قصوروار کون؟۔۔رؤف الحسن

لاہور موٹروے واقعے نے دل کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔ یہ واقعہ محض ایک زیادتی کا واقعہ نہیں بلکہ معاشرے میں پلنے والی اس بدبودار سوچ کی عکاسی ہے جس میں  ہم صرف ایک موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے اپنے چہروں پر انسانیت کے نقاب چڑھائے ہوئے ہیں اور جہاں ذرا موقع ملتا ہے وہاں ہم یہ نقاب اتار کر حیوانیت پر اتر آتے ہیں۔ ایسے مواقع پر مجھے ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کا وہ جملہ یاد آتا ہے کہ:
“بحیثیت مجموعی آج مسلمان قوم دنیا کی منافق ترین قوم ہے”
یہ حقیقت ہے کہ عورتوں سے ناروا سلوک اور زیادتی کے کچھ واقعات ہی منظر عام پر آتے ہیں۔ ہمارے ارد گرد روزانہ بیسیوں ایسے واقعات جنم لے کر خاموشی میں ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ اس معاشرے میں اکیلی عورت کا جس طرح استحصال کیا جاتا ہے, اس کی کہانیاں ان گنت ہیں۔ ریپ ظلم کی انتہا ہے تو عورتوں کے لباس پر تبصرہ کرنا, ان پر آوازیں کسنا, اور اپنی بیہودہ نظروں سے ان کو گھورنا اس ظلم کی ابتدا ہے۔ ہمارے معاشرے کا وہ کون سا طبقہ ہے جہاں عورت خود کو محفوظ تصور کر سکے؟ اس پر ظلم یہ کہ زیادتی کے واقعات کا سارا ملبہ بھی مظلوم عورت کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔سی سی پی اور لاہور کے بیان پر مجھے ذرا حیرت نہیں ہوئی کہ معاشرے کے ایک بڑے طبقے کی یہی سوچ ہے۔ یہ وہی منافق طبقہ ہے کہ جسے عورت کے تنگ لباس سے تو مسئلہ ہے لیکن مرد کی اٹھی نگاہوں پر ان کی زبانیں خاموش ہو جاتی ہیں۔

کہا گیا کہ عورت کا لباس اس ساری برائی کی جڑ ہے۔ مانا کہ لباس انسانی شخصیت کا آئینہ دار ہے۔ لباس شائستہ اور اخلاق کے دائروں میں ہونا چاہیے۔ لیکن دین کے نام لیوا یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ اسلام نے سب سے زیادہ زور ہی اخلاقی پاکیزگی اور خواہشات نفسانی کو قابو کرنے پر دیا ہے۔ اور اگر ایک مرد کو خود پر اتنا بھی کنٹرول نہیں کہ وہ اپنی آوارہ نگاہوں کو سنبھال سکے, کسی بیہودہ بات سے درگزر کر سکے تو حضور پھر عورت کو لباس بدلنے کی نہیں, اس مرد کو اپنے ایمان پر نظر دوڑانے کی ضرورت ہے۔

یہ بھی کہا گیا کہ حکومتی رٹ قائم نہ ہونے کے سبب ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاستی اداروں کی نا اہلی ان درندوں کو فرار کا راستہ فراہم کرتی ہے لیکن کیا ہماری تربیت گاہوں نے اپنی رٹ نئی نسل کے ذہنوں پر قائم کر دی ہے؟ ہمارے مدارس کا حال تو یہ ہے کہ وہ آسمانی آفات کا ذمے دار عورت کی جینز کو ٹھہراتے ہیں اور اسکول و کالجز میں تو اخلاقی تربیت نامی شے کا وجود ہی نہیں۔ گھر جو انسان کی پہلی تربیت گاہ ہے, وہی ذہن سازی کے عمل میں سب سے پیچھے ہے۔ رشتوں میں توازن, احترام, رواداری, اور برداشت کے رویے بچہ سب سے پہلے گھر سے ہی سیکھنا شروع کرتا ہے۔ چھوٹی عمر میں ہی تربیت پختہ بنیادوں پر کر دی جائے تو نسلیں سنور جاتی ہیں۔ حیف کہ والدین اپنا سارا زور اچھے گریڈز لانے پر لگا دیتے ہیں۔ نتیجتاً  اخلاقی و روحانی تربیت اور ذہن سازی کا عمل کہیں پیچھے رہ جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

واقعہ یہ ہے کہ ہم ہزار توجہیات پیش کریں, زیادتی کے ان واقعات میں نہ عورت کے رات گئے باہر رہنے کا قصور ہے نہ ہی اس کے پہنے ہوئے لباس کا۔ جرم ہے تو ان حیوانوں کا جو خود کو عورت سے کوئی برتر مخلوق تصور کرتے ہیں اور ذمے دار ہیں تو وہ لوگ جو اس پسماندہ سوچ کو پروان چڑھاتے ہیں۔ زیادتی کے مجرمان کو چوراہوں پر لٹکانے کی بات بالکل بجا لیکن اس سے بھی ضروری کام مائینڈ سیٹ کی تبدیلی کا ہے۔ ذہن تبدیل ہوں گے, سوچ کا زاویہ نگاہ بدلے گا تو معاشرے پروان چڑھیں گے ورنہ کرداروں کی تبدیلی کے ساتھ یہ واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔

Facebook Comments

Rauf Ul Hassan
I do not consider myself a writer. Instead, I am a player. As one of my friend s said: "You play with words. " He was right. I play, and play it beautifully.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply