مغربی دنیا اور بچوں کے حقوق(1)۔۔ڈاکٹر راشد عباس

عالمی اور مغربی میڈیا مغرب اور امریکہ کو انسانی حقوق کے لیے مثالی اور آئیڈیل قرار دیتا ہے۔ میڈیا کا پروپیگنڈا اس قدر شدید اور وسیع ہے کہ انسانی حقوق کا نام آتے ہی مغربی دنیا کا نرم و ملائم چہرہ سامنے آنا شروع ہو جاتا ہے، حالانکہ حقیقت اس سے کہیں مختلف ہے۔ انسانی حقوق جن میں عورتوں اور بچوں کے حقوق خصوصی طور پر شامل ہیں، مغربی معاشروں میں بری طرح پامال ہو رہے ہیں۔ اس مختصر مضمون میں مغرب میں بچوں کے حقوق کے بارے میں اشارہ کیا گیا ہے اور کچھ حقائق بتانے کی کوشش کی گئی ہے۔ کسی بھی معاشرے میں سب سے زیادہ اگر کسی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ رہتا ہے تو وہ اس معاشرے کے کم سن بچے ہوتے ہیں۔ جنگ ہو یا کسی اور طرح کا بحران، اگر باپ مرے تو بھی بچے کو نقصان، ماں کسی حادثے کا شکار ہو جائے تو بھی مصیبت بچے پر آتی ہے۔ بھائی یا بہن کی صورت میں یا ہم سن کسی جنگ یا بحران کا شکار ہو تو سب سے زیادہ منفی اثرات بچے پر ہی مرتب ہوتے ہیں۔ جنگی اور غیر متوقع بحرانوں کی طرح کسی معاشرے میں پانے جانے والے اخلاقی بحران اور معاشرتی چیلنجوں سے بھی سب سے زیادہ بچے متاثر ہوتے ہیں۔

معروف اخبار گارڈین نے اپنی اپریل 2015ء کی اشاعت میں برطانیہ میں بچوں کے خلاف انجام پانے والے جرائم کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کی تھی، جس میں آیا تھا کہ یورپی ممالک میں سب سے زیادہ برطانیہ میں بچوں کو جنسی زیادتیوں کا شکار بنایا جاتا ہے اور اس میں برطانوی شہریوں کو دوسرے یورپی ممالک سے زیادہ جنسی لذت محسوس ہوتی ہے۔ دوسری طرف برطانیہ میں چونکہ بچوں سے جنسی زیادتی کرنے والوں کے خلاف سخت قوانین موجود نہیں ہیں، لہذا بچوں کے خلاف اس طرح کے جرائم میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ گارڈین کی اس رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں ہر چھے بچوں میں سے ایک کو جنسی زیادتی کا کرب برداشت کرنا پڑتا ہے جبکہ لڑکیوں میں جنسی زیادتی کی شرح کہیں زیادہ ہے۔ لڑکیوں میں ہر چار لڑکیوں میں سے ایک کو جنسی زیادتی کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ گارڈین کی رپورٹ کے مطابق بچوں کی اسمگلنگ، گینگ ریپ اور اس طرح کے دوسرے اقدامات برطانوی حکومت کے مکمل علم میں ہیں۔

جرمنی میں بھی بچوں کے خلاف جنسی زیادتی کے اعداد و شمار بہت زیادہ ہیں۔ جرمن پولیس کے مطابق ہر روز چالیس بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں۔ جرمنی کی فوجداری پولیس “pks” کے اعداد و شمار کے مطابق 2018ء میں چودہ ہزار بچوں کو جنسی زیادتی کا شکار بنایا گیا۔ جنسی زیادتی کا شکار ہونے والے ہر دس بچوں میں سے ایک کی عمر چھ سال سے کم تھی۔ پولیس کی رپورٹ میں ذکر کیا گیا ہے کہ حقیقی اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہیں، کیونکہ اکثر اوقات کیس پولیس کے پاس درج نہیں کرائے جاتے یا بچے کے قریبی عزیز اس جرم میں ملوث ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے خاندان کے اندر بات دبا دی جاتی ہے۔

امریکہ میں بچوں کے خلاف جنسی جرائم وحشتناک حد تک زیادہ ہیں۔ امریکی محکمہ صحت و انسانی خدمت کے ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں آٹھ منٹ میں ایک بچے کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ امریکہ میں ہر سال نوے بچے جنسی جرائم کی بھینٹ چڑھتے ہیں۔ ماہرین اور آگاہ ذرائع کا یہ کہنا ہے کہ حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ بدقسمتی سے آج کا مغربی معاشرہ بچوں کے خلاف جنسی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے۔ یہ وہ جرم ہے، جو ہر ذی شعور اور انسانی احساسات و جذبات رکھنے والے انسان کو پریشان و ملول کر دیتا ہے۔ بچوں کو تنگ کرنے اور ان پر ظلم و ستم کرنے کی کئی اقسام ہیں۔ مثال کے طور پر فرانس میں کم سن بچوں کو والدین کی طرف سے سخت ترین مار پیٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہاں تک کہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ فرانس میں ہر روز دو بچے والدین کے تشدد کی وجہ سے مارے جاتے ہیں۔ فرانس کی پارلیمنٹ نے اس حوالے سے باقاعدہ قانون سازی کر رکھی ہے، تاکہ والدین اپنے بچوں پر جسمانی تشدد نہ کریں۔

بعض مغربی ممالک میں رنگ و نسل کا تعصب بھی بچوں کی مار پیٹ کا باعث بتنا ہے۔ امریکہ میں زیادہ تر سیاہ فام بچے تشدد کا شکار ہو کر مارے جاتے ہیں۔ سیاہ فام بچے اور لڑکے جن کی عمریں 10 سے 19 سال تک ہوتی ہیں، زیادہ مار پیٹ کا شکار ہوتے ہیں۔ امریکہ میں تشدد کے ذریعے سیاہ فام بچوں کے مرنے کی تعداد سفید فاموں سے انیس گنا زیادہ ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اپنی 2015ء کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ امریکہ میں کئی نابالغ بچوں کو بالغ افراد کی عدالت میں لے جا کر سزائیں دی جاتی ہیں۔ 2014ء سے لے کر کچھ عرصہ پہلے تک سامنے آنے والے اعداد و شمار میں آیا ہے کہ 1500 سے زائد نابالغ بچوں کو بالغوں کی کورٹ میں لے جا کر سزا سنائی گئی، سزا یافتہ بچوں میں اکثریت سیاہ فاموں کی ہے۔

جاری ہے

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply