جسے اللہ رکھے (قسط 8)۔۔عزیز اللہ خان ایڈووکیٹ

میں جھانگڑہ پتن پر رات کو اپنے تھانہ کے اور ایلیٹ کے ملازمین کے ساتھ بلو حسام کی فون کال کا انتظار کر رہا تھا- وقت آہستہ آہستہ گزر رہا تھا-رات کے بارہ بج گئے مگر علو حسام کی کال نہ آئی میں بھی اُسے فون نہیں کرسکتا تھا کیونکہ بلو نے مجھے منع کیا تھا کہ جب تک وہ کال نہ کرے میں نے اُسے فون نہیں کرنا-اب میں بھی بے چینی محسوس کر رہا تھا-اندھیری رات دھیرے دھیرے گزر رہی تھی کبھی کبھی سرکاری گاڑیوں میں بیٹھے ملازمین میں سے کسی کی کھانسی کی آواز سُنائی دیتی تھی تمام ملازمین نے موبائل فون میں پہلے ہی اپنے قبضہ میں کر چُکا تھا اس کا مطلب یہ نہیں کہ مجھے اپنے ملازمین پر اعتماد نہیں تھا مگر میں نہیں چاہتا تھا کہ کوئی ملازم اپنے کسی دوست یا رشتہ دار کو یہ نہ بتا دے کہ وہ کسی ریڈ کے لیے بیٹھے ہیں-میری اطلاع اور تجربہ کے مطابق حمیدہ فوجی جو انتہائی چالاک ملزم تھا سے کُچھ بعید نہ تھا-کسی ملازم کے مُنہ سے غیر ارادی طور پر نکلی کوئی بات اُس تک پہنچ سکتی تھی۔

جب رات کے دو بجے تو میں نے بلو حسام کو فون کرنے کا فیصلہ کیا میں جاننا چاہتا تھا کہ بلو فون اُٹھاتا ہے یا نہیں ؟ میں نے اپنے موبائل سے بلو کا نمبر ملایا تو اُس کا نمبر بند جا رہا تھا اب میری تشویش میں اور اضافہ ہو گیا طرح طرح کے خیالات میرے ذہن میں آنا شروع ہو گئے؟ دریا ئی علاقہ کچہ کے مجرمان انتہاہی سنگدل اور ظالم ہوتے ہیں اگر اُنہیں ذرہ سا بھی شک ہو جائے کہ اُن کے ساتھیوں میں سے کوئی پولیس کو مخبری کر رہا ہے تو اُس مخبر کو اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں-

اب میں بار بار بلو حسام کا نمبر ملا رہا تھا مگر نمبر مسلسل بند جارہا تھا-میں نے معراج خان سے مشورہ کیا کہ اب کیا کرنا چاہیے معراج خان نے کہا سر کُچھ دیر اور انتظار کر لیں ہو سکتا ہے بلو نے خود بھی نشہ کی گولیوں والی شراب پی لی ہو اور باقی ملزمان کے ساتھ بے ہوش پڑا ہو -میں نے معراج خان کی بات مان لی اور مزید انتظار کرنے کا فیصلہ کر لیا -میں تھوڑی تھوڑی دیر بعد بلو حسام کے موبائل پر کال کرتا رہا مگر فون مسلسل بند جا رہا تھا -اب دور کہیں گاؤں کی مسجد سے فجر کی نماز کی آذان کی آواز بھی آنا شروع ہو گئی تھی مگر بلو کا نمبر اب بھی بند تھا- میرے ساتھ آئے ملازمین بھی سرکاری گاڑیوں میں بیٹھ بیٹھ کر تھک گئے تھے -میں نے اب واپس جانے کا فیصلہ کر لیا جو ملازمین گاڑوں سے باہر نکلے ہوئے تھے اُنہیں سوار ہونے کا کہا اور واپس تھانہ کی طرف روانہ ہو گیا -ایلیٹ کی گاڑی میں نے احمد پور نہ بھجوائی تاکہ اگر بلو کی طرف سے اب بھی کوئی اطلاع آئے تو فوری طور پر ریڈ کیا جا سکے-

میں دن بھر بلو حسام کی کال کا انتظار کرتا رہا مگر اُس کی کوئی فون کال مجھے نہ آئی اور اُس کا نمبر بھی مسلسل بند رہا-میں نے اپنے ڈی ایس پی میاں عرفان اُللہ کو تمام صورت حال سے آگاہ کیا جنہوں نے میری ہمت بندھائی اور شاباش دیتے ہوئے کہا آپ محنت تو کر رہے تو اب محنت کا صلہ دینا اللہ کے ہاتھ میں ہے-آخر کار دو دن بعد بلو حسام کی کال آگئی جو آواز سے بے انتہا پریشان لگ رہا تھا بلو نے بتایا کہ عابد ڈائڑ اور حمیدہ فوجی کو مجھ ہر شک ہو گیا تھا اُنہوں نے آپ والی کلاشنکوف بھی مجھ سے چھین لی تھی جو اب حمیدہ فوجی کے پاس ہے-مجھ پر عابد ڈاہڑ نے تشدد بھی کیا ہے مگر میں نے اُنہیں کُچھ نہیں بتایا اور نہ ہی یہ بتایا کہ کلاشنکوف آپ نے مجھے دی ہے اور اب وہ میری کسی بات پر اعتبار نہیں کر رہے –

میں نے بلو حسام کو ہدایت کی کہ اپنی کوشش جاری رکھے مگر مجھے اہنی کلاشکوف اس طرح چھن جانے کا بُہت دُکھ تھا جس طرح میں پہلے بتا چکا ہوں کہ یہ کلاشنکوف میرے بُہت پیارے دوست سردار ظفر خان عباسی نے مجھے کوٹسبزل کی تعیناتی کے دوران دی تھی-
وقت گزر رہا تھا مگر حمیدہ فوجی ،علو ڈائڑ اور عابد ڈاہڑ میرے قابو میں نہیں آرہے تھے -بلو حسام بھی اپنی کہانیاں سُنا سُنا کر مجھے اس بات کا یقین دلاتا رہتا تھا کہ وہ جلد ہی حمیدہ فوجی اور دیگر ملزمان کو گرفتار کروا دے گا-جب بھی بلو مجھے فون کرتا میر ا کلاشنکوف چھن جانے والا زخم پھر سے تازہ ہو جاتا اور میں دل ہی دل میں یہ عہد کرتا کہ اپنی کلاشنکوف ان ملزمان کے قبضہ سے ضرور واپس لانی ہے-

ملزمان کی تلاش جاری تھی میرے تھانہ کے تمام ملازمین اور چوکی ہتھیجی کے ملازمین خاص طور پر حمیدہ فوجی اور دیگر ملزمان کی تلاش انتہائی محنت اور جانفشانی سے کر رہے تھے- میں نے معراج خان Asi کو دیگر تمام کاموں سے روکا ہوا تھا اُس کا کام صرف ان ملزمان کی گرفتاری کی کوشش کرنا تھا –
منی ککس کو گرفتار کیے کافی دن ہو گئے تھے مجھے مننی ککس کی گرفتاری کے وقت لگا تھا کہ منی بقیہ ملزمان کی گرفتاری میں ہماری مدد کرے گا مگر اُس سے مختلف فون کروانے کے باوجود نہ تو حمیدہ فوجی کا نمبر ملا اور نہ ہی وہ بقیہ کسی ملزم کی گرفتاری میں مددگار ثابت ہوا- آخر کار میں نے فیصلہ کیا کہ منی ککس کی گرفتاری ڈال کر اُسے بھی چالان عدالت کر دیا جانا چاہیے-کیونکہ اُس سے اسلحہ کی برآمدگی بھی نہیں ہونی تھی اس لیے میں نے تفتیشی کو کہا کہ منی ککس کا فوری طور پر جسمانی ریمانڈ لے اور تفتیش کو مکمل کرے-

آخر کار ہماری کوششیں  رنگ لائیں اور معراج خان Asi نے بقیہ تین ملزمان میں سے ایک ملزم علو ڈاہڑ کو گرفتار کر لیا- علو ڈاہڑ نے بھی تفتیش میں اپنے جرم کا اقبال کر لیا کہ وہ چھلو حسام کے کہنے پر پولیس پر فائیرنگ والے وقوعہ میں شامل تھا لیکن علو ڈاہڑ نے ایک ایسا انکشاف کیا جس سے میرا سر چکرا گیا-علو نے بتایا کہ جب سے آپ نے بلو حسام کو چھوڑا ہے وہ ہر کسی کو آپ والی کلاشنکوف دیکھاتا ہے اور کہتا ہے میں نے کیسے عزیزاُللہ خان ایس ایچ او کو بے وقوف بنایا ہے-علو ڈاہڑ نے مزید بتایا کہ جس رات اُس نے آپ کو حمیدہ فوجی،عابد ڈاہڑ اور مجھے پکڑوانے کا ٹیلی فون کیا تھا اُس رات بلو حسام کی دعوت پر میں بھی گیا تھا مگر وہاں نہ تو حمیدہ فوجی تھا اور نہ عابد ڈاہڑ ؟ بلو حسام نے سارا ڈرامہ کیا تھا- ہم نے وہاں شراب بھی پی تھی اور جلال پور پیروالہ کے علاقہ میں واردات بھی کی تھی-بلو حسام بار بار آپ کی کلاشنکوف ہمیں دیکھاتا تھا اور آپ کا مذاق اُڑاتا تھا-

تفتیش میں علو ڈاہڑ کی باتیں سُننے کے بعد میں نے بلو حسام کے موبائل نمبر ہر کال کی مگر اُس کا نمبر بند تھا- علو ڈاہڑ کی تمام باتیں مجھے سچی لگ رہی تھیں کیونکہ میں نے سختی سے بلو حسام کو روکا تھا کہ وہ میرے اور اُس کے درمیان ہونے والی باتوں کا کسی سے ذکر نہیں کرے گا- مگر بھر بھی میں نے جھوٹے کو اُس کے گھر تک پہنچانے کا فیصلہ کیا-میں نے بلو حسام کا موبائل نمبر کال ڈیٹا رپورٹ (CDR ) کے لیے بھجوا دیا-دو دن بعد کال ڈیٹا آ گیا- ڈیٹا دیکھنے کے بعد میرا مُنہ کُھلا کا کھُلا رہ گیا جب جب بلو حسام نے مجھے بتایا کہ وہ سیت پور تحصیل علی پور کے کچہ میں حمیدہ فوجی کے ہمراہ ہے اُس وقت اُسکی لوکیشن بیٹ لنگاہ یا چوکی ہتھیجی کے علاقہ میں ہوتی تھی- کال ڈیٹا دیکھنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ میں کس طرح بے وقوف بنتا رہا-بلو حسام کا موبائل نمبر مسلسل بند جارہا تھا معراج خان کے ذریعے اُس کے گھر پر بھی ریڈ کروایا مگر وہ اب غائب ہو چکا تھا-میرے خیال میں اُسے علوڈاہڑ کے پکڑے جانے کے بعد اس بات کا احساس ہوگیا تھا کہ علو ڈاہڑ پولیس کو سب کُچھ سچ سچ بتا دے گا اور وہ اب پولیس سے زیادہ وقت تک دھوکا نہیں کر سکتا تھا-اس کا مطلب تھا میری کلاشنکوف بھی ابھی تک بلو حسام کے پاس تھی کلاشنکوف کے چھن جانے والی بات بھی جھوٹ تھی یہ سوچ کر مجھے اطمنان کا احساس ہوا کہ بلو سے اپنی کلاشنکوف واپس لینا میرے لیے آسان ہو گا کیونکہ اُس کا پورا خاندان تھانہ نوشہرہ جدید کے علاقہ میں رہائش پذیر تھا-

اب میں روزانہ کی بنیاد پر بلو حسام کے گھر اور ٹھکانوں پر ریڈ کروا رہا تھا مگر بلو تو ایسے غائب ہوا تھا کہ جیسے اس دنیا پر اس کا نام و نشان ہی نہ ہو؟حمیدہ فوجی اور عابد ڈاہڑ کی بھی کوئی خبر نہ تھی لگتا تھا وہ جلال پور پیر والا اور ہتھیجی کا علاقہ چھوڑ گئے تھے میں اسی دوران نوشہرہ میں اپنے اتنے مخبر پیدہ کر چکا تھا کہ جس دن وہ اس علاقہ میں داخل ہوتے پکڑے جاتے-
علو ڈاہڑ کا 14 دن کا ریمانڈ جسمانی مکمل ہو چکا تھا تفتیشی افسر اُس سے پولیس پر فائیرنگ کے دوران استعمال ہونے والی ریفل بھی برآمد کر چُکا تھا اور ریفل فارنزک کے لیے بھجوا دی تھی تاکہ موقع  پر ملنے والے خالی خولوں سے اس ریفل کا موازنہ کیا جا سکے کیونکہ قبل ازیں پولیس پر فائرنگ ہونے پر ملنے والے خالی روند بھی فورنزک لیب بھجوایے گئے تھے-اب مجھے کہیں سے کوئی راہ نظر نہیں آرہی تھی میں ہمیشہ اللہ پاک سے دُعا کرتا تھا کہ میری پوسٹنگ کے دوران ہی حمیدہ فوجی اور عابد ڈاہڑ گرفتار ہو جائیں کیونکہ سیاسی دور میں کب تبادلہ ہو جائے کسی کو کیا معلوم ؟جب افسران سیاستدانوں کے آگے لمبے ہو جائیں اور اپنی اپنی نوکریاں بچا رہے ہوں تو ماتحت ملازمین کا کیا حال ہوتا ہو گا-

ایک دن صُبح مجھے میاں عرفان اُللہ ڈی ایس پی احمد پور شرقیہ کی کال آئی کہ میں فوری طور پر اُن کے دفتر  پہنچوں ۔میں سرکاری گاڑی میں سوار ہوا اور احمد پور شرقیہ اُن کے دفتر  پہنچ گیا میاں صاحب دفتر میں موجود نہیں تھے اُن کے ریڈر نے مجھے بتایا کہ وہ اپنی رہائش گاہ پر موجود ہیں اور میرا انتظار کر رہے ہیں- ڈی ایس پی احمد پور شرقیہ کا دفتر تحصیل کچہری میں ہے اور رہائشگاہ بھی کچہری کے پچھلی طرف ہے۔ میں رہائشگاہ پر آگیا بیل دینے ہر گن مین باہر آیا اور مجھے اندر آنے کا بولا میاں صاحب کی فیملی ساتھ نہیں رہتی تھی اور وہ اکیلے رہتے تھے-سردیوں کے دن تھے میاں صاحب گھر کی پچھلی جانب بنے لان میں کرسی پر بیٹھے تھے ساتھ ایک کُرسی اور پڑی ہوئی تھی اُن کے سامنے زمین پر 30/35 سال کا سانولی رنگت والا ایک جوان جس کے مُنہ پر چیچک کے نشان تھے بیٹھا ہوا تھا-جوان کے دونوں ہاتھوں میں ہتھکڑی لگی ہوئی تھی تھوڑی دور میاں صاحب کا دوسرا گن مین کھڑا ہو تھا-

میاں عرفان اُللہ نے مجھے دیکھا تو مسکراتے ہوئے بولے “عزیز خان آپ کو حمیدہ فوجی کی تلاش ہے اگر میں آپ کو اُس کا نیا موبائل فون نمبر دے دوں جو آجکل استعمال ہورہا ہے تو آپ اُسے گرفتار کر لو گے؟ میں نے کہا سر اندھا کیا چاہے دو آنکھیں اگر مجھے نمبر مل جائے تو حمیدہ فوجی کو ضرور پکڑ لوں گا-میاں صاحب نے بتایا کہ زمین ہر بیٹھے ہوئے جوان کا نام ہاشم ڈھول ہے اسے آج احمد پو شرقیہ کی سول ہسپتال سے مخبر کی اطلاع پر گرفتار کیا ہے یہ حمیدہ فوجی کا قریبی ساتھی اور دوست ہے یہ کافی دنوں سے اُسے نہیں ملا اسے بس یہی معلوم ہے کہ وہ آجکل ملتان میں کہیں کرایہ کے گھر میں رہائش پزیر ہے مگر اس نے وہ گھر نہیں دیکھا ہوا میں نے ہاشم ڈھول سے وعدہ کیا ہے کہ اگر یہ حمیدہ فوجی کو گرفتار کروانے میں ہماری مدد کرے تو اسے چھوڑ دیا جائیگا کیونکہ ہاشم ڈھول احمد پور شرقیہ یا بہاولپور کے علاقہ میں وارداتیں نہیں کرتا یہ صرف ملتان ، مظفرگڑھ اور علی پور کے علاقہ میں ڈکیٹی اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث ہے-میاں صاحب نے اپنے ساتھ پڑی چھوٹی ٹیبل سے ایک موبائل فون اُٹھایا اور میرے حوالے کرتے ہوئے بولے اس میں حمیدہ فوجی کا نمبر فوجی کے نام سے سیو ہوگا نمبر نکال کر ملا دیں میاں صاحب نے ساتھ کھڑے گن مین کو کہا ہاشم ڈھول کی ہتھکڑی کھول دیے یہ اب حمید فوجی کو فون کرے گا ایسا نہ ہو ہتھکڑیوں کی آواز سُن کر حمیدہ فوجی ہوشیار نہ ہو جائے-میں نے ہاشم ڈھول کے فون سے فوجی کا نمبر ملا کر سپیکر آن کیا اور فون ہاشم ڈھول کے مُنہ کے ساتھ لگا دیا- اس سے قبل میاں صاحب ہاشم ڈھول کو سمجھا چُکے تھے کہ اُس نے حمیدہ فوجی سے کیا بات کرنی ہے-کافی دیر تک فوجی کے فون کی گھنٹی بجتی رہی اچانک فون پر ہیلو کی بھاری آواز سُنائی دی ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی نیند سے اُٹھ کر بات کر رہا ہو فون پر حمیدہ فوجی بول رہا تھا-

سلام دُعا کے بعد ہاشم ڈھول حمیدہ فوجی سے ادھر اُدھر کی باتیں کرتا رہاُفوری طور پر اُس کی رہائش کے بارے میں دریافت نہ کیا کہ کہیں حمیدہ فوجی کو شک نہ ہو جائے- ہاشم نے آخر میں اُس سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا حمیدہ فوجی نے محتاط انداز میں کہا جب بھی ملتان آئے ایک دن پہلے فون کر لے تاکہ وہ ملتان میں موجود ہو-میاں صاحب نے ہاشم ڈھول کو فون بند کرنے کا اشارہ کیا ہاشم نے حمیدہ کو خدا حافظ کہتے ہوئے فون بند کردیا-
میں نے میاں عرفان صاحب کو مبارک باد دی اب ہم حمید فوجی تک پُہنچ چکے تھے بس اُسے گرفتار کرنے کے لیے ملتان شریف جانا تھا-
میاں صاحب نے اور میں نے یہ فیصلہ کیا کہ اب ایک دن چھوڑ کر ہاشم ڈھول کی حمیدہ فوجی سے بات کروائیں گے تاکہ اُسے کوئی شک نہ ہو جیسا کہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ حمیدہ فوجی انتہائی چالاک اور خطرناک ملزم تھا ایک چھوٹی سی غلطی یا لاپروائی بنا بنایا کھیل بگاڑ سکتی تھی-اسی دوران میں نے ہاشم ڈھول کے نمبر سے حمیدہ فوجی کا نمبر لے کر CDR لینے کے لیے بھجوا دیا تھا تاکہ نمبر کی ڈیٹیل آنے کے بعد فوجی کی لوکیشن کا پتہ چل سکے کہ وہ کہاں کہاں پھرتا رہا ہے اور کس کس سے بات کرتا ہے-

Advertisements
julia rana solicitors london

میری خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا -ہاشم ڈھول کو میاں عرفان اُللہ صاحب نے اپنے گن مینوں کے ساتھ اُن کی رہائش رکھا ہوا تھا-ہاشم ڈھول کو الگ رکھنے کا مقصد کسی دوسرے شخص کو اُس کی گرفتاری کے بارے میں معلوم نہ ہونے دینا تھا-ہاشم کا موبائل فون بھی آن رکھا گیا تھا تاکہ آنے والی کالز ہاشم ڈھول سُن سکے اور اس کے دوستوں کو گرفتاری کا احساس نہ ہو- میں واپس تھان نوشہرہ جدید روانہ ہو گیا اب ایک دن بعد دوبارہ احمد پور شرقیہ آکر ہاشم ڈھول کی حمیدہ فوجی سے بات کروانی تھی اور اس گفتگو کے ذریعے حمیدہ فوجی تک پہنچ کر اُسے گرفتار کرنا تھا-
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply