رائٹ ٹریک

بوجھل بیوروکریسی، رشوت، سفارش، خوشامد اور موقع پرستی پر مبنی کلچر، دہشت گردی کا عفریت، ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے کا چسکا، فتووں کی فروانی، فرقہ پرستی کی لعنت، منافقت کے اہرام، لاوارث عوام۔۔۔
ان مسائل کا حل چار امور سے مشروط ہے:
01:- فری اینڈ فیئر الیکشن
02:- آزاد، خود مختار و غیر جانبدار ادارے
03:- بے رحم نظام احتساب
04:- نیشنل ایکشن پلان پر سختی سے عملدرآمد
ان مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی مثبت و سنجیدہ مباحثہ کرنے نیز پارلیمنٹ میں قانون سازی کرنے کے بجائے ہمارے سیاستدان اور پڑھا لکھا طبقہ لایعنی موضوعات پر بحث و مباحثے اور تنقید برائے تنقید میں مشغول ہے۔

پاکستانی قوم کی بدنصیبی یہ رہی کہ اسے اچھی حکومت تو درکنار 1977 کے بعد سے ڈھنگ کی اپوزیشن بھی نصیب نہیں ہوئی ماسوائے قاضی حسین احمد، نوابزادہ نصراللہ خان اور اب کسی حد تک عمران خان۔ کیا کوئی فرد ایماندری سے بتا سکتا ہے کہ آج کی تاریخ میں نواز گورنمنٹ کے مقابلے میں پیپلزپارٹی/ایم۔کیو۔ایم/ جے۔یو۔آئی/ جماعت اسلامی/اے۔این۔پی/ مسلم لیگ ق اور عوامی ملی پارٹی میں سے کوئی ایک جماعت بھی صیح معنوں میں اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہے؟ ان حالات میں بحیثیت قوم سروائیول کا ایک ہی راستہ ہے کہ پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی سمیت تمام محب وطن سیاسی جماعتیں سردست ایک ایسی حکومت کے قیام کے لیے متحد ہو جائیں جو
٭ جاندار انتخابی اصلاحات کرے۔
٭ کے۔پی۔کے پولیس کی طرح قومی اداروں بالخصوص نیب اور الیکشن کمیشن کی آزادی و خود مختاری کا میکینزم دے۔
٭ کرپشن کے خلاف سخت ترین قانون سازی کرے، حرام خوری کے تمام سوراخ بند کرے نیز لوٹی ہوئی دولت کی واپسی یقینی بنائے۔
٭ تمام فرقہ پرست، شدت پسند و انتہا پسند مذہبی اور سیکولر تنظیموں کو بین کر دے۔

ہمدردی جماعتوں سے نہیں غریب/مظلوم عوام سے ہونی چاہیے کیونکہ سیاسی جماعتیں بھی عوامی ہمدردی کی بنیاد پر ہی میدان سیاست میں ہیں۔ 1988 سے 2017 تک کے طویل دورانیے میں نواز شریف، بے نظیر، مشرف، زرداری، فضل الرحمن، اسفند یار ولی، محمود اچکزئی اور الطاف حسین نے نہ صرف اہم اور بنیادی اصلاحات کو آئینی و قانونی شکل دینے میں عدم دلچسپی اور غیر سنجیدگی کا ثبوت دیا بلکہ انہی سیاستدانوں نے دھونس، دھاندلی، ٹھپہ، کرپشن، لوٹ مار، مفاد پرستی، مذہبی منافرت، افراتفری، انتہا پسندی، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کے کلچر کو پروان چڑھایا۔

Advertisements
julia rana solicitors

پاکستانی تاریخ کے اس اہم اور فیصلہ کن موڑ پر جب باقی جماعتیں کرپشن بچاؤ ایشو پر متحد ہیں، پی ٹی آئی سولو فلائیٹ کے سحر میں مبتلا ہے جبکہ جماعت اسلامی کو ایم ایم اے کا بخار چڑھ رہا ہے۔ نہ جانے دونوں جماعتوں کو ان چار بنیادی نکات پر اشتراک عمل میں کیا مسلہ درپیش ہے؟ اگر یہ جماعتیں واقعی ملک سے مخلص ہیں تو ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور سیاسی و انتخابی بارگینیگ کے بجائے پہلے ملک کو رائٹ ٹریک پر لانے کے لیے بنیادی ایشوز پر متحد کیوں نہیں ہوتیں؟
نیا یا اسلامی پاکستان بہت بعد کی باتیں ہیں۔

Facebook Comments

سردار جمیل خان
کرپشن فری آزاد و خود مختار پاکستان کے لیے جدوجہد

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply