سپرلی گل کے معاشقے (2)۔۔ احسان داوڑ

میں نے کمرے میں جھانکا تو میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کیونکہ سپرلی گل جس کو مسجد تک باجماعت نماز کیلئے لانے میں اس کے والد اور چچاؤں کے تمام حربے پاکستان کی کشمیر پالیسی کی طرح ناکام ہو چکے  تھیں ، اج وہی سپرلی گل مصلہ بچھائے انتہائی خشوع و حضوع کے ساتھ دو زانو بیٹھا ہے اور تسبیح کے دانے ایسی تیزی کے ساتھ لڑھکا رہا ہے کہ کڑ کڑ کی ایک زبردست اواز پیدا ہو رہی ہے ۔ میں نے چپکے سے دروازہ اپنے پیچھے بند کیا اور دبے قدموں چلتا ہوا اس کے کاندھوں پر زور سے ایک دھپ مارا اور ” غوں” کی ایک فول والیوم والی اواز نکالی جس سے سپرلی گل کسی سپرنگ کی طرح اچھلا اور اگلے ہی لمحے اس نے میرا گردن دبوچ رکھا تھا ۔ بہر حال جب ہم دونوں بات کرنے کے قابل ہو ئے تو سپرلی گل نے بتایا کہ وہ اپنی نئی نویلی “محبوبہ” کو پانے کیلئے کو ئی زود اثر وظیفہ کررہا ہے ۔ مت پوچھئے کہ کہ ہنسی سے میرا کیا حال ہوچکا تھا جب سپرلی گل کے منہ سے وظیفے کا نام سنا ۔ ویسے بھی وہ لڑکی جو شاید عمر میں اس سے دوگنی تھی، اس کی منگنی ہوچکی تھی اور عنقریب شادی بھی ہونے والی تھی ۔ صبح سویرے سپرلی گل نے مجھے جو کچھ بتایا تو وہ الگ سے ایک بریکنگ نیوز سے کم نہیں تھا اس نے کہا کہ رات کو میں نے استخارہ پڑھا ہے جس میں مجھے غیبی اشارے ملے ہیں کہ اس کی محبوبہ کے ساتھ اس کی شادی بڑی نیک فال ہو گی ۔ اب کے بار مجھے ہنسی نہیں بلکہ پیٹ میں مروڑ اٹھا کیونکہ میں واقعی جیلس ہوچکا تھا کہ مبادا سپرلی گل کو اگر یہ لڑکی ملی تو پھر تو اس کے مزے تھے کیونکہ ہم تو ایک دوسرے کے خلاف ایسے بد نیت واقع ہوئے تھے کہ امتحان میں سپرلی گل اگر ہمارے پیچھے بیٹھتا تو ہم اپنے گتے کی حفاظت ہوں کرتے جیسے گتہ نہ ہوا کینگرو کا بچہ ہوا تاکہ سپرلے گل کوئی ایک ادھ لفظ دیکھ نہ لیں ۔ اور ویسے بھی ہمارے سکول میں فیل ہونے کا تصور تو سرے سے تھا ہی نہیں ۔
بہر حال سپرلی گل کو ” استخارہ” سے اتنی جرات ملی کہ اس نے اپنے والد سے اپنی خواہش کا اظہار کیا ۔ رات کے کھانے کے بعد اس کے والد نے ان کے تینوں چچاؤوں کو بھی بیٹھا لیا جن میں دو تو ابھی تک غیر شادہ شدہ تھے ۔ اور بہت ہی بظاہر سنجیدگی سے لیکن اصل میں مزحیہ اندازمیں بتا رہا تھا اور تھوڑی سی تفصیل کے بعد پہلے سے انتظام شدہ ڈنڈوں کو اٹھا کر ایک ڈنڈا اس کے چچاوؤں کو بھی عنایت کیا جس کے بعد سپرلی گل کے عشق کو نکالنے کا مرحلہ شروع ہوگیالیکن سپرلی گل نے جوں ی والد کے ڈنڈے کو اٹھتے ہوئے دیکھا تو روٹی کا ایک ٹکڑا منہ میں اور دوسرا ہاتھ میں لئے پیدل ایسے سرپٹ بھاگ نکلا کہ کسی نے اس کی ہوا تک نہیں دیکھی ۔ سپرلی گل کو بھاگتے ہوئے دیکھ کر اس کے پالتو کتے کو بھی شاید دوڑنے کے اس مقابلے میں شرکت کی خواہش ہو ئی اور دونوں ایک دوسرے سے سبقت لیجانے میں مگن رہے ۔ کئی دن کے بعد بھی جب سپرلے گھر نہیں ایا تو معلوم ہوا کہ وہ دریائے ٹوچی کے اس پار اپنے ماموں کے گھر میں ائی ڈی پیز ہوچکے ہیں ۔
ہمارا تو وہ یار تھا اس لئے ایک دن ہم نے سپرلی گل کے دیدار کیلئے اپنے اٹھ عدد دوستوں کے ہمراہ اس کے ماموں کے گھر کی زیارت کا شرف حاصل کیا ۔ ارادہ تو یہ تھا کہ سپرلے کو اپنے ساتھ لئے ائینگے ۔ ہم نے جب انہیں اطلاع دی تو اس کے ایک لا اُبالی سے کزن نے ہمیں پہلے تو سر سے لیکر پاؤں تک یو ں دیکھا جیسے ہمارے سروں پر سینگ نکل ائے ہوں پھر اس نے بتایا کہ سپرلے تو سارا سارا دن گھر سے باہر کھیتوں کے اس پاس منڈلاتا رہتا ہے ۔ میں نے اس کے کزن کی بات سُنی تو میرے کان کھڑے ہوگئے ۔
ہمارے ساتھ دیگر دوستوں نے مجھے شک کی نظر سے دیکھا تو سب کو ساتھ لیکر سپرلی کی تلاش میں نکل پڑے ۔ راستے میں میں نے اپنے دوستوں سے کہاکہ کیا اپکو معلوم ہے کہ موصوف نے اس گھٹن والے علاقے میں پورا ہفتہ گذار دیا اور گاؤں نہیں ارہا اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے ۔ نوازی نے کہا کہ وہ اپنے والد سے ڈرتا ہے اس لئے گھر نہیں ارہا ۔ میں کہا کہ نہیں یار ہو نہ ہو ہمارے اس نابغئہ روزگار صاحب نے یہاں ایک نیا معاشقہ شروع کردیا ہے ۔ کھیتوں کے پاس پہنچ کر سپرلے کو دیکھا جس نے کے- ٹوسگریٹ کو مُٹھی میں دبایاہے اور سگریٹ کے بجائے پورے مُٹھی کے کش لے رہا ہے ۔ ہمیں دیکھ کے بھی بندہ ٹس سے مس نہیں ہوا لیکن ہم بھی ایسے ڈھیٹ واقع ہو ئے تھے کہ سپرلے کو گھیر لیا ۔ اس کی مجنون جیسی حالت اور ایک ہفتے سے پہنے ہو ئے کپڑوں کودیکھ کر ہی اندازہ ہوتا تھا کہ بندہ اجکل غم ہجران کا مارا ہوا ہے ۔ ہم نے ان سے نہ انے کی وجہ پوچھی تو بتایا کہ یار یہاں ماموں کے پڑوس میں انہوں نے ایک اور معاشقے کا اغاز کردیا ہے جس میں اس کو کامیابی کا ایک سو دس فیصد یقین تھا ۔
( سپرلی گل کے اس معاشقے کی تفصیلات ائندہ قسط میں ملاحظہ فرمائیں اور اپنے فیڈ بیک سے نوازئے گا)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply