حرکت کے قوانین (38)۔۔وہاراامباکر

ہم نے یہ تو دیکھ لیا ہے کہ نیوٹن نے اپنے قوانین کیسے بنائے۔ اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ حرکت کے قوانین ہیں کیا اور ان کا مطلب کیا ہے۔

پہلا قانون۔ کوئی بھی جسم، خواہ وہ ساکن ہے یا ایک ہی رفتار سے سیدھا حرکت کر رہا ہے، اپنی حالت برقرار رکھے گا۔ جب اس پر کوئی بھی قوت نہ لگائی جا رہی ہو۔

نیوٹن سیدھی لکیر میں حرکت کرنے کو کسی شے کی فطری حالت کہتے ہیں۔ آج ہم نیوٹونین اصطلاحات سے دنیا کو دیکھتے ہیں، اس لئے یہ ہمیں عجیب نہیں لگتا۔ لیکن یہ ہمارے روزمرہ کے مشاہدات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ہم جو حرکت دیکھتے ہیں، وہ ایسے نہیں ہوتی۔ گرتے وقت اشیا کی رفتار بڑھتی ہے۔ ہوا کی مخالفت میں کم ہوتی ہے۔ پتہ نیچے گرتے ہوئے سیدھا ایک راستے میں نہیں گرتا۔ دور پھینکا ہوا پتھر خمدار راستہ بناتے ہوئے زمین پر آتا ہے۔ نیوٹن نے کہا کہ یہ سب نہ دکھائی دینے والی فرکشن اور گریویٹی ہے جو ہر وقت اثرانداز ہو رہی ہوتی ہیں۔ ان کے بغیر کوئی بھی شے یکساں رفتار سے چلتی رہی گی۔ اگر اس کی رفتار بدل رہی ہو یا راستہ خمدار ہو تو اس کی وجہ کوئی فورس ہے۔

یہ فیکٹ کہ اشیا یکساں رفتار سے حرکت کرتی رہتی ہیں ہمارے لئے خلا میں مہم جوئی ممکن بناتا ہے۔ زمین پر ایک سپورٹس کار صفر سے ساٹھ میل کی رفتار تک خواہ چار سیکنڈ میں پہنچ جائے لیکن اسے رفتار برقرار رکھنے کے لئے کام کرتے رہنا پڑے گا کیونکہ ہوا کی ریززٹنس اور فرکشن اس کے مخالف کام کر رہی ہے۔ خلا میں اس گاڑی کو ایک آوارہ مالیکیول اوسطاً ایک لاکھ میل میں ایک بار ملے گا۔ اس لئے اس کی رفتار کم ہونے کی فکر نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک بار خلائی جہاز حرکت کرنا شروع کر دے تو یہ سیدھی لکیر میں چلتا جائے گا اور رفتار برقرار رکھے گا۔ اور اگر انجن آن رکھا جائے تو رفتار بڑھتی جائے گی۔ ایک سال تک سپورٹس کار والی ایکسلریشن برقرار رکھی جائے تو روشنی کی رفتار کے نصف پر پہنچ جائیں گے۔

ظاہر ہے کہ اس میں عملی مسائل ہیں۔ جیسا کہ ایندھن کا وزن اور ریلیٹیویٹی کے اثرات لیکن ان تک ہم بعد میں آئیں گے۔ اور اگر ہم کسی ستارے تک جانا چاہتے ہیں تو بہت ہی اچھا نشانہ باندھنے کی ضرورت ہو گی۔ کائنات اتنی زیادہ خالی ہے کہ اگر ہم بس کسی بھی سمت میں نکل پڑیں تو اوسطاً ہمیں اس سے بھی زیادہ سفر کرنا پڑے گا جتنا روشنی کو بگ بینگ سے آج تک کا سفر کرنے میں لگا ہے کہ ہم کسی نظامِ شمسی تک پہنچ سکیں۔

نیوٹن نے کسی دوسرے سیارے تک پہنچنے کا نہیں سوچا تھا لیکن اپنے دوسرے قانون میں وہ اس کے لئے درکار فورس اور ماس کا تعلق بتاتے ہیں۔

دوسرا قانون۔ حرکت میں تبدیلی، لگائے جانے والی فورس کے براہِ راست تناسب سے ہے اور یہ اس سمت میں ہوتی ہے جس میں یہ فورس لگائی جائے۔

فرض کیجئے کہ آپ ایک بچہ گاڑی دھکیل رہے ہیں۔ اگر فرکشن کو نظرانداز کر دیا جائے تو یہ قانون کہتا ہے کہ اگر ایک سیکنڈ میں لگائی گئی قوت ایک تیس کلوگرام کی گاڑی کو پانچ کلومیٹر فی گھنٹہ تک لے جاتی ہے تو پھر اگر اس میں لڑکے کو بٹھا دیا جائے اور اس کا وزن ساٹھ کلوگرام ہو جائے تو اسی رفتار کو حاصل کرنے کے لئے دو سیکنڈ تک اتنی قوت لگانی پڑے گی یا پھر ایک سیکنڈ میں حاصل کرنے کے لئے دگنی قوت لگانی ہو گی۔ اچھی خبر اس میں یہ ہے کہ (فرکشن کو نظرانداز کر کے) ایک تین لاکھ کلوگرام کے جہاز کو اگر دس ہزار گنا قوت سے دھکیلا جائے (جو مشکل کام ہے) یا دس ہزار سیکنڈ تک اسی قوت سے دھکیلا جائے (جس کے لئے صبر کی ضرورت ہے) تو بھی اسے پانچ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار تک لے جایا جا سکتا ہے۔ اور اگر آپ میں صبر ہے تو دس ہزار سیکنڈ (تقریباً پونے تین گھنٹے) میں آپ مسافروں سے بھرے جمبو جیٹ کو بھی بچہ گاڑی کی طرح چلا سکتے ہیں۔

F=ma
آج ہم نیوٹن کے دوسرے قانون کو اس مساوات کی شکل میں پڑھتے ہیں لیکن نیوٹن نے اسے اس طریقے سے نہیں لکھا تھا۔ یہ نیوٹن کی وفات سے سو سال بعد جا کر اس طرح لکھا گیا۔

اپنے تیسرے قانون میں نیوٹن کہتے ہیں کہ کائنات میں حرکت کی کل مقدار تبدیل نہیں ہوتی۔ یہ اشیا کے درمیان منتقل ہوتی ہے لیکن اس میں جمع یا تفریق نہیں کی جا سکتی۔ کائنات کے آغاز سے لے کر اختتام تک یہ کل مقدار یکساں رہے گی۔

یہاں پر یہ یاد رہے کہ اس اکاونٹنگ میں حرکت کی ایک سمت میں مقدار اور مخالف سمت میں اتنی ہی مقدار کو اگر جمع کیا جائے تو جواب صفر ہو گا۔ اس لئے ایک شے کو ساکن سے متحرک کیا جا سکتا ہے جب تک کہ اس حرکت کے مخالف کسی اور شے کی حرکت ہو۔

تیسرا قانون۔ ہر عمل کا برابر اور مخالف ردِ عمل ہوتا ہے۔

یہ معصوم سا لگنے والا جملہ ہمیں بتاتا ہے کہ اگر گولی آگے کو نکلتی ہے تو بندوق پیچھے کو آئے گی۔ اگر آپ زمین کو دھکیلتے ہیں تو زمین آپ کو دھکیلتی ہے اور آپ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اگر ایک خلائی جہاز راکٹ کے پیچھے سے گرم گیس خارج کرتا ہے تو آگے کی سمت رفتار بڑھا سکتا ہے۔ اور اس کا حاصل کردہ مومینٹم اتنا ہی ہو گا جتنا اس سے نکلنے والی گیسوں کا۔

نیوٹن نے جو قانون پرنسپیا میں ہمیں دئے، یہ صرف تجریدی ہی نہیں تھے۔ انہوں نے اس کے اچھے پروف بھی دئے تھے کہ محض چند ریاضیاتی اصول چاند کی حرکت سے سمندر کی لہروں تک اصل دنیا کے بے شمار فینامینا کی وضاحت کر سکتے ہیں۔

یہ غیرمعمولی اور حیران کن کامیابیاں تھیں۔ اس سے بھی زیادہ متاثر کن تھا کہ نیوٹن یہ جانتے تھے کہ ان قوانین کے عملی اطلاق کی حدود کہاں پر ہیں۔ اور یہ آئیڈیل دنیا پر لاگو ہیں جہاں ہوا کی ریززٹنس یا فرکشن جیسی چیزیں نہیں۔ گلیلیو کی طرح نیوٹن کے جینیس کا ایک حصہ یہ پہچاننا تھا کہ اصل انوارمنٹ میں کئی پیچیدہ فیکٹر ہوتے ہیں اور جب ہم ان کو الگ کرتے جاتے ہیں تو یہ ان خوبصورت قوانین کو واضح کر دیتے ہیں جو بنیادی سچائی بیان کرتا ہے۔ نیوٹن نے ہماری اصل دنیا کے فیکٹرز کو الگ شناخت کیا اور ان کو الگ کر کے وہ قوانین آشکار کئے جو ان کے پیچھے تھے۔

مثال کے طور پر فری فال کو دیکھیں۔ نیوٹن کا قانون کہتا ہے کہ کسی بھی گرتی ہوئی شے کی رفتار تیز ہوتی رہے گی۔ لیکن یہ صرف ابتدا میں ہو گا۔ اگر یہ خلا میں نہیں تو کوئی بھی شے جو گرائی جا رہی ہے، اپنے راستے کی میڈیم کی وجہ سے رفتار تیز کرنا ختم کر دے گی۔ کیونکہ جتنی زیادہ تیز رفتاری سے یہ گرے گی، اتنی ہی مخالفت بڑھے گی کیونکہ اسے اس میڈئم کے فی سیکنڈ اتنے ہی زیادہ مالیکیول ٹکرائیں گے اور زیادہ تیزرفتاری سے ٹکرائیں گے۔ اور بڑھتی رفتار کے بعد، گریویٹی اور ریززٹنس ایک دوسرے کو بیلنس کر دیں گے اور وہ آبجیکٹ مزید تیزرفتار نہیں ہو سکے گا۔

اب ہم اس زیادہ سے زیادہ رفتار کو ٹرمینل ولاسٹی کہتے ہیں۔ اور کسی جسم کے لئے یہ کتنی ہو گی؟ اس کا انحصار اس کی شکل اور وزن پر ہے اور اس میڈیم پر جس میں یہ جسم گر رہا ہے۔ خلا میں رفتار بڑھنے کی فی سیکنڈ شرح بائیس میل فی گھنٹہ ہو گی۔ لیکن بارش کا ایک قطرہ پندرہ میل فی گھنٹہ کی رفتار کے بعد مزید تیز ہونا بند کر دے گا۔ ٹیبل ٹینس کی گیند بیس میل فی گھٹہ، گالف کی بال نوے جبکہ باولنگ بال ساڑھے تین سو میل فی گھنٹہ تک جا سکے گی۔

آپ کی اپنی ٹرمینل ولاسٹی 125 میل فی گھنٹہ کے قریب ہے اگر بازو اور ٹانگیں پھیلا لیں اور اگر خود کو سکیڑ لیں تو یہ دو سو میل فی گھنٹہ تک ہو جاتی ہے۔ اگر بہت ہی بلندی سے چھلانگ لگائی جائے جہاں ہوا بہت مہین ہے تو آپ اتنی زیادہ رفتار حاصل کر سکتے ہیں جو آواز کی رفتار سے زیادہ ہو جو 761 میل فی گھنٹہ ہے۔ یہ اس وجہ سے کہ پتلی ہوا میں مالیکیولز کم ہونے کی وجہ سے ریززٹنس کم ہے۔ 2012 میں ایک آسٹرین نے آواز کا یہ بیرئیر توڑا تھا۔ 128000 کی بلندی سے چھلانگ لگائی تھی اور 843.6 میل فی گھنٹہ کی رفتار حاصل کی تھی۔

نیوٹن کو اگرچہ ہوا کی خاصیت کا اتنا علم نہیں تھا کہ ٹرمینل ولاسٹی کیلکولیٹ کر سکتے لیکن اپنی کتاب کے دوسرے والیوم میں وہ فری فال کی اس طرح کی تصویر پیش کرتے ہیں جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply