گلیلیو کی ٹیلی سکوپ (29)۔۔وہاراامباکر

گلیلیو نے فزکس میں کی گئی کنٹریبوشن جس نے انہیں سب سے زیادہ شہرت دی وہ تھی جس وجہ سے ان کا اپنے وقت کی کیتھولک چرچ سے تنازعہ ہوا۔ چرچ ارسطو اور بطلیموس کے خیال کی حمایت میں تھی جس کے مطابق زمین کائنات کا مرکز تھی۔ جبکہ گلیلیو کے مطابق زمین عام سیارہ تھا جو دوسرے سیاروں کی طرح سورج کے گرد گھومتا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ یہ خیال سب سے پہلے گلیلیو نے پیش کیا۔ تاریخ میں ہمیں سب سے پہلے یہ خیال تیسری صدی قبلِ مسیح میں آرسٹارکس کا پیش کیا جانے والا ملتا ہے۔ اسکا جدید ورژن کاپرنیکس کا تھا۔

کاپرنیکس نے اپنا ماڈل 1514 میں لکھا اور کئی دہائیاں مشاہدات کرتے رہے جو اسے سپورٹ کرتے تھے لیکن اپنے خیالات کو قریبی دوستوں تک محدود رکھا۔ اور جب شائع کیا تو انہیں معلوم تھا کہ یہ کرنا کیسے ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب کو پوپ کے نام کیا اور ساتھ تفصیل سے لکھا کہ ان کے خیالات کیوں چرچ سے مطابقت رکھتے ہیں۔ لیکن اس کی ضرورت نہ تھی۔ انہوں نے اپنی کتاب 1543 میں شائع کی، اس وقت وہ بسترِ مرگ پر تھے۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی شائع شدہ کتاب خود بھی نہیں دیکھی۔ اس کتاب کا نتیجہ خاص نہ نکلا۔ کسی نے زیادہ توجہ نہ دی تاآنکہ گلیلیو اور دوسرے سائنسدانوں نے اس سے بہت بعد میں ان کو اپنا کر انہیں دوسروں کو بتانا شروع کیا۔

اگرچہ زمین کی مرکزیت کو مسترد کرنے والے پہلے مفکر گلیلیو نہیں تھے اور 1597 تک وہ خود بھی پاڈوا یونیورسٹی میں بطلیموس کا سسٹم ہی پڑھا رہے تھے۔ لیکن انہوں نے اس فکری سمت کی طرف بڑھنے میں بڑی اہم کنٹریبیوشن کی۔ اور یہ ٹیلی سکوپ کی مدد سے تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہالینڈ میں ایک عینک ساز ہانس لپرشے کی دکان میں دو بچے کھیل رہے تھے۔ انہوں نے دو عدسے جوڑ کر جب اس میں سے دیکھا تو شہر کے چرچ کا صلیب بڑا نظر آنے لگا۔ لپرشے نے اس طریقے سے ایک ابتدائی ٹیلی سکوپ ایجاد کر لیا۔ ایجادات کی کہانیاں سیدھی لکیر کی صورت میں نہیں ہوتیں۔ (موجد یا دریافت کرنے والے بھی اس چیز کو تسلیم کرنے سے ہچکچاتے ہیں)۔ لپرشے کے بنائے گئے آلے کے عکس کو بڑا کرنے (magnify) کی پاور صرف دو سے تین گنا تھی۔ گلیلیو نے اس کے بارے میں کچھ برسوں بعد سنا اور وہ متاثر نہیں ہوئے۔ لیکن ان کے دوست سارپی نے ذہن میں ایک خیال آیا کہ اس کو اور بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ اور وینس اس کا عسکری مقصد کے لئے استعمال بھی کر سکے گا۔ دشمن کے حملے کو بھی دور سے دیکھا جا سکے گا۔

سارپی نے گلیلیو سے رابطہ کیا جو اپنے تجربات کے ساتھ سائنسی آلات بنانے کا کام بھی کرتے تھے۔ نہ ہی سارپی اور نہ ہی گلیلیو آپٹکس کی تھیوری کے ماہر تھے لیکن ٹرائل اور ایرر کے ذریعے چند مہینوں میں انہوں نے 9 کی پاور کا آلہ بنا لیا۔ اس کو انہوں نے وینس کی سینیٹ کو تحفے میں دے دیا۔ بدلے میں گلیلیو کی تنخواہ دگنی ہو گئی اور ملازمت مستقل ہو گئی۔ گلیلیو نے بعد میں اس کو مزید بہتر کر کے 30 کی پاور تک کا کر دیا۔ یہ اس ڈیزائن کی حد تھی۔

اس دوران دسمبر 1609 میں گلیلیو نے 20 کی پاور کی ٹیلی سکوپ کا رخ آسمان کی طرف کیا اور آسمان میں سب سے بڑے نظر آنے والے فلکی جرم کی طرف، جو چاند تھا۔ اس مشاہدے نے اور دوسروں نے یہ ایویڈنس دیا کہ کاپرنیکس زمین کی کاسموس میں جگہ کے بارے میں ٹھیک تھے۔

ارسطو نے کہا تھا کہ آسمان اور زمین الگ دنیائیں ہیں جن میں الگ الگ قوانین ہیں اور یہ وہ وجہ ہے کہ اجرامِ فلکی دائرے میں زمین کے گرد تیرتے ہیں۔ گلیلیو نے جو دیکھا، وہ یہ کہ چاند ناہموار اور گڑھوں اور ابھاروں سے بھری جگہ ہے۔ ویسے ہی جیسے زمین کی سطح ہے۔ پہاڑوں کے سلسلے اور گہری وادیاں ہیں۔ چاند کوئی دوسری دنیا نظر نہیں آتا تھا۔ گلیلیو نے یہ بھی دیکھا کہ مشتری کے بھی اپنے چاند ہیں۔ اور یہ فیکٹ کہ یہ چاند مشتری کے گرد گھومتے ہیں، نہ کہ زمین کے گرد ۔۔۔ ارسطو کی کاسمولوجی کے خلاف تھا۔ زمین بس ایک سیارہ تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہاں پر یہ وضاحت کہ ایسا نہیں کہ گلیلیو نے ٹیلی سکوپ آنکھ سے لگائی، کچھ “دیکھا” اور معلوم کر لیا۔ یہ طویل اور صبر سے کرنے والا کام تھا۔ آج کے حساب سے یہ ٹیلی سکوپ نہ زیادہ اچھا تھا اور نہ اس کا سٹینڈ۔ آنکھ میچ کر گھٹوں تک دیکھ کر معلوم کرنا ہوتا تھا کہ جو نظر آ رہا ہے، وہ کیا ہے۔۔ مثلاً، چاند کے پہاڑ ہفتوں تک چاند کی حرکت سے اور ان کے سائے میں پڑنے والے فرق سے معلوم کئے گئے۔ اور ایک وقت میں صرف سوواں حصہ دیکھ سکتے تھے۔ الگ الگ جگہ پر دیکھ کر ایک جامع نقشہ بنایا۔

گلیلیو کا جینیس ٹیلی سکوپ نہیں تھا بلکہ اس کا استعمال تھا۔ مثلاً، جب اس کی مدد سے دیکھ جب جب انہیں لگا کہ انہوں نے چاند پر پہاڑ دیکھا ہے تو ایسا نہیں کیا کہ اپنے خیال پر اعتبار کر لیا۔ روشنی اور سائے کو سٹڈی کیا۔ اس پر فیثاغورث کے تھیورم کا اطلاق کیا تا کہ پہاڑ کی اونچائی نکالی جا سکے۔ مشتری کے چاند جب انہوں نے دیکھے تو ان کا پہلے یہ خیال تھا کہ یہ ستارے ہیں۔ بڑی احتیاط اور باریک بینی سے کئے گئے مشاہدوں اور کیلکولیشنز نے انہیں اس کی حرکت کا بتایا۔ یہ معلوم ہوا کہ مشتری کے مقابلے میں ان کی حرکت ایسے ہے جیسے یہ اس کے گرد محور میں ہوں۔

ان دریافتوں کے بعد گلیلیو نے اپنی توانائی ان مشاہدات کو پبلش کرنے میں صرف کی اور ارسطو کی کاسمولوجی کے خلاف نعرہ بلند کیا۔ مارچ 1610 میں انہوں نے کتاب شائع کروائی جس کا نام The Starry Messenger تھا اور اس میں یہ سب بیان کیا۔ یہ ہاتھوں ہاتھ بک گئی اور یہ صرف ساٹھ صفحات کی کتاب ہے لیکن یہ فکری ہلچل برپا کرنے والا کتابچہ تھا۔ اس نے سکالرز کو چونکا دیا۔ کیونکہ اس میں چاند اور سیاروں کی وہ تفصیلات تھیں جو پہلی کسی نے نہ دیکھی تھیں۔ جلد ہی گلیلیو کی شہرت یورپ بھر میں پھیل گئی اور اب ہر کسی کو اس نئی ایجاد، ٹیلی سکوپ کو آسمان کے رخ کر کے اجرامِ فلکی دیکھنے کا شوق پیدا ہو گیا۔

دشمن کے جہازوں کی بروقت کھوج لگانے کے لئے کی جانے والی ایجاد اب آسمان کی کھوج کے لئے استعمال کی جا رہی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply