• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سٹریس کا علاج “دعا” سے کیجئے( سٹریس ویکسین سیریز )قسط8۔۔عارف انیس

سٹریس کا علاج “دعا” سے کیجئے( سٹریس ویکسین سیریز )قسط8۔۔عارف انیس

اب سٹریس اور روحانیت کے تعلق پر بات چلی تو کچھ گہرائی میں جاتے ہیں۔ دراصل یہ سب ماننے اور نہ ماننے کا چکر ہے۔
کسی گاؤں میں دو بھائی رہتے تھے۔ ایک نیکی کا مجسمہ، بھلا مانس، انسانیت کے کام آنے والا تو دوسرا شیطان کا بھائی، جو ہر وقت کسی نہ کسی چکر میں رہتا اور ارد گرد کے لوگوں کو نقصان پہنچاتا۔ اچھے والا بھائی ایک دیوتا کی عبادت بھی کرتا، اس کے مجسمے کی جھاڑ پونچھ کرتا اور اس کے نام کی خیرات کرتا۔ برے والا بھائی دیوتا کے پیچھے پڑا رہتا، اس پر جملے کستا اور اس کا مذاق اڑاتا۔
ایک دن برے والے بھائی نے بیلچے سے دیوتا کی ناک پر وار کیا اور اس کی ناک توڑ ڈالی۔ پھر اس نے اس کے چہرے پر رنگوں سے نقش و نگار بھی بنا دیے۔ جب اچھے والا بھائی پہنچا تو دیوتا اپنی توہین پر بری طرح برافروختہ تھا۔ اس نے ہاتھ اٹھایا اور اچھے والے بھائی کو دیوار میں مارا اور پھر اس کے اوپر اینٹوں کی دیوار گرا دی۔
وہ بے چارہ بڑی مشکل سے ہاتھ پاؤں سہلاتا، کراہتا ہوا اٹھا اور پھر دیوتا کے قریب پہنچ کر شکایتی لہجے میں بولا “میں تو تمہیں مانتا ہوں، تمہاری خدمت خاطر کرتا ہوں اور تم الٹا مجھے ہی زدوکوب کررہے ہو۔ غلطی تو میرے بھائی کی ہے، تم اسے سزا کیوں نہیں دیتے؟”
ٹوٹی ہوئی ناک والے دیوتا نے غور سے اس کی بات سنی، پھر اس کی پتھریلی آنکھوں میں جیسے آنسو اتر آئے اور اس نے گلوگیر لہجے میں کہا” میرا دل تو کرتا ہے میں اس کا حشر نشر کردوں، مگر کیا کروں وہ تو مجھے مانتا ہی نہیں ہے “۔

یہ طے ہے کہ زندگی میں سارے سوالات کے جوابات نہیں ملتے، سارے پرچے حل نہیں ہوتے، سارے خواب پورے نہیں ہوتے۔ ہر انسان کے اپنے اندر، چاہے وہ کتنا ہی بڑا سورما کیوں نہ ہو، کچھ خوابوں کے کانچ کی کرچیاں رہ جاتی ہیں۔ اس اعتبار سے سارے انسان برابر ہوجاتے ہیں، ہاں کچھ کم برابر ہوتے ہیں اور کچھ زیادہ برابر ہوتے ہیں۔
جب انسان تھک جاتا ہے، چور ہوجاتا ہے، اور اوندھے منہ گر جاتا ہے اور اس کی بس ہو جاتی ہے تو پھر مذہب یا روحانیت کے پہلو کسی حد تک اس کے زخموں پر مرہم رکھ دیتے ہیں۔
اگر لگے یہی زندگی ہے اور جیتنا ہی انت ہے تو پھر ہارنے والے کے پاس مرنے کے علاوہ کوئی رستہ نہیں رہتا۔ لیکن یہ ماننا کہ ساری پارٹی یہیں ختم نہیں ہوجانی، بہت سے لوگوں کے زخموں کا اندمال ہے۔

گزشتہ سو برس میں نفسیات نے مذہب اور روحانیت کو بڑے کڑے انداز میں پرکھا ہے۔ چونکہ نفسیات کے بڑے گرو گھنٹال زیادہ تر سیکولر مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے تو انہوں نے مذہب کو تنقیدی نکتہ نظر سے دیکھا۔ تاہم حیرت کی بات یہ تھی کہ جب کبھی بھی نفسیات نے روحانی پہلوؤں کے نقصانات پر تحقیق کی تونقصان کم اور فائدے زیادہ نکل آئے۔ سٹریس، ڈیپریشن اور انزائٹی جیسے امراض میں مذہبی توجہ، دعا اور روحانیت کے بے شمار فوائد سامنے آگئے۔

روحانیت کے حوالے سے جتنی بھی تحقیق ہوئی، دیکھا گیا کہ روحانیت کے ماننے والوں کو تنہائی اور تشویش کم لگتی ہے اور زندگی سے بندہ راضی ہوجاتا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ وہ اپنی زندگی میں بہت سی کمیوں کے باوجود مذہب اور روحانیت سے دور، زیادہ مالدار اور کامیاب لوگوں سے زیادہ خوش تھے۔ دیکھا گیا کہ چرچ اور مسجد جانے والوں کا سوشل سپورٹ نیٹ ورک ان کی بڑی طاقت بن جاتا ہے، نماز مسجد میں پڑھنے والے لوگ ایک پورا حلقہ اثر بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جو انہیں تنہا نہیں ہونے دیتا۔

ڈیپریشن اور انزائٹی کی درجن سے زائد اقسام ہیں۔ جو انسان کو طرح طرح سے آکر ڈستی ہیں۔ تاہم یہ ماننا کہ موت کے بعد ایک اور زندگی موجود ہے جہاں ہر کھوٹا کھرا سب چھان دیا جائے گا اور عدل کے ترازو پر فیصلہ ہوگا اور سب زیادتیوں کی تلافی ہوجائے گی، عدل و انصاف سےمحروم معاشرے میں ایک بہت بڑا نفسیاتی سہارا ہے۔

ماہرین نفسیات کی تحقیقات کے مطابق ناامیدی بے شمار نفسیاتی اور جسمانی بیماریوں کی جڑ ہے۔ ناامید شخص موت کے بہت قریب ہوجاتا ہے۔ ڈیپریشن کے مرض اور بہت ساری خودکشیوں کے پیچھے بھی یہی سوچ کارفرما ہوتی ہے کہ تاریکی کے گھٹا ٹوپ بادلوں کے پیچھے روشنی نظر نہیں آتی۔ جب کہ مذہب ناامیدی کے شدید خلاف ہے اور گہرے اندھیرے میں بھی امید کی شمع جلائے رکھتا ہے۔

آپ قرآن مجید کے حوالے سے ہی مثال لے لیں، ماننے والا /والی کبھی مایوس نہیں ہوتا /ہوتی کیونکہ “مایوسی کفر ہے”۔ ماننے والا /والی کبھی مایوس نہیں ہوسکتا/ہوسکتی کہ ، “بےشک ہر مشکل کے بعد آسانی ہے”۔ مومن کو مایوسی زیب نہیں دیتی کیونکہ “اللہ پاک کسی نفس پہ اسکی جان سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے”۔ مومن مایوسی کو اپنے پاس نہیں آنے دیتا کہ ” غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے”۔ مانگنے والا /والی مایوس نہیں ہوتا /ہوتی کیونکہ قرآن پاک گواہی دیتا ہے کہ ” اور تیرا رب بھولنے والا نہیں”، ساتھ ہی اسے امید دلائی جاتی ہے کہ “بے شک میرا رب دعا سننے والا ہے”۔ ماننے والے /والی کے لیے رب کا اپنا فرمان ہے کہ “خدا کی رحمت سے ناامید نہ ہوں”۔

یہی نہیں، گناہ کی معافی مانگ لینا، رونا دھونا، کانفیشن اور چڑھاوے چڑھانا ان معاملات سے بھی ماننے والوں کی زندگی پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ صدقے اور خیرات سے روحانیت کے ماننے والوں کو بہت خوشی ملتی ہے۔ صدقے اور خیرات سے جسم میں آکسی ٹاکسن ہارمون کی لہر دوڑ جاتی ہے جس سے بہت خوشی محسوس ہوتی ہے اور غم ہلکے ہوجاتے ہیں۔ حتیٰ کہ پیسے کہیں سے بھی آئے ہوں، داتا دربار پر دیگ چڑھانے سے، نفسیاتی طور پر واقعی فرق پڑجاتا ہے۔

برصغیر پاک وہند میں صوفیاء نے بہترین ماہر نفسیات کا کردار ادا کیا، اچھوتوں اور گناہگاروں کے سروں پر ہاتھ رکھا، بغیر شرط کے لوگوں کو قبول کیا اور انہیں لنگر پر اکٹھا کردیا۔ وہ جو اشفاق احمد بار بار کہتے ہیں کہ ہمارے لوگوں کو رونے کے لیے ایک کندھا چاہیے۔ ماہر نفسیات بھی ایک ایسا ہی کندھا ہے گوکہ وہ گھنٹے میں چالیس، پچاس ہزار کا نسخہ بنا دیتا ہے، مگر صوفی کا کندھا بے لوث ہوتا ہے، اس کا میٹر چالو نہیں ہوتا، مگر اس کا فیض چلتا رہتا ہے۔

مارچ 2020 میں دنیا میں سب سے زیادہ گوگل ہونے والی، سرچ ہونے والی چیزوں میں ایک بہت بڑی چیز “دعا” بھی تھی۔ 95 ممالک میں ہونے والی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ کورونا وائرس کے نتیجے میں روحانی معاملات اور مذہب سے دلچسپی میں کئی گنا اضافہ ہوگیا۔ خاص طور پر یہ بات سامنے آئی کہ غیر یقینی اور تناؤ کی کیفیت میں دعا نے کروڑوں لوگوں کو سکون سے ہمکنار کیا۔

دعا سٹریس، ڈیپریشن اور انزائٹی کے تمام معاملات میں ڈھارس بندھاتی ہے۔ آپ مضبوطی اور استقامت کی دعا کرسکتے /سکتی ہیں۔ اپنے جذبات ہر قابو پانے کی دعا مانگ سکتے /سکتی ہیں اور رب کائنات کو اپنا سٹریس پارٹنر بنا کر سارا بوجھ اس کے کھونٹے پر باندھ سکتے ہیں۔ ہم نے سٹریس سرکٹ یا سٹریس کوڈ کی بات کی تھی۔ دعا کے ذریعے بھی آپ اس سرکٹ کو توڑ سکتے /سکتی ہیں۔

میں نفسیات کی دنیا میں دو عشرے گزارنے کے بعد بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ دعا میں معجزاتی اثرات موجود ہیں جو آپ کو بڑے سے بڑے بحران میں اورطوفان میں ایک ایسا رسہ تھما سکتے ہیں جو کہ آپ کو ساحل تک پہنچا سکتا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply