جرنیلی سڑک۔ابنِ فاضل/قسط2

لاہور کے بعد گوجرانوالہ اگلا قابل دید و ذکر شہر ہے جرنیلی سڑک پر۔ اسے پہلوانوں کا شہر بھی کہتے ہیں ۔ اس کے باسی بسیار خوری میں یکتا ہیں۔ ساری دنیا میں اپنی خوش خوراکی کی وجہ سے جانے جاتے ہیں ۔ ویسے تو زیادہ کھانے کے معاملہ میں بٹ مشہور ہیں، لیکن اہلِ گوجرانوالہ کی اکثریت جٹ ہو کر بھی اس معاملہ میں ان سے چار “حرف” آگے ہیں۔ یہ کھانے کے معاملہ میں کسی اِف اور کسی بٹ سے قائل نہیں ۔ ابھی تک یہ علم نہیں ہوسکا کہ زیادہ کھانے کی وجہ سے ان میں پہلوانوں کی کثرت ہے۔ یا پہلوانوں کی کسرت کی وجہ سے زیادہ کھاتے ہیں ۔ پہلوان ان میں اس قدر ہیں کہ سڑک پر سے بھینس بھی گذر رہی ہو تو کہیں گے “پہلوان جی ذرا سیڈ تے ہونا ” حالانکہ بھینسیں کبھی سیڈ نہیں ہوتیں۔ کھانے کے معاملے میں ان کا پیمانہ ہی علیحدہ ہے۔ سارے ملک میں ایسا کہا جاتا ہے ۔ زید نے دو روٹی اور ایک پلیٹ سالن کھایا ۔ گوجرانوالہ میں ایسا کہا جائےگا “پہلوان جی نے ایک گھنٹہ اور چالیس منٹ تک کھایا ۔یہ جو دعوت ناموں پر”تناول ماحضر: دوپہر دو بجے سے چار بجے تک “. لکھا ہوتا ہے وہ انہی کے خوف سے لکھا ہوتا ہے ۔ بلکہ ان کے دعوت ناموں پر تو تناول ماحضر کی جگہ یوں لکھنا چاہیے ۔ تناول: الحذر الحذر۔۔

کھانے کے معاملے میں بہت سی ایجادات ہیں۔ چڑے تک کھا جاتے ہیں حالانکہ ان بیچاروں میں کھانے کو ہوتا بھی کچھ نہیں ۔بزرگ چڑوں نے ان کے خوف سے اپنے بچوں پر گوجرانوالہ کی حدود میں داخل ہونے پر دفعہ ایک سو چوالیس لگا رکھی ہے ۔ ان بیچاروں کے تو شناختی کارڈز پر لکھا ہوتا ہوگا “بازوں ،دھوکہ بازوں اور گوجرانوالہ سے دور رہیں ” ۔ گوجرانوالہ کی تو بلیاں اور مکھیاں شکر کرتی ہوں گی کہ وہ حلال نہیں۔ کریلوں میں قیمہ بھرنے اور ان کریلوں سے پھر پیٹ بھرنے میں طاق ہیں۔ بلکہ ہر وقت اس تاک میں رہتے ہیں کہ بھرے پیٹ کو کیسے بھریں۔ دھنکنا تکیہ کیا بھرتا ہوگا جیسے یہ پیٹ بھرتے ہیں ۔ کنڈکٹر منی بس کیا بھرتا ہوگا جیسا یہ پیٹ بھرتے ہیں ۔ پیپلز پارٹی، جیالوں سے پی آئی اے کیا بھرتی ہوگی جیسا یہ پیٹ بھرتے ہیں ۔ گوجرانوالہ والوں کے ماتھوں پہ درجنوں بل ہوں گے مگر پیٹ پر ایک بل بھی نہیں ہوگا ۔ پھولے غبارہ پر بل ہو ہی نہیں سکتا ۔ بلکہ یہ تو شاید سوچتے بھی پیٹ کے بل ہیں۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ باقی سارے ملک کے لوگ سوچتے وقت سر کھجاتے ہیں۔ یہ مگر سوچتے وقت بھی پیٹ کھجلا رہے ہوتے ہیں ۔ ویسے تو بڑے پیٹ کے کئی فائدے ہیں۔ انسان ڈوب نہیں سکتا ۔ چھت سے گرے تو آہستہ سے گرتا ہے ہلکی سی دھپ کی آواز کے ساتھ. بارش میں بنا چھتری کے بھی گھومنے سے پینٹ گیلی نہیں ہوتی ۔ وغیرہ ۔

جینیاتی ماہرین کہتے ہیں کہ موٹاپا انسان کے جینز میں ہوتا ہے ۔ ان کی مگر قسمت میں ہے اور قسمت بھی یہ خود بناتے ہیں ۔ ویسے ہو سکتا ہے انہوں نے بھی یہ بات سن رکھی ہو اور اسی وجہ سے یہ جینز نہ پہنتے ہوں کیونکہ زیادہ تر پہلوان دھوتی ہی باندھتے ہیں ۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اڑسٹھ انچ کی جینز ابھی ایجاد نہ ہوئی ہو۔ گوجرانوالہ میں قسما قسم کھانوں کی اتنی دکانیں ہیں کہ جتنی پشاور میں نسوار کی ہوں گی، یا جتنے فیس بُک پر دانشور، یا جتنے کراچی میں پان بیچنے والے ۔ حال ہی میں کسی دانا کا قول نظر سے گذرا ۔ لکھتے ہیں کہ اہلیانِ گوجرانوالہ کھانے کے اس قدر شوقین ہیں کہ اس شہر کے نام کا حصہ ہے نوالا ۔ گجرا ‘نوالا ‘ بھئی واہ کیا نکتہ آفرینی ہے۔ ویسے اگر آپ ان سے کہیں گے کہ کسی دانا کا قول ہے ۔ تو یہ فوراً سے پوچھیں گے “کس اناج کا دانہ” ۔ اہل لاہور کو کسی وجہ سے زندہ دلان لاہور کہا جاتا ہے ۔سوچتا ہوں کہ کیا گوجرانوالیوں کو “زندہ معدگانِ گوجرانوالہ ” کہا جا سکتا ہے کہ نہیں۔ ایک ماہر غذایات سے پوچھا زیادہ کھانا کیسا ہے۔ بولے اچھا ہے۔ حیرت ابھی طاری ہوا ہی چاہتی تھی کہ جملہ مکمل کیا “بہت زیادہ کھانے سے” ۔ اندازہ ہوا کہ موصوف بھی شہر مذکور سے ہیں۔

گوجرانوالہ پاکستان کا شاید سب سے زیادہ صنعتی شہر ہے۔ اس میں لوہے، ایلومینیم، تانبے اور دیگر دھاتوں اور ان سے بنے سامان کے ہزاروں چھوٹے بڑے کارخانے ہیں۔ جن میں موٹر سائیکل، رکشہ پنکھے، کپڑے دھونے کی مشینیں، بجلی کی موٹریں اور ان کے پرزے، برتن، دھاتوں اور پلاسٹک کا فرنیچر، سینٹری کا سامان، چینی کے برتن اور ٹائیلیں اور اس طرح کی درجنوں دیگر اشیاء شامل ہیں ۔ اتنی مختلف اور کثیر مقدار میں صنعتوں کے باوجود یہاں پر ہنرمندوں کا علم اور ہنر عالمی معیار سے بہت پیچھے ہے۔ جس کی وجہ سے نہ تو یہاں عالمی معیار کی اشیاء بن پاتی ہیں اور اس کے ساتھ کام کرنے کا ماحول بھی بہت خراب اور خطرناک ہے ۔ اس کی سب  سے بڑی وجہ تعلیم بالعموم اور سائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم بالخصوص کی شدید کمی ہے۔ اگر بہت سے ٹیکنیکل کالج اور انجینئرنگ یونیورسٹیاں کھول دی جائیں  اور صنعتکاروں کی تربیت کے لیے مختلف ادارے بنا دیے جائیں تو یقینی طور پر یہاں عالمی معیار کی اشیاء بنائی جا سکتی ہیں ۔جس سے نہ صرف درآمدات میں کمی ہوگی بلکہ ان کو برآمد کر کے ڈھیروں زرمبادلہ بھی کمایا جا سکتا ہے ۔ اس سلسلہ میں حکومتی نمائندوں اور صنعتی تنظیموں کو اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرتے ہوئے مثبت تعمیری کردار ادا کرنا چاہیے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے۔۔۔

Facebook Comments

ابن فاضل
معاشرتی رویوں میں جاری انحطاط پر بند باندھنے کا خواہش مندایک انجینئر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply