم اقوام انگشت بدنداں کر دیا۔ یہ ایک ایسا خاکہ تھا جس سے دنیا آشنا نہ تھی۔

امامِ وقت کے تجدیدی کارناموں کا ایک بڑا حصہ ان نظریات و افکار کی تردید و انکار پر مشتمل ہے جو اسلامی تفکرات پر بالواسطہ یا بلاواسطہ اثر انداز ہورہے تھے یا ہو سکتے تھے۔ ان فکری مغالطوں اور رائج شدہ مخلوط رسم و رواج کے خلاف کھلم کھلا اعلان جنگ کیا اور پورے زورِ استدلال سے نشانہ بنایا۔ فرنگی چیرہ دستیوں سے منتج شدہ تہذیبی اور تعلیمی پالیسیوں پر پڑے اسلامی نقاب کو اتارا اور اسلامی تعلیمات اور تہذیب و تمدن کو صاف شفاف حقیقی منور چہرے کے ساتھ پیش کیا۔ لادین اور سیکولر سٹیٹ کے حامیوں کے عقلی پیچ و تاب کو شکست دی۔ ہندوؤں کی شکل میں پائے جانے والی فسطائی لیڈری کی پوشاک کو چاک کیا۔ قادیانیوں اور منکرینِ حدیث کے وہ فاسد عقائد و نظریات جو انتشار اور تفرقہ کا باعث تھے کا محنت اور کاوش سے تجزیہ کیا اور اسی قادیانیت مخالف تحریک کے حق میں “مسئلہ قادیانیت” لکھنے کی پاداش میں گرفتاری اور سزائے موت کے مراحل بھی طے کیے۔

حدودِ برصغیر سے نکل کر عالمی سطح تک مسلمانوں کے خلاف ہونے والے صہیونی اور کافرانہ اقدام کا بزورِ دلیل مقابلہ کیا۔ چنانچہ فلسطینی مسلمانوں کو ملک سے نکالنے ، جائیدادوں سے محروم کرنے ، ان کے خلاف دہشت گردی کرنے ، یروشلم پر ناجائز قبضہ کرنے اور مسلمان ممالک کے خلاف جنگیں بپا کرنے کے خلاف مدلل طریقوں سے آواز اٹھائی۔ مصر میں عرب قومیت کی تحریک اٹھی تو اس کے خلاف بھرپور انداز سے کام کیا اور اس کی روح کو دلیل کی گدی کے ساتھ کھینچ دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اغیار کے پیدا کردہ باطل نظریات مثلاً ڈارون کے نظریہء ارتقاء ، خاندانی منصوبہ بندی نیز آزادیء نسواں کے نام پر مرد و زن کا مخلوط معاشرہ بنانے اور عورت کو گھر سے نکال کر ثقافتی اسٹیج تک لانے والے مغربی نظریات پر تنقید کی۔

سید مودودی رح نے عملی اثرات کے حوالے سے جو سب سے زیادہ کام اول سے آخر تک کیا وہ یہ تھا کہ “مسلمان بلا اسلام یا قول بلا عمل” کی مروجہ سوچ کو ختم کیا۔ اس بات کا پرچار کیا کہ ہر مسلمان رنگ ، نسل ، قوم ، علاقے ، ذات پات اور ملک و مقام سے بالاتر ایک ایسی قوت کا نام ہے جس نے ساری دنیا میں پائی جانے والی فکری ، عملی ، اعتقادی ، معاشرتی ، نظریاتی اور سیاسی پیچیدگی کو حل کرکے ایک نظامِ کار کو وجود میں لانا ہے جو صرف واحد خدا کی خدائی کا بول بالا کرتا ہو۔ اس کے سامنے سربسجود ہونے کی دعوت دیتا ہو اور ایسی کھوپڑیوں کو راہِ راست پر لانے کی جدوجہد کرتا ہو جو دربدر ٹھوکریں کھانے کی ٹھان لیتی ہیں۔

1972ء میں آپ کی مشہور تفسیر “تفہیم القرآن” مکمل ہوئی۔ اسی برس آپ ضعیفی اور علالت کی وجہ سے جماعت کی امارت سے دستبردار ہو گئے۔ یکم مارچ 1979ء کو آپ کو پہلا شاہ فیصل ایوارڈ دیا گیا۔ اسی برس 27 مئی 1979ء کو آپ اپنے علاج کے لیے امریکا روانہ ہوئے۔ جہاں 22 ستمبر 1979ء کو آپ کا انتقال ہوا۔ 25 ستمبر 1979ء کو آپ کو ذیلدار پارک اچھرہ لاہور میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ان سطور سے اس کارِ تجدید کا اندازہ کیا جاسکتا ہے جو سید مودودی رح نے حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ و برکاتہ ، حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ کے بعد اس سرزمین میں انجام دیا۔ بلاشبہ وہ موجدِ انقلاب ، امام عصر اور غزالیء دوراں تھے۔ خدا اپنی ہزاروں رحمتوں سے سید مودودی رح کی روح مبارک کو نوازے۔ آمین!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply