قانون کی پاسداری میں ہمارا دہرا معیار ۔۔عاصمہ حسن

ہم وہ قوم ہیں جو چاہتی ہے کہ سارے مسائل خود بخود حل ہو جائیں اور حالات راتو ں  رات بدل جائیں لیکن ان حالات کو بدلنے کے لئے خود کو بدلنا نہیں چاہتے ـ

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر ہر بندہ اپنی طریقے سے’ اپنی جگہ خود کو بدل لے ‘ اپنا کام ایمانداری سے کرے اپنی ذمہ داریاں صحیح سے نبھائے ‘ قوانین کی پاسداری کرے تو یہ ملک جنت نظیر بن سکتا ہے ـ
ہم کسی مسیحا کے آنے کا یا کسی معجزے کا ہی انتظار کیوں کرتے ہیں ہم خود پہلا قدم کیوں نہیں اُٹھاتے ـ ہم خود پر کام کیوں نہیں کرتے ‘ ہم خود کو اپنی سوچ کو کیوں نہیں بدلتے ـ
اگر ہم کسی دوسرے ملک میں پہنچتے ہی ان کے قوانین کی پاسداری کر سکتے ہیں ان کی تہذیب میں رنگ سکتے ہیں ان کی سڑکوں کو صاف رکھ سکتے ہیں تو اپنے ملک میں ایسا کیوں نہیں کر سکتے ـ اگر بیرون ملک ٹیکسی چلا سکتے ہیں ہر طرح کی چھوٹی موٹی نوکری یا کام کر سکتے ہیں تو یہ کام ہم اپنے ملک میں اپنے پیاروں کے ساتھ رہ کر بھی تو کر سکتے ہیں ـ اگر ہم ان کے بنائے اصولوں اور قوانین پر عمل کر سکتے ہیں تو اپنے ملک کے قوانین پر عمل کیوں نہیں کر سکتے ؟ قوانین توڑنے کے پیچھے بھی ہماری نفسیات کا عمل دخل ہے یہ ہماری سوچ ہے کہ قوانین تو ہوتے ہی توڑنے کے لئے ہیں اور اگر سگنل توڑ دینگے تو کیا ہو گا زیادہ سے زیادہ چالان ہو جائے گا جو ہم باآسانی ادا کر سکتے ہیں ـ قوانین پر اس وقت تک عمل درآمد نہیں ہو سکتا جب تک اس کو توڑنے والے کو سخت سے سخت سزا نہ ملے ـ
چلتی گاڑی سے شیشہ کھول کر کوڑا باہر پھنکنا ‘ گھروں کا کوڑا گلی میں پھینکنا’ جگہ جگہ تھوکنا ‘ خالی بوتلیں ‘ کاغز ‘ٹن سڑک پر پھینکنا کیا یہ ہمیں زیب دیتا ہے نہیں نا —- لیکن ہم یہ سب کرتے ہیں جانتے ہوئے بھی کہ یہ کام مناسب نہیں لیکن ہم کرتے ہیں ـ کیونکہ ہم بھول جاتے ہیں کہ ہمیں اللّٰہ تعالی نے اشرف المخلوقات بنایاہے اور ہمارا ہر عمل ہماری تربیت کی عکاسی کرتا ہے ـ
کسی کو رشوت دیتے یا لیتے پکڑے گئے تو کیا ہو گا مزید رشوت دے کر معاملہ رفع دفع ہو جائے گا ـ کسی لاچار’ معصوم کی عزت سے کھیل لیا اپنی حوص پوری کر لی تو کیا ہو گا ؟ کچھ بھی نہیں کیونکہ اگر کسی نے انصاف کے لئے آواز اٹھائی تو اسے دبا دیا جائے گا یا کیس سالوں سال چلتا رہے گا غریب اپنی جان سے تو چلا جائے گا لیکن انصاف نہ مل پائے گا ـ یا جیت اس کی ہو گی جس کا قانون ہو گا ـ
کبھی سوچا ہے کہ ہم ترقی یافتہ ممالک سے اتنا پیچھے کیوں ہیں ؟ کیونکہ وہاں قوانین بنانے والے مضبوط ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ قوانین پر عمل درآمد کیسے کروانا ہےـ یہ ہم ہی ہیں جب باہر کے کسی ملک میں جاتے ہیں تو قطار میں کھڑا ہونا سیکھ جاتے ہیں جبکہ اپنے ملک میں ایسا کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں ـ اپنے ملک میں ٹریفک جام ہو جائے تو ہمارا خون کھول اٹھتا ہے آستینیں چڑھا کر گریبان پکڑنے تک کو پہنچ جاتے ہیںـ جبکہ پردیس میں ہم آرام سے گھنٹوں سڑک پر کھڑے رہتے ہیں اور کسی کو ہارن بجا کر گالیاں نکال کر اپنی بھڑاس نہیں نکالتے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ وہاں ہارن دینا جرم سمجھا جاتا ہے ـ ہم اپنی سرزمین سے قدم باہر نکالتے ہی کیسے مہذب بن جاتے ہیں زبان میں بھی شیرینی آ جاتی ہے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ وہاں کے قوانین سخت ہیں اگر ان پر عمل نہ کیا گیا تو کاروائی ہو گی اور جلا وطن کر دیا جائے گا ـ
یہ بھی ہمارا المیہ ہے کہ ہم کسی اپنے کو ترقی کرتے نہیں دیکھ سکتے اگر کسی نے کوئی مقام’ عزت حاصل کر لی ہے تو اس کی محنت ‘ قربانیوں کو نظر اندار کر کے حسد کینہ پروری کو دل میں پال لیتے ہیں اور اس کو نیچا دکھانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ـ جبکہ دوسری قومیں ایک دوسرے کی مدد کرتی ہیں اور آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرتی ہیں ـ
دوسرا المیہ یہ ہے کہ ہم کسی کے اچھے کام کہ تعریف نہیں کر سکتے ہاں البتہ تنقید برائے تنقید کر سکتے ہیں ـ امن و امان (لاء اینڈ آرڈر) کی دھجیاں اڑانا اپنا فرض سمجھتے ہیں ـ
اگر ہم ترقی کرنا چاہتے ہیں تو اس کا واحد حل یہ ہے کہ ہم قوانین کو سمجھیں ان کو مانیں اور ان پر عمل کریں ـ اس کے ساتھ ساتھ قوانین بنانے والوں کو بھی چاہئیے کہ قوانین بنانے کے بعد ان پر عمل درآمد کروانا بھی ان کا ہی کام ہے اور یہ ڈنڈے کے زور پر ہی ممکن ہے جب تک سخت سے سخت سزائیں نہیں ملیں گی یہ قوم نہیں سدھرے گی اور تبھی کوئی ان قوانین کو توڑنے کا سوچ بھی نہ سکے گا ـ مزید یہ کہ قوانین امیر ہوں یا غریب ‘ افسر ہو یا سپاہی سب کے لئے ایک جیسے ہونے چاہئیں ـ تاکہ سب کو تحفظ مل سکے اور کوئی انصاف لینے کے لئے قانون کو ہاتھ میں نہ لے ـ اسی صورت میں ہم اپنی اور اپنے ملک کی عزت دوسروں کی نظر میں بنا سکتے ہیں اور قوانین کا احترام کر کے مہذب قوم بن کر ابھر سکتے ہیں ـ

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply