شوکی سٹوڈنٹ کا سوال-اقبال حسن

اس محلے میں ایک شخص جس سے تقریباً سبھی نالاں تھے وہ تھا شوکی سٹوڈنٹ۔نام تھا شوکت اللہ اور پیار سے بگڑ کر شوکی کر دیا گیا تھا۔شوکی، بقول اُس کی ماں کے، سولہویں جماعت میں پڑھتا تھا۔چونکہ وہ گلی بلکہ محلے کا واحد کالج جانے والا طالب علم تھا اس واسطے اُس کے نام کے ساتھ شٹوڈنٹ کا دم چھلا لگا ہوا تھا۔شوکی لمبے بالوں والا لڑکا تھا۔آنکھیں نیم وا رکھتا اور قینچی کے سگریٹ پیا کرتا تھا۔ایک ہفتے بعد کپڑے تبدیل کرتا اور مذہب کے خلاف تھا۔یہ ایک ایسا قصور تھا جو ناقابل معافی تھا لیکن وہ زمانہ برداشت اور دلیل کا تھا اس لئے لوگ اُس سے مذہبی بحثیں ضرور کرتے لیکن ہم نے کبھی نہیں سنا کہ کسی نے شوکی کا سر پھاڑنے کی کوشش کی ہو یا رات کو ہاکی بردار حضرات اُٹنگی شلواریں پہنے، ڈاڑھے پھٹکارتے اُس کا دماغ درست کرنے اُس کے گھر پہ گئے ہوں۔شوکی دولت کی نا منصفانہ تقسیم کے خلاف تھا اور سنا تھا کہ یونیورسٹی میں بھی اس نوعیت کی تقریریں کیا کرتا تھا۔ایک دفعہ اُس نے مجھے راستے میں روک کر پوچھا تھا۔
,,تم اچھے خاصے سمجھدار آدمی لگتے ہو۔تمھیں نماز روزے کی عادت کیسے پڑگئی؟،
،اس لیے کہ میں مسلمان ہوں،
لگتا تھا میرے جواب سے شوکی کی تسلی نہیں ہوئی تھی۔اُس نے قینچی کے دو سگریٹ ایک ساتھ سلگائے اور ایک مجھے دیتے ہوئے بولا۔
،ہوں۔لیکن میں پوچھ سکتا ہوں کہ تم مسلمان کیوں ہو؟ ایک آدمی بقائمی ہوش و حواس کسی بھی مذہب کو کیسے مان سکتا ہے؟،
یہ بہت مشکل سوال تھا۔میرے پاس اس کا ایک ہی جواب تھا جو میں نے فوراً ہی دے دیا۔
،شوکی بھائی۔میرے باپ دادا سبھی مسلمان تھے اس لئے میں مسلمان ہوں اور معاف کیجئے میں اس موضوع پر بات کرنا پسند نہیں کرتا،۔
شوکی نے ایک طویل کش لیا اور اپنی نیم وا آنکھوں سے مجھے قدرے غور سے دیکھا اور پھر ہنس کر بولا۔
،،مجھے سالا ایک بھی ایسا مسلمان آج تک نہیں ملا جس نے اپنی عقل کواستعمال کرکے مجھے جواب دیا ہو۔بہر حال تم اچھے آدمی ہو اور تمہیں مسجد جاتا دیکھ کر مجھے عجیب سے لگا تھا اس لئے میں نے یہ بات پوچھ لی،،۔مجھے غصہ آگیا اور میں نے کہا۔
،آپ کے خیال میں مسجد جانے والے لوگ اچھے نہیں ہوتے؟،
شوکی پھر مسکرایا اور بولا۔
،میں صرف تمہاری بات کر رہا ہوں یار۔جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں۔خیر دفع کرو۔ویسے تم نے کبھی غور کیا کہ اس دنیا میں آج جتنے بھی جھگڑے دکھائی دے رہے ہیں ان سب کی بنیاد مذہب ہی ہے۔ دیکھو میں صرف تمہارے مذہب کو نہیں کہہ رہا۔کسی بھی مذہب کولے لو۔پتہ نہیں مذہب ایجاد کرنے والوں نے یہ سب کیوں نہیں سوچا؟تم نے کبھی غور کیا اس بات پر؟،
میرے لئے یہ بھی ایک اطلاع تھی کہ مذہب ،،کسی نے ایجاد،، کیا تھا۔میں نے کہا۔
،مذہب ایجاد کرنے سے آپ کی کیا مراد ہے؟ہر مذہب اللہ میاں نے اس دنیا میں بھیجا ہے،۔
شوکی ہنسا۔ اُس نے ہاتھ آگے بڑھا کر میرا شانہ تھپتھپایا اور بولا۔
اگر اللہ میاں ہی اس سارے کھیل کے پیچھے ہیں تو وہ بار بار مذاہب دنیا میں کیوں بھیجتے رہے؟ ایک ہی مذہب شروع میں بھیج دیتے اور اللہ اللہ خیر سلا۔معاف کرنا یار۔یہ تو انسانوں کو آپس میں لڑوانے والی بات ہوئی۔ہوئی یا نہیں؟
اُس وقت میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا اس لئے میں نے کہا۔
،،مجھے نہیں پتہ۔یہ سب اللہ میاں کے کام ہیں۔ہمیں یہ سب باتیں نہیں سوچنی چاہئیں،۔
شوکی کھڑا ہوا اور سگریٹ کا آخری کش لگا کر اُسے نالی میں پھینک کر بولا۔
،تمہارا مذہب غور و فکر کی دعوت دیتا ہے اور تم اس سے انکار کر رہے ہو؟ کیسے مسلمان ہو یار؟،
شاید اُسے مجھ سے کسی جواب کی توقع ہی نہیں تھی۔وہ تیز قدموں سے وہاں سے چلا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

زیر طبع ناول ،راج سنگھ لاہوریا، سے اقتباس

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply