نیوٹن ۔ فزکس کی مشین (36)۔۔وہاراامباکر

خیال کا وہ بیج جو سائنس کا سب سے بڑا درخت بنا، وہ ملاقات تھی جو کیمبرج میں نیوٹن کی ایڈمنڈ ہیلے کی ساتھ گرمی کے موسم میں ہوئی تھی۔ اس سال جنوری میں آسٹرونومر ہیلے رائل سوسائٹی آف لندن میں اپنے دو ساتھیوں سمیت اس وقت کا گرما گرم ٹاپک ڈسکس کر رہے تھے۔ چند دہائیاں قبل، ڈنمارک کے ٹائیکو براہے نے غیرمعمولی ایکوریسی سے سیاروں کا ڈیٹا اکٹھا کیا تھا۔ کیپلر نے ان کی بنیاد پر سیاروں کے مدار کے تین قوانین دریافت کئے تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ سیاروں کے مدار بیضوی ہیں جن کے فوکس میں سورج ہے اور یہ مدار کچھ قوانین کی پیروی کرتے ہیں۔ مثلاً، ایک سیارے کو مدار میں چکر مکمل کرنے کے لئے جو وقت لگتا ہے، اس کا سکوائر سیارے کے سورج سے فاصلے کے اوسط کے کیوب سے متناسب ہے۔ ایک طرح سے یہ قوانین مختصر اور خوبصورت وضاحتیں تھیں جو بتاتی تھیں کہ سیاروں کی حرکت ہوتی کیسے ہے۔ لیکن دوسری طرف یہ صرف مشاہدات تھے۔ ایڈہاک بیانات تھے جو کیوں کے سوال کا جواب نہیں دیتے تھے۔ کہ آخر ایسا کیوں ہے۔ یہی اصول ہی کیوں؟

ہیلے اور ان کے ساتھیوں کو شک تھا کہ کیپلر کے قوانین کسی گہرے سچ کے عکاس ہیں۔ خاص طور پر، انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ سورج سیاروں کو اپنی طرف کسی فورس سے کھینچتا ہے جو فاصلے کے سکوائر کے حساب سے کمزور پڑتی ہے تو کیپلر کے قوانین سمجھ میں آ جاتے ہیں۔ (ریاضی میں انورس سکوائر لاء کے مطابق)۔

اس خیال پر دلائل جیومیٹری کے مطابق دئے جا سکتے تھے۔ اگر سورج کے گرد سفئیر بنایا جائے جس کے مرکز میں سورج ہو تو پھر اس سفئیر کے تمام نکات سورج سے برابر فاصلے پر ہوں گے۔ اور اس پر اگر کوئی فورس فیلڈ ہو تو بڑے سفئیر پر ہر جگہ برابر ہو گا۔ اور اگر ہم تصور کریں کہ اس سفئیر کو پہلے سے دگنا کر دیا گیا ہے تو جیومیٹری یہ بتاتی ہے کہ اس سفئیر کا سطحی رقبہ چار گنا ہو گیا۔ اور سورج کی کشش کی قوت اس چار گنا رقبے پر تقسیم ہو گی اور کسی ایک نکتے پر پہلے سفئیر کے مقابلے میں ایک چوتھائی رہ جائے گی۔ جس طرح اس سفئیر کا قطر بڑھاتے جائیں گے، یہ فورس سکوائر کے حساب سے کم ہو گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہیلے اور ان کے ساتھیوں کا خیال تھا کہ کیپلر کے قوانین کے پیچھے یہ سکوائر لاء ہے۔ لیکن کیا وہ اسے ثابت کر سکتے تھے؟ ان کے ایک ساتھی نے کہا کہ ہاں۔ یہ رابرٹ ہک تھے۔ اس دعوے پر کرسٹوفر رین نے ہک کو کہا کہ وہ اس ثبوت کے عوض انعام دینے کو تیار ہیں۔ ہک نے انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ دوسرے لوگ اس کی کوشش کر کے دکھائیں تا کہ انہیں خود پتا لگ جائے کہ یہ کتنا دشوار کام ہے۔ کیا ہک واقعی یہ مسئلہ حل کر چکے تھے؟ ممکن ہے۔۔۔۔ لیکن ممکن تو یہ بھی ہے کہ ہک نے ایسی ٹرین بھی بنا لی ہو جو اڑ کر مریخ تک پہنچ سکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے یہ ثبوت کبھی کسی کو دکھائے نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس سے سات ماہ بعد ہیلے کیمبرج میں آئے تو نیوٹن سے ملاقات ہوئی۔ ہک کی طرح نیوٹن نے بھی کہا کہ ان کا کام ہیلے کے خیال کو ثابت کر سکتا ہے۔ نیوٹن اپنے کاغذوں میں ڈھونڈتے رہے لیکن انہیں بھی یہ نہ ملا۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ ڈھونڈیں گے اور اگر ملا تو بھجوا دیں گے۔ مہینوں گزر گئے، ہیلے کو کچھ نہ ملا۔ ہیلے نے دو ذہین سائنسدانوں کو اپنا مسئلہ بتایا تھا۔ دونوں نے کہا تھا کہ حل اس کے پاس ہے لیکن انہیں ملا کچھ بھی نہیں تھا۔

دوسری طرف، نیوٹن کو اپنے کاغذوں میں یہ ثبوت مل گیا تھا لیکن جب دوبارہ جائزہ لیا تھا تو ایک غلطی پکڑ لی تھی۔ اور یہ ان کے لئے ایک چیلنج بن گیا تھا۔ انہوں نے دوبارہ اس پر کام شروع کیا اور دوبارہ کی گئی خاصی محنت کے بعد کامیاب ہو گئے۔ اس سال نومبر میں انہوں نے نو صفحات پر لکھا مضمون ہیلے کو بھیجا جس میں ثابت کیا گیا تھا کہ کیپلر کے قوانین انورس سکوائر لاء کا ریاضیاتی نتیجہ ہیں۔ اس مضمون کو انہوں نے “اجسام کی مداروں میں حرکات” کا نام دیا۔

ہیلے اچھل پڑے۔ انہوں نے کہا کہ یہ معرکة الآرا کام ہے اور چاہتے تھے کہ رائل سوسائٹی اسے پبلش کرے لیکن نیوٹن نے روک دیا۔ “اب کہ جب ہم اس پر بات کر ہی رہے ہیں تو میں پیپر پبلش کرنے سے پہلے اس کی جڑ تک پہنچنا چاہتا ہوں”۔

اس کے بعد جو ہوا، وہ بے نظیر تھا۔ کسی بھی انسان کے لیئے جسمانی اور ذہنی حدود کو کھینچتی ہوئی کی گئی محنت سے بہت ہی بڑی دریافت تھی۔ یہ انسانی فکری تاریخ کی انمول کامیابی تھی۔ نیوٹن واقعی اس کی جڑ تک پہنچ گئے۔ اور یہ دکھا دیا کہ حرکت اور فورس کی ایک یونیورسل تھیوری ہے جو ہر شے پر لاگو ہے، خواہ زمین پر ہو یا آسمان پر۔

ان اٹھارہ مہینوں میں نیوٹن نے اور کچھ بھی نہیں کیا۔ صرف پرنسپیا پر ہی کام کیا۔ وہ اب فزکس کی مشین تھے۔ اور وہ ایسے ہی تھے۔ کسی چیز میں محو ہو جاتے تو کھانے کا ہوش رہتا اور نہ ہی نیند کا۔ نیوٹن پہلے بھی ایسا کرتے رہے تھے لیکن یہ اٹھارہ مہینے انہوں نے جیسے گزارے، وہ شاید ہی کوئی اور کر سکتا ہو گا۔ انہوں نے عملی طور پر ہر کام ختم کر دیا۔ اپنے کمرے سے نکلنا بند کر دیا۔ کبھی ڈائننگ ہال میں کچھ کھانے آ جاتے اور وہ بھی کھڑے کھڑے اور پھر واپس۔ انہوں نے اپنی الکیمیا کی لیبارٹری کا دروازہ بھی بند کر دیا۔ اپنی تھیولوجیکل انوسٹیگیشن بھی چھوڑ دی۔ لیکچر دیتے رہے کیونکہ وہ نہیں چھوڑے جا سکتے تھے۔ لیکن ان کے لیکچرز ناقابلِ فہم ہونے لگے تھے۔ طلبا نے آنا کم کر دیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ایسا کیوں تھا۔ وہ لیکچر میں پرنسپیا سے اپنے لکھے نوٹس میں سے ہی کچھ دہرا دیتے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایڈمنڈ ہیلے کی شہرت ان کے دریافت کردہ دمدار ستارے ہیلے کامٹ کی وجہ سے ہے۔ لیکن ان کا وہ بڑا کام جس کا انہیں خود بھی معلوم نہیں تھا، نیوٹن کے ذہن میں وہ سوال پیدا کر دینا تھا۔ اس کے جواب حاصل کرنے کی جستجو میں نیوٹن اپنے بیس سال پہلے شروع کئے گئے کام کی تکیل کی طرف بڑھ رہے تھے۔

نیوٹن بیس سال پہلے کے مقابلے میں زیادہ مہارت رکھتے تھے، زیادہ سائنسی تجربہ تھا۔

کیمبرج کے اس خبطی پروفیسر کے ذہن پر سوار اس جنون کے نتیجے میں نوعِ انسان اپنی فکری تاریخ میں ایک لمبی جست لگانے لگی تھی۔ نیوٹونین انقلاب آنے کے قریب تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”نیوٹن ۔ فزکس کی مشین (36)۔۔وہاراامباکر

Leave a Reply to Assad Abbas Cancel reply