ایک عظیم مسیحا۔۔محمد نوید عزیز

22 مئی 2020ء، 28 رمضان المبارک، جمعۃ الوداع بعد از نماز مغرب جیسے ہی خبر ملی کہ کراچی میں ایک طیارہ حادثے کا شکار ہوگیا ہے۔ پورے ملک میں سوگ کے بادل چھا گئے، ہر دل پریشانی میں ڈوب گیا، اور پھر حادثے پہ حادثہ یہ ہوا کہ اس بدنصیب طیارے میں لالہ موسی کی ہردلعزیز شخصیت جناب محترم ڈاکٹر مہر عطاءاللہ صاحب بھی موجود تھے، جو اس حادثے کا شکار ہوگئے۔ طیارہ مکانات پر گرا اور اس کے بعد طیارے میں آگ لگ گئی، 2 افراد کے علاوہ طیارہ مسافروں اور عملے سمیت جل گیا۔ اس خبر کے بعد ہر آنکھ اشکبار تھی۔ ہر شخص کی زبان پر ڈاکٹر صاحب شہید کے لئے دعائے مغفرت اور ان کی منفرد اور اچھی عادتوں کے تذکرے تھے۔

ڈاکٹر صاحب گزشتہ چند سالوں سے رمضان المبارک کا آخری عشرہ مدینہ منورہ میں گزارتے، اور وہی اعتکاف بھی کرتے، مگر اس سال موجودہ حالات کی وجہ سے نہ جا سکے اور اس حادثے کا شکار ہوگئے۔

اللہ نے ڈاکٹر صاحب کو دلوں کو جیتنے کا ملکہ عطا فرمایا تھا۔ جو شخص ایک دفعہ ڈاکٹر صاحب سے مل لیتا، وہ ان کا گرویدہ ہو جاتا۔

ایک بزرگ اپنا واقعہ سنا رہے تھے، کہنے لگے کہ میں کافی عرصے سے چسٹ انفیکشن کا مریض تھا۔ کافی ڈاکٹروں کو چیک کروایا تمام ڈاکٹر اپنی فیس لے لیتے، میڈیسن کا ایک بڑا تھیلا تھما دیتے اور اپنے کلینک کا چکر لگواتے رہتے۔ جب آرام نہ آتا تو کسی دوسرے ڈاکٹر کا بتا کر اس کی طرف بھیج دیتے، ایسے میں تمام ڈاکٹر مجھ سے فیس بٹورتے اور چکر لگواتےرہتے مگر مجھے کسی سے کوئی افاقہ نہ ہوتا۔ کسی جاننے والے نے محترم ڈاکٹر عطاء اللہ صاحب کا پتا بتایا۔ میں جیسے ہی ان کے کلینک کھاریاں کینٹ پہنچا، ڈاکٹر صاحب بہت اچھے طریقے سے ملے، انہوں نے تسلی سے میری بات سنی، مجھے چیک کیا، بہت عزت دی اور چائے، پانی کا اس انداز میں پوچھا جیسے میں ان کا جاننے والا ہوں۔ پھر مجھے ایک ای۔ این۔ ٹی سپیشلسٹ کے پاس ریفر کر دیا۔

پھر بزرگ بتانے لگے کہ میں ڈاکٹر صاحب کی اس بات سے بہت متاثر ہوا کہ انہوں نے نہ فیس لی بلکہ اچھا مشورہ دیا۔ اگر وہ چاہتے تو دوسرے ڈاکٹروں کی طرح مجھے اپنے کلینک کے چکر لگوا سکتے تھے۔ میں مجبور تھا، میں ضرور ان کی بات مان لیتا مگر انہوں نے ایک نیک اور عظیم مسیحا کے طور پر مجھے تسلی دی، ان کی یہ نیکی میں کبھی نہیں بھول پاؤں گا۔ اور جس ڈاکٹر کا انہوں نے بتایا تھا اس کی میڈیسن سے میں بالکل صحت یاب ہوگیا۔ اللہ ڈاکٹر صاحب شہید کے درجات بلند فرمائے۔

ڈاکٹر صاحب شہید ایک وسیع حلقہ احباب رکھتے تھے۔ یہ تو صرف ایک مثال تھی ایسی کئی مثالوں سے ڈاکٹر صاحب شہید کی زندگی بھری پڑی ہے۔ ضلع گجرات کا تقریبا ً ہر شخص ڈاکٹر صاحب شہید کی اچھائیوں کی الگ الگ داستان سنا سکتا ہے۔

میری ڈاکٹر صاحب شہید سے معرفت تایاجان عبداللطیف سیٹھی اور چچا جان عبدالوحید سیٹھی کافی ملاقات رہی۔ ڈاکٹر صاحب شہید ہر بار اس انداز سے ملتے کہ ان کے الفاظ اور انداز گفتگو ہمیشہ میرے لئے سنہری حروف کا درجہ رکھتے۔ وہ ہمیشہ مجھے بیٹا کہہ کر پکارا کرتے۔

ایک دفعہ ڈاکٹر صاحب شہید کا درس قرآن سننے کی سعادت نصیب ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب شہید کے انداز گفتگو اور الفاظ کے اتار چڑھاؤ سے لگ رہا تھا جیسے ایک علم کے سمندر کا بند کھول دیا گیا ہو اور پانی بہت تیزی سے بہہ رہا ہو جس سے پیاسے لوگ سیراب ہو رہے ہو ں۔

ڈاکٹر صاحب نے اپنے واٹس ایپ اباؤٹ( About) میں 14 اگست 2018ء سے لکھا ہوا تھا” مجھے پاکستان پر فخر ہے” ۔
اپنے ملک سے اس محبت کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب شہید فلاحی منصوبوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ ڈاکٹر صاحب اخوت مسجد اور پنجاب کا سب سے بڑا اولڈ ہاؤس بنوا رہے تھے۔ ہر سیاسی، سماجی اور مذہبی حلقوں کی جان تھے۔ ڈاکٹر صاحب شہید تعصب سے پاک شخصیت کے مالک تھے وہ ہر مسلک کے افراد کو خندہ پیشانی سے ملا کرتے۔ یہ ڈاکٹر صاحب کی اپنے ملک سے محبت تھی کہ وہ اپنے ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے۔
اللہ نے ڈاکٹر صاحب شہید کو ان کی اچھائیوں کی وجہ سے تین بشارتوں سے نوازا:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات کو مرتا ہے اللہ اسے قبر کے فتنے سے محفوظ رکھتا ہے۔ ( ترمزی: 1074 )

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جل کر مرنے والا شہیدہے۔ ( ابو داوُد: 3111 )

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کہ جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں میں کس دیا جاتا ہے۔
( صحیح بخاری: 3277 )

مرنے والے کے لئے سب سے بہتر تحفہ اس کے لئے دعائے مغفرت ہے۔ ہم سب کو ڈاکٹر صاحب شہید کے لیے مغفرت کی دعا کرنی چاہیے۔
کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالی کسی نیک بندے کا جنت میں درجہ بلند کرے گا تو وہ پوچھے گا! اے میرے رب یہ درجہ میرے لیے کہاں سے؟ اللہ تعالی فرمائے گا: تمہارے حق میں تمہاری اولاد کی دعائے مغفرت کی وجہ سے۔
(مسند احمد: 3636 )

Advertisements
julia rana solicitors

اللہ ہمیں اپنے مرحومین کے لئے دعائے مغفرت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اللہ ہم سب کو اسلام پر زندہ رکھے اور جب موت آئے تو حالت ایمان میں آئے۔ آمین!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply