• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کیا بائبل کی ہجرت عظیم کی داستان ایک افسانہ ہے؟۔۔سٹاکس راش (Staks Rosch)/ ترجمہ: زبیر حسین

کیا بائبل کی ہجرت عظیم کی داستان ایک افسانہ ہے؟۔۔سٹاکس راش (Staks Rosch)/ ترجمہ: زبیر حسین

خدا کے وجود کے بارے میں شکوک و شبہات کے نزول کے کچھ عرصے بعد اپنے ربی (یہودی عالم دین) سے ایک ملاقات کے دوران یوم نجات اور ہجرت عظیم پر گفتگو ہوئی. ربی جانتا تھا کہ میں ان داستانوں کے مافوق الفطرت اور مضحکہ خیز پہلوؤں یا واقعات کو شک و شبے کی نظر سے دیکھتا ہوں. ربی نے پورے اعتماد کے ساتھ مجھے یقین دلانے کی کوشش کی کہ ہجرت عظیم کی کہانی ایک تاریخی حقیقت ہے اگرچہ مبالغہ آرائی کی وجہ سے اس داستان میں مافوق الفطرت واقعات در آئے ہیں. ربی کے بقول ممکن ہے مصریوں پر مینڈکوں کی بارش کا عذاب نہ آیا ہو یا موسیٰ نے بحیرہ قلزم کو چیر پھاڑ کر راستہ نہ بنایا ہو. لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ یہودی مصر میں غلام تھے. سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہجرت عظیم ہوئی تھی اور اسی کی یاد میں ہم یوم نجات یا عید مناتے ہیں.
شائد ربی کو معلوم نہ تھا کہ مجھے ہجرت عظیم کی حقیقت معلوم ہو چکی تھی. نیز میں جانتا تھا کہ یہودی تاریخ کے کسی دور میں بھی مصریوں کے غلام نہیں رہے اور ہجرت عظیم کی کہانی ایک افسانے کے سوا کچھ نہیں. جب پہلی بار مجھے علم ہوا کہ صحرائے سینا میں چالیس سال تک بھٹکنے والے یہودیوں کے بارے میں ایک بھی شہادت دستیاب نہیں ہوئی تو میں نے یہ سوچ کر اسے نظرانداز کر دیا صحرا میں آندھیاں چلتی رہتی ہیں. ممکن ہے یہودیوں کی صحرا میں موجودگی کی شہادتیں طوفانوں کی نذر ہو گئی ہوں. لیکن مزید مطالعہ و تحقیق کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ یہودیوں کی صحرائے سینا میں موجودگی کی شہادت کا نہ ملنا کوئی معمولی بات نہیں. بائبل کے مطابق ہجرت عظیم کے نتیجے میں یہودیوں کی ایک بڑی تعداد صحرائے سینا میں چالیس سال تک قیام پذیر رہی. یہ کیسے ممکن ہے یہودیوں کی اتنی بڑی تعداد طویل عرصے تک صحرا میں قیام پذیر رہے اور اپنی موجودگی کی ایک بھی شہادت نہ چھوڑے؟ مزے کی بات یہ ہے کہ ہجرت عظیم سے بھی بہت پہلے انسانوں کے جن گروہوں نے مختصر مدت کے لئے اسی صحرا میں قیام کیا وہ اپنے نشان پیچھے چھوڑ گئے.
شہادت کی غیر موجودگی کسی بھی واقعے کی صداقت پر سوالیہ نشان بن جاتی ہے. امریکہ میں نیفیوں اور لامنوں کی جنگ کی کوئی شہادت نہ ملنے سے مورمن کتاب کی صداقت مشکوک ہو گئی. ہجرت عظیم کی کوئی ایک بھی شہادت دستیاب نہ ہونے سے اب یہی صورت حال بائبل کو درپیش ہے. (خیال رہے مورمنوں کی مقدس آسمانی کتاب میں لامنوں اور نیفیوں کی عظیم جنگ کا ذکر ہے جس میں دونوں طرف کے لاکھوں بندے مرے بلکہ نیفیوں کا نام و نشان مٹ گیا.)
کچھ مدت بعد بریان ڈننگ (Brian Dunning) کے ایک آرٹیکل “کیا اہرام مصر یہودی غلاموں نے تعمیر کئے؟” کا مطالعہ کرنے کے بعد شک و شبے کی کوئی گنجائش نہ رہی کہ ہجرت عظیم کی داستان محض ایک افسانہ ہے. ہمیں بچپن سے یہ سبق رٹایا گیا تھا کہ مصریوں نے یہودیوں کو غلام بنا کر رکھا ہوا تھا اور یہ ایک ایسی تاریخی حقیقت تھی جسے جھٹلانا ممکن نہیں. یہ “تاریخی حقیقت” ہر یہودی کی ثقافتی شناخت کا حصہ بن چکی تھی. میں یہودیت کے مافوق الفطرت اور مضحکہ خیز عقائد اور روایات کو مسترد کر دینے کے باوجود اپنی یہودی ثقافت جس کی جڑیں تاریخ اور غلامی میں پیوست تھیں پر فخر کرتا تھا.
اس دوران مجھے علم ہوا کہ مشھور مبصر اور ادیب ربی ڈیوڈ وولپے (David Wolpe) بھی ہجرت عظیم کی داستان کے افسانہ ہونے کی حقیقت سے آگاہ ہو چکا تھا. اس نے اپنے آرٹیکل “کیا ہجرت عظیم ہوئی تھی؟” میں انکشاف کیا ہے کہ دوسرے ربی ہجرت عظیم کے واقعے کی اصل حقیقت یعنی اس کے فرضی ہونے کو چھپانے کی تلقین کرتے ہیں. ڈیوڈ کے بقول مافوق الفطرت واقعات کو نکال کر ہجرت عظیم کی داستان جسے بائبل کی سب سے بڑی تاریخی حقیقت یا سچائی سمجھا جاتا تھا محض ایک افسانہ ثابت ہوئی. اگر بائبل کی سب سے بڑی تاریخی سچائی کا یہ حال ہے تو اس کتاب کی باقی داستانیں سچی کیسے ہو سکتی ہیں؟
کیا ہمارا اخلاق یا ضمیر ہمیں اجازت دیتا ہے کہ ہم ایک ایسی فرضی داستان کو سینے سے لگائے رکھیں جو مصریوں کی عزت یا وقار پر ایک سیاہ دھبہ ہے؟ ہزاروں سال سے ہم یہودی اس وجہ سے مصریوں پر لعنت ملامت کے تیر برساتے آ رہے ہیں کہ انہوں نے ہمارے آباؤاجداد کو غلامی کی زنجیروں میں جھکڑے رکھا اور ان پر ظلم ستم کے پہاڑ توڑے. تاریخ، جغرافیہ، اور آثار قدیمہ سے ایک بھی شہادت دستیاب نہ ہونے کے بعد شک و شبے کی کوئی گنجائش نہیں رہی کہ یہودی کبھی مصریوں کی غلامی میں نہیں رہے. اس حقیقت کے طشت از بام ہونے کے باوجود یوم نجات منانا ہمارے لئے باعث شرم ہے.
بچپن اور جوانی میں میں بڑے جوش اور جذبے سے یوم نجات (عید) مناتا تھا. مجھے اپنے آباؤاجداد کی غلامی کے خلاف جدوجہد اور آزادی کے لئے کی جانے والی کوششوں پر فخر تھا. میں نہیں چاہتا کہ یہودی یوں نجات منانا یا اس داستان کا ذکر کرنا بند کر دیں. میں بس یہ چاہتا ہوں کہ وہ اعتراف کریں کہ یوم نجات کی بنیاد ایک افسانے پر ہے ناکہ تاریخی سچائی. نیز ہمارے ربی (علمائے دین) سینکڑوں ہزاروں سال مصریوں کو مطعون کرنے پر ان سے باقاعدہ معافی مانگیں. ایک انسان دوست ہونے کے ناتے میں یقین رکھتا ہوں کہ ہر قسم کی غلامی کے خلاف جدوجہد کرنا اور انسانوں کی آزادی کے حق میں آواز بلند کرنا ضروری ہے. لیکن ہم یہ کام معصوم لوگوں کو ولن بنائے بغیر بھی کر سکتے ہیں. یوں بھی تاریخ میں بیشمار ولن موجود ہیں.
بہتر ہو گا کہ یوم نجات کے موقع پر ان یہودیوں کے حالات بیان کئے جائیں جنہوں نے جنگ عظیم دوم کے دوران بڑی مشکل سے جرمنی سے ہجرت کرکے اپنی جانیں بچائیں. اس زمانے کے بہادری اور ہیروازم کے بیشمار سچے واقعات موجود ہیں. نیز انھیں بیان کرتے وقت تاریخ کے فرضی اور مافوق الفطرت واقعات مثلا” طاعون کے عذاب یا آسمان سے مینڈکوں کی بارش کا اضافہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں. میری رائے میں یہودیوں کو اپنے تہوار منانے کے لئے فرضی داستانوں کا سہارا نہیں لینا چاہئیے. ہم مافوق الفطرت دعووں اور داستانوں پر ایمان لائے بغیر بھی اپنی یہودی شناخت برقرار رکھ سکتے ہیں. آج بیشمار یہودی خدا پر ایمان نہیں رکھتے اور خود کو سیکولر یہودی سمجھتے ہیں.

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply