• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • موٹر وے گجر پورہ سانحہ اور لاہور و صوبائی پولیس افسران کی سیاست۔ غیور شاہ ترمذی

موٹر وے گجر پورہ سانحہ اور لاہور و صوبائی پولیس افسران کی سیاست۔ غیور شاہ ترمذی

گجر پورہ پولیس سٹیشن,موٹر وے کی حدود میں ڈکیتی اور بچوں کے سامنے ہوئے زنا بالجبر کے واقعہ نے لاہور کی فضا کو سخت مکدر کر دیا ہے۔ واقعہ کی تفصیلات ہر ذی شعور شہری الیکٹرانک اور سوشل میڈیا سے حاصل کر رہا ہے لیکن اس معاملہ میں اتنے پہلو اور تھیوریاں ڈسکس ہو رہی ہیں کہ ایک عام پڑھنے والا مسلسل کنفیوژ ہی رہے۔ البتہ کچھ معلومات اس ضمن میں ایسی ہیں کہ جو چونکا دینے والی ضرور ہیں۔ کیس کی تفصیلات کے مطابق خاتون کی گاڑی پٹرول ختم ہونے کے باعث بند ہوئی تو انہوں نے موٹر وے ایمرجنسی نمبر 130   پرکال کر کے جی پی ایس کی مدد سے انہیں اپنی لوکیشن تفصیل سے بتائی۔ آپریٹرز نے خاتون کی بات FWO کے آپریٹر سے کروائی۔ ان آپریٹرز سے بات کرتے ہوئے خاتون نے یہ بھی بتایا کہ وہ اکیلی ہیں اور بچے بھی اُن کے ساتھ ہیں۔ اس FWO کے آپریٹر نے اپنے موبائل ورکشاپ یونٹ کو خاتون کی بتائی لوکیشن پر پہنچنے کے لئے کہا۔ پھر اس وقوعہ کے گزر جانے کے بعد رات کے تین بجے اُس یونٹ نے بتایا (جو بظاہر جھوٹ لگتا ہے) کہ انہیں اس لوکیشن پر کوئی گاڑی ہی نہیں ملی۔

خاتون ایک گھنٹہ تک گاڑی میں بیٹھی FWO موبائل ورکشاپ یونٹ کی طرف سے مدد ملنے کا انتظار کرتی رہی۔ ماہرین کے مطابق اس گاڑی کے شیشے سپیشل قسم کے ہیں جس سے باہر کے بندے کو گاڑی کے اندر کا اندازہ نہیں ہوسکتا۔ لہذا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ گاڑی میں عورت اکیلی ہے۔ جب دونوں وحشی ڈاکو خاتون کی گاڑی کے پاس آئے تو وہ سیدھا گاڑی کی طرف آئے۔ ایسا کہ جیسے انہیں پہلے سے ہی سب کچھ علم تھا۔ اُن وحشی درندوں کے ہاتھوں  میں بندوق اور ڈنڈاتھا۔ جس کے ہاتھ میں ڈنڈا تھا، اُس نے وہی ڈنڈا مارکر گاڑی کا ڈرائیور سائیڈ کا شیشہ توڑدیا۔ خاتون کا چھوٹا بچہ اُس وقت اُن کی گود میں تھا۔ وحشی درندے نے 2 سالہ بچے کو گود سے کھینچ لیا اور دروازہ کھول کر عورت کو باہر گھسیٹنا شروع کر دیا۔ ایک موقع پر خاتون نے کسی طرح خود کو چھڑاتے ہوئے موٹر وے پر مدد کے لئے پکارا۔ ایک گذرتی کار آہستہ ہوئی مگر رکے بغیر بڑھتی چلی گئی۔ دونوں وحشی درندوں نے معصوم بچوں کو بُری طرح مارنا شروع کردیا اور اُن کے جسم سے خون بہنے لگا جو گاڑی کے شیشوں اور گاڑی کی باڈی کے مختلف حصوں پر بھی لگا۔

خاتون کو بھی موٹروے پر ہی گھسیٹا جانے لگا اس تکلیف دہ وقت  میں بھی عورت اپنے بچوں کو تسلی دے رہی تھی اور ماں اور بچے دعائیں مانگ رہے تھے اور وحشیوں کو واسطے دے رہے تھے۔ اِن درندوں نے کار سے خاتون کا بیگ نکال لیا تھا جس میں کم و بیش 5 لاکھ مالیت کے زیورات، ایک لاکھ کیش، 3/4 بنکوں کے اے ٹی ایم کارڈز اور دیگر قیمتی اشیاء تھیں۔ جب مجرم درندے خاتون اور بچوں کو گھسیٹتے لےجا رہے تھے تو بیگ راستے میں گر گیا۔ چنانچہ ایک درندے نے گن پوائنٹ پر عورت اور بچوں کو کنٹرول رکھا جبکہ دوسرا درندہ اندھیرے میں بیگ تلاش کرتا رہا اور اُسے ڈھونڈ ہی نکالا۔ اس دوران اُن وحشیوں کے چہروں پر مکمل اطمینان اور سکون تھا ، قطعی گھبراہٹ نہیں تھی کہ وہ پکڑے جاسکتے ہیں۔ یہ تمام واقعات اس وقت ہوئے جب پولیس کو کال ہوئے ڈیڑھ گھنٹہ گزر چکا تھا۔یوں لگتا ہے جیسے ان کو سب کچھ بتایا گیا تھا کہ گاڑی میں خاتون اکیلی ہے اور لوکیشن کیا ہے اور وہ بالکل مطمئن تھے۔ اس دوران خاتون کا فون گاڑی کی سیٹ کے نیچے گر گیا مگر وحشیوں نے اُس کے متعلق نہ پوچھا اور نہ اُسے ڈھونڈا۔ فون بعدمیں گاڑی سے مل گیا۔ پولیس کی تفتیشی ٹیمیں اگر اُن آپریٹرز اور FWO موبائل ورکشاپ والوں کے موبائل فون اور لینڈ لائن کالز کا مکمل ریکارڈ   چیک نہیں کرتیں ، تو مجرم وحشی درندوں تک پہنچنے کا ایک ممکنہ اہم نقطہ کھو سکتی ہیں ۔

واقعہ کی حساسیت کے مطابق ہر طبقہ ہائے فکر کے افراد اس کی شدید مذمت کر رہے ہیں۔ ایک عرصہ سے معصوم بچوں اور اکیلی خواتین کے ساتھ بالجبر زیادتی اور بعض اوقات اُن کے قتل تک ہونے کے واقعات اب میڈیا میں آتے رہتے ہیں۔ اب یہ نہیں معلوم کہ پہلے یہ واقعات کم ہوتے تھے اور اب بڑھ چکے ہیں یا پہلے بھی یہ واقعات اتنے ہی کثرت سے ہوا کرتے تھے مگر میڈیا کی محدودیت کی وجہ سے یوں سامنے نہیں آتے تھے۔ دونوں صورتوں میں یہ کوئی جواز نہیں ہے کہ پاکستانی عوام کو ان منحوس واقعات کو برداشت کرتے رہنا پڑے گا۔ ان واقعات کے خلاف بہت سوچ سمجھ کر ایک مربوط پالیسی بنانی پڑے گی جس میں مجرموں وحشی درندوں کو قانون کے شکنجہ میں ایسے کس دیا جائے کہ وہ ساری زندگی بھی اس سنگین جرم کی سزا کے ساتھ جیتا رہے۔ امریکہ کی ایک ریاست میں ایسے مجرموں کو لمبی جیل کے ساتھ اُن کے جنسی اعضاء کی تنسیخ کیمیکل سے کر دی جاتی ہے جبکہ برطانیہ میں ایسے مجرم ساری زندگی جیل گزار کر اگر آزاد بھی ہو جائیں تو اُن کے پاؤں میں ایسے آہنی کڑے پہنا دئیے جاتے ہیں کہ وہ اپنے گھر سے ایک مخصوص حدود سے باہر نہیں جا سکتے۔ نیز پولیس اس کمیونٹی کے لوگوں کو اُس مجرم کے بارے میں بھی آگاہ کر دیتی ہے جس کی وجہ سے وہ وحشی مجرم کبھی بھی سوسائٹی میں مل کر نہیں رہ پاتا اور ہر شخص اُس سے نفرت کرتا رہتا ہے۔

خیر یہ معاملات تو مہذب ممالک میں ہوا کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں تو حالت یہ ہے کہ پنجاب پولیس اپنے افسران کی داخلی سیاست میں اس قدر الجھی ہوئی اور منقسم ہے کہ اُس سے یہ توقع کرنی عبث محسوس ہوتی ہے کہ وہ عامۃ الناس کے جان و مال کی حفاظت کرے گی۔ پنجاب کے نئے آئی جی انعام غنی صاحب پشاور میں “‏ایس پی الائچی” کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔ پولیس سروس کے آغاز میں جب موصوف پشاور میں ایس ایس پی آپریشن تعینات تھے تب ان کی زیر نگرانی پشاور میں چوری کی گئی الائچی کا ٹرک پکڑا گیا۔ جس مخبر کی اطلاع پر ٹرک پکڑا گیا تھا اُس کو دینے کےلئے پولیس کے سیکرٹ فنڈ میں پیسے نہیں تھے تو انعام غنی نے سی سی پی او تنویر الحق سپرا سے پیسے مانگے کہ مخبر کو انعام دینا ہے۔ سی سی پی او نے صاف انکار کردیا تو انعام غنی نے خود ہی فیصلہ کرتے ہوئے پولیس اہلکاروں کو الائچی کی کچھ بوریاں فروخت کرنے کا حکم دیا تاکہ مخبر کو انعام دیا جا سکے۔ نالائق اہلکار وہ ساری بوریاں اسی دالگراں بازار، پشاور میں فروخت کے لئے لے گئے جس بازار کی دوکان سے الائچی چوری ہوئی تھی۔ شومئی قسمت دکاندار کا گزر ہوا اور اس نے مال پہچان لیا۔ اہلکاروں کو تاجروں نے پکڑ لیا۔ جس کی خبر سی سی پی او سپرا صاحب کے پی آر او ہاشم کو مل گئی جو کہ خود کو سی سی پی او کا منہ بولا بیٹا کہتا تھا۔ اُس نے فورا ً  سی سی پی او کو بتایا اور پھر سی سی پی او کے حکم پر اُن پولیس اہلکاروں کو باقاعدہ حراست میں لے لیا گیا اور خبر میڈیا کو بھی جاری کی گئی۔ اُن پکڑے جانے والے اہلکاروں نے سی سی پی او سپرا صاحب کو بیان دیا کہ ہمیں ایس پی انعام غنی صاحب نے الائچی بیچنے کے لئے بھیجا تھا۔ اِس بیان پر مزیدتحقیقات ہوئیں اور انعام غنی صاحب تحقیقات کے بعد وہاں سے ایسے نکلے کہ کبھی KP K واپس نہ گئے۔ اب عمران خاں نے انہیں پنجاب پولیس کی سربراہی کے لئے منتخب کیا ہے تو اُن کے سامنے لاہور پولیس کے سربراہ سی سی پی او عمر شیخ موجود ہیں جو اُن سے پہلے سابقہ آئی جی شعیب دستگیر کی پوسٹنگ کھا چکے ہیں۔

عمر شیخ ڈیرہ غازی خان ڈویژن کے ریجنل پولیس آفیسر(RPO) رہے ہیں ۔ وہاں پر انہوں نے خاصی مستعدی سے کام کیا اور ڈیرہ کی کئی طاقتور شخصیات کی ناراضی کی پروا بھی نہ کی، انہوں نے مظفر گڑھ اور لیہ کے کئی جرائم پیشہ گروہوں کا خاتمہ کیا۔ اُن کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ جہاں وہ تعنیات ہوتے ہیں وہاں کے عام لوگ اپنے متعلقہ پولیس افسران کی بجائے عمر شیخ کے پاس دادرسی کے لئے جاتے ہیں کیونکہ وہاں سے انہیں ریلیف ملنے کا امکان رہتا ہے۔ عمر شیخ کا تعلق خان پور سے ہے۔ چمڑے کا کاروبار کرنے والی شیخ برادری سے ہیں۔ خاصے دبنگ پولیس افسر مشہور ہیں۔ اُن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جہاں تعینات ہوں، وہاں کے تگڑے لوگوں پر ہاتھ ڈال کر پنجابی محاورے کے مطابق تھرتھلی مچا دیتے ہیں۔ڈی جی خان میں انہوں نے مقامی طاقتور سرداروں کی ایک نہ سنی حتیٰ کہ ارکان اسمبلی بھی اُن سے خفا رہتے تھے۔ دلچسپ بات ہے کہ مزاری، دریشک اور دیگر مقامی شخصیات کے آپس میں اختلافات ہیں، مگر ریجنل پولیس آفیسرڈی جی خان عمر شیخ کے تبادلے کے لئے یہ سب اکٹھے ہوگئے اور وزیراعلیٰ عثمان بزدار پر دباؤ ڈال کر اُن کا تبادلہ کروا د یا۔عمر شیخ کے بارے میں بعض اخباری رپورٹس میں کہا گیا کہ ان کی پروموشن بُرے ریکارڈ کی وجہ سے نہیں ہوئی اور وہ سی کیٹیگری کے افسر ہیں۔ اُن پر ایک سنگین الزام یہ بھی ہے کہ وہ بعض خواتین کو غیر اخلاقی طور پر بھی ہراساں کرتے رہے ہیں۔ جب وہ ٹرانسفر ہو کر لاہور آئے تو انہیں سی سی پی او لاہور تعنیات کرنے کی سابق آئی جی شعیب اختر نے مخالفت کی تھی۔ مگر عمر شیخ کی سی سی پی او لاہور کی تعیناتی وزیراعظم عمران خان کا فیصلہ تھا، کہا جاتا ہے کہ انہیں دو وفاقی مشیروں نے اِس کا مشورہ دیا۔شہزاد اکبر اور شہباز گل کے نام لئے جاتے ہیں۔

لاہور پولیس کے نئے سربراہ پر تعیناتی کے بعد عمر شیخ نے اپنے پہلے ہی اعلی سطحی اجلاس میں   نہ صرف وہاں موجود اپنے ماتحت پولیس افسران کے چھکے چھڑا دئیے بلکہ پنجاب پولیس کے سربراہ شعیب دستگیر کو بھی آڑھے ہاتھوں لیتے رہے ۔ مبینہ طور پر اس میٹنگ کا آغاز میں ہی وہاں موجود تمام ماتحت افسران اچانک اس وقت دنگ رہ گئے جب عمر شیخ نے للکار کر کہا کہ آئی جی پنجاب کو بتادو کہ میں سی سی پی او لاہور لگ گیا ہوں۔ بڑا مجھے ” سی کٹیگری ” میں رکھتا تھا۔ میٹنگ میں موجود ذرائع کے مطابق عمر شیخ باقائدہ آئی جی پنجاب شعیب دستگیر کے لئے نازیبا الفاظ بھی استعمال کرتے رہے ۔ آئی جی پنجاب کے بعد سی سی پی او لاہور نے اپنی توپوں کا رخ اپنے ماتحت افسران کی طرف کرتےہوئے کہا کہ پولیس افسران سب جانتےہیں کہ شہر میں کون کون زمینوں پر قبضے کروا رہا ہے ، اس بات پر انہیں پھر آئی جی پنجاب یاد آئے اور عمر شیخ نے ایک اور بڑھک ماری کہ لاہور اب میری مرضی سے چلے گا۔ آئی جی آفس سے بھی کسی کی مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی۔ اگر کسی ” چوہے ” افسر نے شہر چھوڑ کر بھاگنا ہے تو اُس کو بھی میں دیکھ لوں گا ، میٹنگ میں موجود تمام پولیس افسران یا تو نظریں جھکائے بیٹھے رہے یا ایک دوسرے کی شکل دیکھتے رہ گئے ۔ ایک افسر نے جرات کرکے آئی جی پنجاب کے بارے میں نازیبا الفاظ پر آواز اٹھائی لیکن عمر شیخ نے جوش خطابت میں اس کو بھی جھاڑ پلادی ۔ سی سی پی او لاہور نے پولیس افسران کو واضح پیغام دیا کہ تم میرے بھائی اور بیٹے ہو لیکن رشوت ستانی اور کرپشن کی شکایت آئی تو میں کسی کو ڈسمس نہیں بلکہ گرفتار کروں گا۔

سابق آئی جی شعیب دستگیر تک یہ اطلاع پہنچی تو وہ سخت برہم ہوئے اور انہوں نے فوری طور پر اعلیٰ حکام کو کہہ دیا کہ میں بطور آئی جی اس سی سی پی او کے ساتھ کام کرنے کو تیار نہیں۔ یہ خبر ہنگامہ خیز تھی۔اس پر خاصا شور اٹھا۔آئی جی شعیب دستگیر کو منانے کی کوشش کی گئی۔ عمر شیخ نے ان سے ملنے کر وضاحت کی کوشش کی،مگر آئی جی نے ملنے سے انکار کر دیا۔عمر شیخ نے انہیں تفصیلی واٹس ایپ میسج کئے ۔ جو بعد میں انہوں نے بعض لوگوں سے شیئر بھی کئے ۔ ان واٹس ایپ میسجز میں عمر شیخ نے اپنی اس بات کی وضاحت کی اور کہا کہ آپ تک غلط تناظر میں بات پہنچی ہے، تاہم میں اس پر معذرت کے لئے تیار ہوں، آپ مجھے ملنے کا وقت دیں ، آپ میرے کمانڈر ہیں ا ور میں آپ کا ماتحت ہوں۔ انہی واٹس ایپ میسجز میں کہیں یہ ذکر بھی تھا کہ ماڈل ٹاؤن سانحہ کے بعد کی جوڈیشل انکوائری میں اس وقت کے آئی جی پنجاب نے بیان دیا کہ سی سی پی او ایک مجاز افسر ہے اور پولیس آرڈر کے تحت کیپٹیل سٹی پولیس اتھارٹی اپنے فیصلوں کی خود ذمہ دار ہے۔ میں نے اسی لئے ماتحتوں سے کہا کہ جب ذمہ داری میرے اوپر آنی ہے تب ہر معاملے کی منظوری بھی مجھ سے لی جائے وغیرہ وغیرہ۔آئی جی شعیب دستگیر نے مگر کسی بھی قسم کی وضاحت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور وہ چارج چھوڑنے کے اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے۔ سابق آئی جی اچھے افسر ہیں ، مگر ان کا خاص مزاج اور تیز ٹمپرامنٹ تھا۔ پنجاب میں آنے والے دنوں میں خاصی سیاسی ہنگامہ آرائی کے امکانات ہیں، ممکن ہے وہ اس جھمیلے سے باہر رہنا چاہتے ہیں، ان کی سروس بھی غالباً زیادہ نہیں رہ گئی ۔ ان کے اس بے لچک موقف کی یہی وجہ سمجھ آتی ہے، ورنہ پولیس سروس میں کوئی بے لچک اور انا پسند افسر اتنی بڑی سیٹ تک جا ہی نہیں سکتا، بہت پہلے سسٹم اسے نکال باہر کرتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو جب یہ سب تفصیلات بتائی گئیں تو ان کا فوری ردعمل تھا کہ آئی جی کا کام چھوڑ دینے کا فیصلہ ناقابل فہم ہے، وہ آئی جی ہیں، اگر سی سی پی او نے کچھ غلط کہا ہے تو اسے بلاکر اس کی سخت کلاس لیں، اب اگرو ہ معذرت کر رہا ہے تو پھر معاملہ ختم ہوجانا چاہئے ۔اس لئے فوری طور پر وزیراعظم نے آئی جی صاحب کے رویہ کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے انہیں تبدیل کر کے انعام غنی کو تعنیات کر دیا۔

نئے سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے میڈیا کو جو چند انٹرویوز دئیے، ان میں واضح اور غیر مبہم لہجہ اپنایا۔ وہ لاہور میں قبضہ گروپوں کے خلاف آپریشن کرنا چاہتے ہیں۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ لاہور میں صرف تین ماہ کے اندر تبدیلی نظر آئے گی، وہ پولیس سے پولیس کی زبان میں بات کرنے کے حامی ہیں اور پولیس کے بگڑے افسروں اور جوانوں کو سیدھا کرنے کے متمنی۔ یہ سب لاہور جیسے شہر میں چلانا آسان نہیں۔ قبضہ گروپ طاقتور ہیں اور ان کا مختلف سیاسی جماعتوں میں گہرا اثرونفوذ ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ سی سی پی او کس حد تک کامیاب رہتے ہیں؟۔ دوسری طرف انہوں نے سانحہ گجر پورہ موٹر وے پر ایسے بیانات دے دئیے ہیں جنہیں نہ تو نئے آئی جی انعام غنی قبول کرنے کو تیار ہیں اور نہ ہی مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر، جن کی سفارش پر انہیں سیس سی پی او تعنیات کیا گیا تھا۔ ٹوئٹر پر بھی عمر شیخ کے بیانات کے بارے میں بحث چھڑی ہوئی ہے اور سی سی پی او عمر شیخ پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے اپنی ٹویٹ میں لکھا ہے کہ ایک افسر کی طرف سے ایک اجتماعی ریپ کا شکار ہونے والی خاتون سے یہ کہنا کہ انھیں جی ٹی روڈ سے سفر کرنا چاہیے تھا، یا اس بات پر سوال اٹھانا کہ وہ رات کو اپنے بچوں کے ساتھ کیوں نکلیں، خود اس خاتون پر الزام لگانے کے مترادف ہے اور یہ ناقابل قبول ہے۔ میں اس معاملے کو دیکھ رہی ہوں۔ ریپ کی کوئی صفائی نہیں ہو سکتی۔ بس”۔ خود شہزاد اکبر صاحب نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں کہا ہے کہ عمر شیخ  3 دن میں اپنے اس بیان کی وضاحت کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors

حالات اس وقت یہ  ہو چکے ہیں کہ لاہور ہولیس شدید اختلافات کا شکار ہو چکی ہے۔ کئی افسران نے شعیب دستگیر کی تبدیلی کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا اور وہ عمر شیخ کی تعنیاتی کو اپوزیشن کی آنے والی ممکنہ تحریک کو دبانے کے لئے حکومت کے ایک حامی کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ عمر شیخ نے سمجھداری سے کام لینے کی بجائے آتے ہی کئی محاذ کھول لئے ہیں۔ ان سے نبٹنے کے لئے انہیں دن رات ایک کرنا پڑے گا۔ سانحہ موٹر وے کی شفاف تحقیقات کے بعد مجرم وحشی درندوں کی اب تک گرفتاری نہ ہو سکنا لاہور پولیس اور موٹروے پولیس کے لئے شدید لمحہ فکریہ ہے۔ عمر شیخ اگر عہدوں کی کشمکش کی بجائے اپنے فرائض کی بجا آوری کو مقدم رکھ سکے تو یہ اُن کی بڑ ی کامیابی ہو گی۔ خاتون کے زیادتی کے واقعے کی فوری تحقیقات کروا کر واقعہ میں ملوث درندوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جانا ہی عمر شیخ کی ٹاپ ترجیح ہونی چاہئے۔ اس گھناؤنی حرکت کرنے والے سیاہ کردار اگر قانون کی گرفت سے بچ نکلے اور قانون کے مطابق سزا کو نہ پہنچے تو عمر شیخ کے دبنگ افسر ہونے کے تمام قصے اپنی اہمیت کھو دیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply