اپنے حصے کی کائنات خود تخلیق کرنی پڑتی ہے۔ اس کائنات میں اپنے حصے کے منظر کی تزئین و آرائش خود ہی کرنا ہوتی ہے۔ اپنے فکر ونظر کے برش سے اپنے حصے کے کینوس میں خود ہی رنگ بھرنا ہے۔ یعنی ہمیں اپنا منظر خود ہی تخلیق کرنا ہوتا ہے۔ کوئی کسی کے حصے کا پانی نہیں بھر تا۔ اگر کسی سے رنگ مستعار بھی لے لیے جائیں تواپنی محبت کی آنچ سے ان رنگوں کو خود ہی پختہ تر کرنا ہوتا ہے۔
جب سے اِنسان نے بارِ امانت اُٹھا کر اِس کائنات میں قدم رکھا ہے ‘ کائنات سے معروضیت نام کی شئے ختم ہو چکی ہے۔ اب اس کائنات کی ہر تشریح بذریہ انسان ہوگی، ہر تذکرہ بز بانِ انسان بیان ہوگا. یہاں تک کہ تذکرۂ رحمان بھی انسان کی زبان سے سنا اور سنایا جائے گا۔ بصورتِ انسان مدعائے کائنات اور منشائے خالقِ کائنات ایک یکجائی کے دھاگے میں پروئے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔اس منظر نامے سے انسان کو نکال دیا جائے تو کائنات کا منظر بے جان و بے مرام ہوگا۔۔۔ ایسا منظر جسے دیکھنے والا کوئی نہیں، جسےسراہنے والا ، داد دینے والا اور تشریح و توضیع کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ جس طرح عبادت کیلئے عابد اور معبود دونوں کا ہونا ضروری ہے، اس طرح اس کائنات کی تشریح کیلئے خالق اور اس کے نائب حضرت ِ انسان کا موجود ہونا ضروری ہے۔ انسان کے بغیر چاند… کیا چاند ہے؟ چاندنی کو دیکھنے والی آنکھ نہ ہو تو چاند کا جلوہ… جلوۂ بے نور ہے۔ یہ انسانی آنکھ کا نور ہے جو جلوے کو معنی کے حسن سے آراستہ کر تا ہے۔ لفظ اور معنی کا رشتہ انسان کے دم سے ہے۔ لفظ الہامی ہوں تو بھی ان کے معانی کا محرم کوئی انسان ہی ہوتا ہے۔ اب محرمِ راز جسے چاہے ہم راز کرے!
منظر اور پس منظر ہماری نظر اور پھر اندازِ نظر کے محتاج ہیں۔ اندازِ نظر بدل جائے تو اس کائنات کا مفہوم ہی بدل جاتا ہے۔ محرم سے مجرم اور حرفِ دعا سے دغا تک کی ساری داستان عین کو غین سے بدلنے کا شاخسانہ ہے ۔ غیر کا نظر آنا دراصل عین سے انکار کے سبب ہے۔ یہ نقطہ درحقیقت نقطۂ نظر ہے۔ انسان کا اندازِ نظر کیا ہے اور یہ کس طرح بدل جاتا ہے؟ الفاظ اور بیان ہمارے اندازِ نظر کو بدلنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔ الفاظ وہ منظر تخلیق کرتے ہیں جو نظر آنے والے منظر سے مختلف ہوتا ہے۔ یعنی الفاظ منظر کے اندر موجود پس منظر بیان کرتے ہیں۔اور عین اس بیان کے اندر ہی تخلیق کا عمل جاری و ساری ہو جاتا ہے۔ الفاظ کی گونج فیصلہ کن ہوتی ہے ۔۔۔۔یہ حرفِ کْن کی طرز پر ایک موج پیدا کرتی ہے… اور پھر یہ موج ‘ موج در موج چلتی ہوئی۔اس نامکمل کائنات کے بے ترتیب ساحلوں سے ٹکراتی ہوئی۔نئے مناظر اور نئے سے نئے کون و اکوان پیدا کرتی ہے۔ الفاظ کہاں سے آتے ہیں؟ اِس اَمر کا فیصلہ کرنا اِتنا ہی دشوار ہے جتنا اس اَمر کی کھوج لگانا کہ لہر کہاں سے اُبھرتی ہے اور کہاں غائب ہو جاتی ہے۔ اس ہونے اور نہ ہونے کے درمیان سب کچھ ہو جاتا ہے۔ لہر کیفیت کی ہو یا پانی کی۔۔ یعنی پانی کی ہو یا پھر پانے کی… لہر اچھلتی ہے ، اپنا وجود دکھاتی ہے… بظاہر معلوم ہوتا ہے جیسے قلزم سے جدا کوئی وجود نمودار ہو رہا ہے، لیکن ماہیت اصلی کی معرفت رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ فرع اصل سے جدا نہیں…موج کی اصل قلزم ہے… موج قلزم سے جدا نہیں۔ دکھائی دینے، معلوم ہونے اور پھر معدوم ہونے کے درمیان بہت کچھ پردۂ عدم سے نکل کر وجود پذیر ہونے لگتا ہے… لہر بظاہر معدوم ہوجاتی ہے ، دوبارہ بحر ِ بے کنار میں مدغم ہو جاتی ہے لیکن اثرات کی صورت میں اثبات سے ہم کنار ہو جاتی ہے… ترابی منظر میں ٹھہر جاتی ہے، ثبت ہو جاتی ہے۔
منظر بظاہر ایک ہی ہوتا ہے ، لیکن ایک ہی منظر اور ایک ہی واقعہ مختلف زاویوں سے مختلف نظر آتا ہے۔ اندازِ نظر ہمارے باطن کی داستان ہے۔ باہر نظر آنے والا منظر ظاہر کی طشت میں رکھا ہوا ایک خوانِ نعمت ہے۔ بھوک ہمارے اندر ہوتی ہے، باہر عام سی روٹی بھی من وسلویٰ دکھائی دیتی ہے۔ اندر اشتہا نہ رہے تو باہر اشتہار بے معنی ہو جاتے ہیں۔بھوک نہ رہے تو رنگ رنگ کے دسترخوان بے ذائقہ ہو جاتے ہیں۔ اس میں ایک راز ہے۔ بھوک کو اندر سے ختم کرو، باہر قلت و کثرت برابر ہوجائے گی۔ کھانا باہر رکھا ہے ، کھانے کا ذائقہ ہمارے اندر رکھا ہے۔ ہمارے اندر سے ہمارے ٹیسٹ بڈز taste buds جواب دے جائیں تو کھانوں میں لذت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ قوتِ شامہ متاثر ہو جائے تو خوشبوئیات کا سارا دفتر۔۔داخل دفتر!
مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرمایا کرتے ’’شبنم کے قطرے رات کے آنسو بھی ہیں اور صبح کی مسکراہٹ بھی‘‘۔ اور یہ بھی کہ ’’مؤرخ بدل جائے تو تاریخ بدل جاتی ہے‘‘۔ تاریخ اسلام کی ہو یا پھر پوری کائنات کی ’’ میں نہ مانوں‘‘ والی بد علمی کی نظر تاریخ کے بہت سے صفحات پڑھنے سے قاصر ہوتی ہے۔ انسانی عظمت کا انکار کرنے والوں کے لیے الگ سے مؤرخ موجود رہے ہیں۔ یوں انسان کو اپنے ماضی اور حال کی اپنی مرضی کی تشریح ہر دَور میں میسر رہی ہے۔ اب ان عرضی معروضات کے جھمیلوں میں معروضی سچ کی نشاندہی کیسے ہو؟ یہ معمہ اصحابِ تشکیک کے لیے جتنا مشکل ہے ‘ اصحابِ تسلیم کیلئے اتنا ہی آسان۔ مرشد کا ایک قول ِ فیصل ہے،جو یہ فیصلہ کیے دیتا ہے’’ سچ وہ ہے ‘ جو سچے کی زبان سے نکلے‘‘… یعنی ہمیں سچائی سے پہلے سچے انسان کی تلاش کرنی ہے۔ لفظ انسان پر غور کریں‘ انسان کا مادہ ’’اِنس‘‘ ہے، اِنس آنکھ کی پتلی کو کہتے ہیں۔ ساری کائنات کامنظر اسی ایک پتلی ایسے نقطے میں سمٹ آتے ہیں۔ یہ پتلی جتنی شفاف ہوگی منظر اتنا واضح اور روشن ہوگا۔ اس آنکھ میں نورِ بصارت اور نورِ بصیرت دونوں کے ملنے سے منظر کی معنویت عیاں ہوتی ہے۔ ظاہر و باطن میں کامل آنکھ ہی مکمل منظر کشائی کر سکتی ہے۔ ناظر، نظر اور منظر میں یکجائی اسی ایک نقطے میں دکھائی دیتی ہے۔
آدم تا ایں دم اس کائنات میں فقط ایک ہی انسان ہے جو انسانِ کامل کہلاتا ہے۔۔ جسے ’’الانسان‘‘ کہا جاتا ہے، وہی انسانِ کاملؐ اتنا صادق اور امین ہے کہ سب صداقتوں کی حتمی صداقت یہاں بصورت ِحقیقت نظر آتی ہے۔ جو بھی اِس دَرِ اقدس ؐ کے قریب ہو گیا ‘ وہ صداقت کے قریب ہو گیا۔ انسان جس قدر الانسان کی صورت اور سیرت کے قریب ہوگا ٗ اسی قدر اس کائنات کے حقیقی منظر کا شاہد ہوگا۔۔۔ شاہدین میں شامل ہوگا۔ یہاں قرب ٗ قربِ مکانی ہے نہ زمانی، بلکہ قربِ معنوی ہے۔ فقط ولایت عین قربِ رسالتؐ میں پائی جاتی ہے۔ بارگہ رسالتؐ سے بامعنی تمسک بوسیلہ ولایت ممکن ہے۔
جس آنکھ نے دیکھا ہے تجھے اُس آنکھ کو دیکھوں
ہے اس کے سوا کیا تیرےؐ دیدار کی صورت!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں