اپنے غم، بدلی کرا لو (سٹریس ویکسین سیریز)قسط3۔۔عارف انیس

اس رات میں نے عجیب وغریب خواب دیکھا!

ہر طرف منادی ہورہی تھی، ڈھول بج رہے تھے اور شور مچ رہا تھا. “اپنے غم بدلی کرا لو”. شرط یہ تھی کہ اپنے غم ایک گٹھڑ میں باندھ کر شہر کے مرکزی چوک میں جمع ہوجانا ہے. اور وہاں اپنے غم چھوڑ کر کسی اور کے غم اٹھائے جاسکتے ہیں. ادلی، بدلی ہوسکتے ہیں.

میں نے دیکھا کہ لوگ اپنے کاندھوں پر گٹھڑیاں رکھے بھاگے جارہے تھے. کسی کے کاندھے پر چھوٹی سی گٹھڑی تھی تو کسی کی کمر پر بوری سی لدی ہوئی تھی. سب تیزی سے قدم اٹھاتے، پسینے میں شرابور چلتے جارہے تھے. ہر طرف ہڑبونگ سی مچی ہوئی تھی.

میں نے جلدی سے اپنے غم، پریشانیاں اور محرومیاں ایک تھیلے میں ڈالے اور بھاگنے والوں میں شامل ہوگیا. چلتے چلتے میں سوچتا جارہا تھا کہ میں نے کس سے اپنے غم بدلنے ہیں. مجھے اپنے کچھ دوستوں کا خیال آیا جو میرے خیال میں بہت خوش قسمت تھے اور ان کی زندگی میری جلیبی کے برعکس سیدھی لکیر کا سفر تھا. کچھ محلے دار یاد آئے جن کے نصیب کی آرزو کی جاسکتی تھی.

ہجوم کثیر تھا تو ہر طرف گرد اڑتی جارہی تھی. چلتے چلتے مجھے اپنے پسندیدہ مقدروں والے کچھ لوگ نظر آئے مگر ان کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں اور ان کے تھیلے نہیں کمر توڑ گٹھڑ تھے جنہیں دیکھ کر میرا دل دہل گیا تھا.

“یہ تو خود بہت بڑا بوجھ اٹھائے پھرتے ہیں. کوئی چھوٹے گٹھڑ والا ڈھونڈتے ہیں”.

میں نے ارد گرد دیکھا تو محسوس ہوا سب اپنا گٹھڑ اٹھائے چوری چوری ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں مگر سہمے ہوئے ہیں. شروع کا جوش وخروش اب ڈھل سا چکا تھا کہ ہر شخص مشکوک نظروں سے ایک دوسرے کو تاک رہا تھا.

شہر کے مرکزی چوک میں ہزاروں لوگ جمع تھے. پیسے اور طاقت والے بھی، حسن والے بھی، ادا والے بھی، برکت والے بھی، ہر ایک کے پاس اپنی پریشانیوں اور غموں کا بوجھ تھا.

اوپر مینار پر ایک طویل قامت شخص چڑھا جس کے لب و لہجے میں گرج نمایاں تھی.

“چونکہ دن رات لوگوں کو رب سے دعائیں کرتے دیکھا گیا ہے کہ وہ اپنی پریشانیوں اور غموں سے تنگ ہیں، ساتھ ہی انہیں دوسرے لوگ غموں اور پریشانیوں سے پاک لگتے ہیں، تو ان مسلسل شکوے شکایتوں سے تنگ اوپر سے حکم آیا ہے اور منادی کرادی گئی ہے کہ جو لوگ زیادہ تنگ ہیں، وہ اپنے غم لے کر یہاں آجائیں اور دوسرے کے غموں سے تبدیل کرا لیں “. اس نے ایسے بارعب لہجے میں کہا جو ہر شخص کی سماعتوں میں اتر گیا.

” اچھا، اگر یہاں اپنے غموں سے تنگ لوگ ہی جمع ہیں تو وہ کیا کررہے ہیں جنہیں میں اتنا خوش قسمت سمجھتا ہوں؟ “میں نے اپنے آپ سے سوال کیا. پھر میری سوچوں کا سلسلہ اس گرج دار لہجے نے منقطع کردیا.

“اپنے اپنے گٹھڑ دس فٹ کے فاصلے پر رکھ کر ایک طرف ہوجائیں”.

حکم کی فوری تعمیل کی گئی. سب لوگوں نے اپنا اپنا بوجھ اتار پھینکا. میں نے گٹھڑ اتار تو دیا مگر میں نے اسے اپنی نظر کے حصار میں رکھا. اب دل میں خواہ مخواہ عجیب و غریب وسوسے امڈتے چلے آرہے تھے. سارے امیر کبیر اور زورآور لوگ بھی یہاں جمع تھے سو اس کا مطلب ہے کہ ان کے گٹھڑوں میں بھی کچھ بھرا ہوا ہے. سوال یہ ہے کہ جانے کیا کچھ؟

یہ سوچنا تھا کہ میرا دل کسی نے انگلیوں میں لے کر مسلنا شروع کر دیا.

“اوہ خدایا، بہتر ہے میں اپنا گٹھڑ اٹھا لوں کہ غم سارے دیکھے بھالے تھے. اب کسی کی گٹھڑی میں سے کوئی نیا نکور غم نکل آیا تو؟ پتہ نہیں، اگلے کے گٹھڑ میں کیا ہو، کیا نکلے، الٹا لینے کے دینے نہ پڑ جائیں”.

وہ فلک شگاف آواز دوبارہ گونجی. اس مرتبہ لہجہ دھمکی آمیز تھا.

“سب اپنی آنکھیں بند کرلیں، میں دس تک گنوں گا. دس کہتے ہی سب دوڑ کر اپنی پسند کا گٹھڑ اٹھا لیں گے. بس صرف ایک ہی گٹھڑ اٹھانے کا موقع دیا جائے گا، مزید ادلی بدلی نہیں ہوگی “.

گنتی شروع ہوئی. میں نے آنکھیں بند رکھیں مگر تھوڑا تھوڑا دیکھنا جاری رکھا. مجھے پتہ تھا کہ دس تک کی گنتی ختم ہوتے ہی میں نے بھاگ کر اپنا گٹھڑ اٹھا لینا ہے. اور میں نہیں چاہتا تھا کہ وہ کسی اور کے ہتھے چڑھ جائے.

گنتی چلتی رہی اور وہ آواز آسمان کو ٹھونگیں مارتی رہی.

جیسے ہی دس کہا گیا. میں نے بجلی کی تیزی سے زقند لگائی اور ہوا میں اڑتا ہوا اپنے گٹھڑ تک پہنچا اور اپنی کمر پر لاد لیا اور تیزی سے مڑا اور اپنے گھر کی طرف بھاگنے لگا.

لیکن ان چند ساعتوں میں، میں نے ایک انوکھا کھیل دیکھا. میں بھاگ کے اپنا گٹھڑ اٹھانے والوں میں اکیلا نہیں تھا. میرے دائیں ہاتھ پر اور بائیں ہاتھ پر موجودہ لوگوں نے بھی یہی کیا تھا. پھر ان سے آگے اس لنگڑے فقیر نے بھی یہی کیا اور اس طرف کھڑے ایک آنکھ سے اندھی عورت نے بھی یہی کیا تھا.

مجھے لگا جیسے سب نے بھاگ کر اپنے اپنے گٹھڑ اٹھا لیے ہوں. واپسی کے سفر میں بس ایک بات، آمد کے سفر سے مختلف تھی، بھاری بھرکم گٹھڑ اٹھائے لوگوں کے چہروں پر درد کی بجائے ایک مسکراہٹ تھی اور وہ گیت گاتے اور چہکتے ہوئے واپس اپنے گھروں کی جانب رواں دواں تھے.

سوال یہ ہے کہ آپ کو اپنا گٹھڑ رکھ کر دوسرا گٹھڑ اٹھانے کا موقع دیا جائے تو آپ کیا کریں گے /گی؟

Advertisements
julia rana solicitors

( مرکزی خیال ماخوذ)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply