قومی المیہ :گیٹی داس بس حادثے کی پہلی برسی۔۔محمد ہاشم

بلاشبہ 22 ستمبر کا دن نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ پورے ملک کے لئے ایک سیاہ دن تھا جب آج سے ایک سال پہلے بابوسر گیٹی داس کے مقام پر بس حادثے میں 26 قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا اور 7 افراد زخمی ہوئے۔ یوں تو ہم اس ملک میں ایسے اچانک حادثات اور اموات کا سن سن کر بے حس ہوچکے ہیں لیکن ذرا دیر کے لئے سوچ کر دیکھے, 26 افراد, 26 لاشیں جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہوں آپ کے سامنے خون میں لت پت پڑے ہوں, روح کانپ اٹھے۔
یہ لوگ اپنے گھروں سے نکلتے ہیں اور کچھ خوشی اور کچھ غم میں اپنوں سے رخصت ہوتے ہیں, کوئی اپنی نوکری اور روزی روٹی کمانے نکلتا ہے, کوئی اپنی تعلیم کے لئے تو کوئی اپنے عزیز بیمار کے علاج کے لئے رخت سفر باندھتا ہے۔
راستے میں حادثے کا شکار ہوجاتے ہیں۔ کتنے سپنے, کتنے ارمان اور کتنی امیدیں ایک ہی لمحے مٹی میں مل جاتی ہیں۔

ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ یہ تو قراقرم ہائی وے اور بابوسر روڈ پر سفر کرنے والوں کے بخوبی علم میں ہے کہ ہر بار سفر کے دوران راستے میں ایک آدھ حادثہ ایسا دیکھنے کو ضرور ملتا ہے جس میں کبھی ایک یا کبھی ایک سے زائد جانیں چلی جاتی ہیں۔

ہمارا قومی المیہ یہ ہے کہ بحیثیت قوم ہم اپنے حق کے لئے کھڑے ہونے اور خواب خرگوش سے جاگنے کے لئے ہمیشہ کسی بڑے حادثے کا انتظار کرتے ہیں۔ اور یہی وطیرہ ہماری حکومتوں کا بھی رہا ہے۔ ہر بار اصلاحات یا انتظامات کرنے کے لئے پہلے کسی ایسے المناک حادثے کا انتظار کرتے ہیں۔
جبکہ ترقی یافتہ ممالک کی اگر مثال لیں تو شاید جرمنی میں ایک بلڈنگ میں آگ لگی تو ریسکیو ٹیموں نے بروقت کاروائی کی اور تمام افراد کو بچایا اسی دوران اطلاع ملی کہ بلڈنگ کی چھت پر کچھ بطخیں بھی ہیں جو سوئمنگ پول میں موجود ہیں۔ ریسکیو ٹیم نے ان بطخوں کو بچانے کے لئے ہیلی کاپٹر منگوایا اور ان کو بحفاظت نکال لیا۔

جبکہ مذکورہ بالا بابوسر حادثے کے لئے امدادی ٹیموں نے جائے وقوعہ پر پہنچنے کے لئے گھنٹے لگا دئے اور لاشیں اور زخمی سڑک کنارے بے سروسامانی کی تصویر بنے رہے۔ مجھے اس روڈ پر سفر کرتے ہوئے آٹھ سال ہوگئے ہیں۔ بسوں, کوسٹروں, پرائیویٹ کاروں غرضیکہ ہر ٹرانسپورٹ پر سفر کرنے کا تجربہ رہا۔ بسیں چاہے گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس NATCO کی ہوں یا پرائیویٹ کمپنیوں کی, کسی میں بھی احتیاطی تدابیر اور ہنگامی صورتحال کے لئے کوئی انتظام سرے سے موجود ہی نہیں۔ اٹھارہ سے بیس گھنٹے تک ایک بس میں سفر کے دوران کیا کچھ پیش آسکتا ہے اس کا اندازہ ہر ایک کو ہے اور کئی بار ایسی ہنگامی صورتحال کا سامنا ہوا تو معلوم ہوا کہ کسی بھی بس میں فرسٹ ایڈ بکس نام کی کوئی چیز سرے سے موجود ہی نہیں۔ آج تک کسی بھی بس میں سیٹ بیلٹ نام کی کوئی چیز نظر نہیں آئی جبکہ اس روڈ پر سیٹ بیلٹ کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ آج تک کسی بھی سفر کے دوران کسی ڈرائیور یا کنڈیکٹر کو ہنگامی صورتحال میں ایمرجنسی ایگزٹ والا دروازہ کھولنے کا طریقہ بتاتے نہیں دیکھا اور نہ ہی خود ان کو معلوم ہے۔ نہ ہی ان کو کسی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔

بسوں کی کوالٹی, مینٹیننس, اور ڈرائیوروں کی غفلت, روڈ کی خستہ حالی اور سرکار کی طرف سے چیک اینڈ بیلنس کا کوئی تصور ہی نہیں۔ سرکاری کمپنی NATCO جو کہ ایک منافع بخش ادارہ ہے, کی بسوں کی حالت دیکھ کر موت کے کنویں والی گاڑیوں کا شبہ ہوتا ہے۔ آدھی رات دوران سفر ایسے شور کرتی ہیں جیسے ابھی بکھر جائے۔

کچھ پرائیویٹ کمپنیوں نے بسوں کو باہر سے رینوویٹ تو کروایا لیکن عالمی سٹینڈرڈ اور اپنے روٹ کے حساب سے گاڑیوں کی بنیادی اندرونی ضروریات اور کنٹرول سسٹم کا کچھ پتہ ہی نہیں اور آئے روز حادثات میں سے اکثریت ایسی پرائیویٹ کمپنیوں کی بسوں کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ مذکورہ بالا المناک حادثہ بھی ایک پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کمپنی (مشہ بروم) کی بس جو کہ سکردو سے راولپنڈی آرہی تھی,کے ساتھ پیش آیا تھا۔

اس روٹ پر جتنی بسیں چلتی ہیں اس سے زیادہ تعداد میں کوسٹرز چلتی ہیں۔ کوسٹرز کو تو میں چلتی پھرتی موت سمجھتا ہوں۔ چھتوں پر بھاری بھرکم سامان لاد کر ایسے موڑ کاٹتے ہیں کہ پیچھے سے دیکھنے والا خوف سے آنکھیں بند کر دے۔ ان کو تو کوئی نظم و ضبط اور احتیاط نام کی کسی چیز کا پتہ ہی نہیں اور اکثر حادثات کا شکار ہوجاتے ہیں۔

گلگت بلتستان اور اسلام آباد کے درمیان روزانہ کم وبیش 30 سے 0 4 ٹرانسپورٹ بسیں اور کوسٹرز کی سروس رہتی ہیں, سیزن کے حساب سے تعداد تھوڑی اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے۔ ان گاڑیوں میں کسی کا بھائی کسی کا باپ کسی کی ماں کسی کا بیٹا, بیٹی سفر کر رہے ہوتے ہیں۔ کسی ماں سے پوچھیں ایک بچہ کتنی مشکلوں سے بڑا ہوتا ہے اور کتنا قیمتی ہوتا ہے۔ یہ بھیڑ بکریوں کا ریوڑ نہیں بلکہ انسان ہیں۔ ان کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک روا رکھنا کسی طور انسانیت اور مسلمانیت نہیں۔ حکام اس بات سے بالکل واقف ہیں کہ مسائل کیا ہیں اور ان کو حل کیسے کیا جاسکتا ہے۔ بس سنجیدگی نہیں دکھا رہے۔ ان کے اپنے بچے یا تو جہاز میں سفر کرتے ہیں یا پھر سرکاری گاڑیوں کو باپ کی جائیداد بنا کر استعمال کرتے ہیں۔

دوست احباب بابوسر حادثے کے دوران ریسکیو آپریشن میں تاخیر پر سراپا احتجاج ہیں جو کہ بلاشبہ ایک اہم نکتہ ہے لیکن میرے نزدیک اس سے بھی اہم نکتہ یہ ہے کہ ہم اس بات کا مطالبہ اور احتجاج کب کرینگے کہ ایسے حادثات کی روک تھام کے لئے عالمی معیار کے مطابق تمام ٹرانسپورٹ کمپنیوں کا چیک اینڈ بیلنس ہو۔ ورنہ لاشیں اٹھانے میں سپیڈ دکھانے سے کوئی واپس نہیں آئے گا بلکہ ان کو اس نوبت اور اس حالت تک پہنچانے سے پہلے دیکھنا چاہئے کہ کیا کیا خطرات ہیں اس روڈ پر اور ان سے کس طرح عوام کو محفوظ رکھا جا سکے۔ بسوں کی کوالٹی مینٹیننس کون کرتا ہے کون دیکھتا ہے کچھ معلوم نہیں۔ پھر بابوسر جیسے خطرناک روڈ پر ایسی بسوں کو سفری اجازت کس بنیاد پر اور کن شرائط پر ملتی ہے؟ پریشر کنٹرول سسٹم اور چڑھائی اترائی میں ان بسوں کی کیا خاصیت اور کتنا کنٹرول ہے اور ساتھ ہی ساتھ ڈرائیور حضرات کی کارکردگی اور تجربہ کو کون دیکھتا ہے؟ کون ذمہ دارہے؟
کوئی ہے جو ذمہ داری لینے کو تیار ہو؟
کوئی ہے جو اب بھی ہمیں یقین دہانی کرائے کہ ایسے واقعات کی روک تھا کے لئے اقدامات اٹھائیں جائیں گے؟

Advertisements
julia rana solicitors

باقی سفری سہولیات جیسے معیاری ہوٹل, واشروم اور ریسٹ ایریا وغیرہ کی تو کوئی بات ہی نہیں کرتا وہ تو ثانوی ہیں۔ جہاں جان بچانے کے لالے پڑ جائیں وہاں غیر معیاری اور مہنگے کھانوں, گندگی بھرے ہوٹلوں, صفائی ستھرائی کا ناقص نظام, واشروم خاص طور پر خواتین کے لئے انتظامات اور بیماروں اور معذوروں کے لئے سہولیات کا سوال تو ابھی بہت دور ہے۔
اور کتنی لاشیں چاہئیں  حکمرانوں کو؟ کافی نہیں کیا؟
یہ خون نا حق ہے جو بہہ گیا اور میں اس کو قتل سمجھتا ہوں, ایک اجتماعی قتل, اور یہ سب ان حکمرانوں کے گریبان پکڑیں گے بروز حشر اور اگر ہم نے آواز نہ اٹھائی تو یاد رکھنا ہم بھی اس قتل کے مجرم ٹھہریں گے۔
اٹھو اپنے لئے اور اپنی آنے والی نسلوں کے تحفظ کے لئے اٹھو۔ یا پھر حسب عادت ہر حادثے کے کچھ دنوں کے جذبات ٹھنڈے کر کے پھر سے خواب خرگوش کے مزے لو اور خدا ناخواستہ ایسا کوئی اور حادثہ ہو اور تمہارا کوئی عزیز بھی ان میں شامل ہو۔ خدانخواستہ۔
اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے اور مرحومین کی مغفرت فرمائے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply