تربیت کے موضوع سے ایک اہم نقطہ۔۔ڈاکٹر سارہ شاہ

مائیں اکثر  بچوں کی تربیت کے حوالے سے پریشان رہتی ہیں۔یہ پریشانی  زیادہ تر انگزائٹی اور فرسٹریشن میں بدل جاتی ہے۔
کیونکہ تربیت شاید واقعی اتنا ہی مشکل عمل ہے ۔خاص طور پہ ایسے زمانے میں جس میں فتنوں کا ظہور ہے۔صرف ضروریات کو پورا کرنا ہی تربیت نہیں بلکہ اس تربیت کا حصہ ہے جس میں اوّلین مقصد اور اہم ترجیح ایمان کی آبیاری ہے۔۔ جسمانی ضروریات  کے ساتھ  جذبات اور  روحانی  ضرورتوں کو پورا کرنا ہی اوّلین ترجیح ہے۔ہمہ وقت،طویل،محنت طلب عمل ۔۔جس میں ماں کے  دن رات ایک ہو جاتے ہیں،نیندیں اڑ جاتی ہیںدعائیں فقط بچوں سے شروع ہو کر بچوں پہ ختم ہوتی ہیں۔اکثر دل  ہی  دل  میں  لوگوں کے بچوں سے اپنے بچے کا مقابلہ ہونے لگتا  ہے ،کبھی زمانے کے معیار پہ ہماری  تربیت پوری نہیں اترتی اور کہیں ہمارے بچے اس standard پہ پورے اترتے نظر نہیں آتے ۔

کبھی لگتا ہے کہ دنیا کے بچے بہترین اسکلز سے مستفید ہو رہے ہیں اور ہمارے بچے کہیں پیچھے نہ  رہ جائیں۔ایسے اور اس طرح کے خیالات سے دل ڈوب  ڈوب  جاتا ہے۔اُس وقت والدین  عزم لے کر اٹھتے ہیں اورپھر کہیں تھک جاتے ہیں۔اس اثناء میں فی الحال صرف ایک پہلو کی طرف توجہ دلانا مقصد ہے۔۔
ہر بچے  کو اللہ نے مختلف ذہن،مختلف صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے ۔
مختلف ماحول کے ساتھ۔۔۔
مختلف عادات و اطوار اور ذہنی سطح بھی مختلف
اس لئے یہاں مقابلہ “ممنوع” ہے۔
اپنے بچوں میں ہی دیکھیں۔۔۔
ہر بچہ مختلف عمر میں چلنا سیکھا
ہر بچہ الگ وقت میں بولنا سیکھا
ہر ایک میں سیکھنے کی صلاحت مختلف ہے۔
ہر ایک کا respond کرنے کا انداز مختلف۔
محبت کا اظہار،ناراضگی،انسیت،ضد ،غصہ ہر ایک انداز مختلف۔
کوئی بہت چپکو بچہ ہے کوئی اکیلے لیٹ کر بھی سو جاتا ہے،
کوئی ہر وقت پیار لینے کے لئے آگے پیچھے لگا رہتا ہے اور کسی کو پیار دینے کے لئے بلانا پڑتا ہے۔غرض ماں جانتی ہے اور بچے کے ساتھ ساتھ سیکھ بھی جاتی ہے۔
اور سب سے اہم بات،ہر بچے میں نیکی کا مادہ بھی اللہ نے مختلف رکھا ہے۔۔۔کسی میں رب کا احساس جلد ہی ہو جاتا ہے ۔
کسی بچے میںself accountability بھی  زیادہ ہوتی ہے۔
کوئی جلد ہی رجوع کرلیتا ہے،اورکوئی ضد پہ اَڑ جاتا ہے۔
کسی بچے  کے  اندر کی  آواز ہی بتا دیتی ہے کہ یہ کام غلط ہو گیا اور کسی بچے کو بار بار تنبیہ کرنی پرتی ہے کہ غلطی ہوئی  اب دوبارہ نہیں۔
تو ماں کی محنت بھی مختلف ہوتی ہے۔کوشش اور محنت بھر پور لیکن انداز مختلف ۔
جیسے کوئی بچہ ایک بار میں یاد کرلے،اور کسی کو بار بار دہرائی کروانی پڑے۔
کمزور بچے پہ ماں کی توجہ  زیادہ ہوتی ہے جو کمزوری کا اعتراف اپنی عادت سے کردے ،لمحہ لمحہ ساتھ ساتھ اس بچے کی نگہداشت۔۔۔
اور ذہین اور ہو نہار بچہ جو ماں کے  ایک اشارے پہ فرمانبرداری دکھائے۔ماں کا مان بھی وہی، لیکن پھر اس کے لئے اصول و ضوابط بھی کڑے۔کبھی سوچتی ہوں اللہ اور بندے کا معاملہ بھی یہی ہے۔۔ان تمام باتوں کا  لبِ لباب یہی  ہے،کہ اپنے بچوں کو اور خود کو بھی وقت دیں ۔اپنے بچوں کو پہچانیے،ان کی صلاحیتوں اور عادتوں کا ادراک آپ کو سکھائے گا کہ کیسے انہیں nurtureکرنا ہے۔کیسےslow and steadyہو کر بھی تربیت اپنا اثر دکھائے گی۔۔۔
Observation and respondکا عمل خود ماں کی تربیت کرنے کے عمل میں مفید ہے اور بچے کے سیکھنے کے عمل میں مددگار ثابت ہو گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

انہیں سکھانے سے پہلے خود انہیں پڑھیں اور جانیے۔۔۔تاکہ ہر ایک کی ضرورت اور مزاج سمجھ سکیں۔پھر نہ خود anxietyکا شکار ہوں گے اور نہ بچے ماؤں کی فرسٹریشن کا شکار ہوں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply