فلم ریویو (تھپڑ THAPPAD)۔۔۔عبدالولی

اصول زندگی

بینجیمن فرینکلن Benjamin Franklin 1706-1790 ایک امریکی ادیب، مفکر اور سیاست دان تھا۔ ان کا ایک قول ہے کہ ”نکاح سے پہلے اپنی آنکھیں خوب کھلی رکھو، مگر نکاح کے بعد انھیں آدھی بند کرلو“۔
Keep your eyes wide open before marriage, half shut afterward.

کوئی بھی مرد یا عورت ہر لحاظ سے کبھی بھی پرفیکٹ نہیں ہوسکتا۔ ہر شخص میں کمی, کوتاہی کا امکان بہر حال موجود رہتا ہے۔ اس لیے رشتہ سے پہلے خوب تحقیق ضروری ہے مگر رشتہ کے بعد بہتر یہ ہے کہ اپنے ساتھی کی خوبیوں کو تو دیکھا جائےجبکہ کمیوں کو نظر انداز کیا جاۓ۔ اسی میں ہی دونوں کی عافیت اور بھلائی ہے۔ مطلب کہ نکاح سے پہلے جانچ اور نکاح کے بعد نباہ۔
ہم سب کو %100 آئیڈیل یعنی غلطیوں سے پاک (پرنس یا پرنسس) کی تلاش رہتی ہے۔ یہ جانے بغیر کہ ایسا کسی بھی صورت اس دنیا  میں ممکن نہیں۔ جیساکہ ایک انگریز ادیبہ Anne Bronte کا قول ہے کہ ”اس غیر معیاری دنیا میں ہر چیز کے ساتھ ہمیشہ ایک ”مگر“ موجود رہتاہے“۔
There is always a ‘but’ in this imperfect world.

دراصل اس دنیا میں ایک ”مگر“ کے ساتھ ہی زندگی کو جینا پڑتا ہے۔ یہی حقیقی  زندگی ہے۔ میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میاں بیوی میں اختلافات کا ہونا بھی ایک لازمی سی بات ہے۔ نیز دونوں فریقوں کو ایک دوسرے میں کچھ نہ کچھ کمی، کوتاہیاں بھی ضرور نظر آئیں گی۔ اب ایک صورت تو یہ ہے کہ دوسرے فریق کی کوتاہی سے لڑا جائے۔ اس میں شدت لائی جاۓ اور آخر کار اس سے علیحدگی اختیار کر لی جاۓ۔
ٹھیک، چلو علیحدگی اختیار کرلی۔ مگر اب مشکل یہ ہے کہ ایک علیحدگی کے بعد جو دوسرا تعلق قائم کیا جاۓ گا اس کی کیا گارنٹی ہے کہ اس تعلق میں کوئی کھوٹ نہیں ہوگا یا اس سے غلطی کے سرزد ہونے کا امکان نہیں ہوگا؟ لازم سی بات ہے اس میں بھی کوئی نہ کوئی کمی کوتاہی ہوگی جو کہ گزرتے وقت کے ساتھ ظاہر ہوجائے گی۔ تو کیا دوسرا رشتہ بھی ختم؟ اور اگر دوسرے رشتے کو ختم کر کے تیسرا یا چوتھا رشتہ قائم کیا جائے تو اس میں بھی غلطی کے امکانات ہیں۔ پھر آخر کیا کیا جاۓ؟ تجربات ہوں گے تو کب تک؟ کہیں نہ کہیں تو رکنا ہوگا۔ یوں ایک وقت آتا ہے کہ انسان مجبوراً خود کو حالات کے آگے بے بس اور لاچار پاتا ہے تب مرد ہو یا عورت انھیں حالات سے سمجھوتا کرنا ہی پڑتا ہے۔ اپنے دل کے خلاف جانا ہی پڑتا ہے۔ اور مجبوراً خود کو ایک غیرمعمولی تھپڑ کے آگے surrender کرنا پڑتا ہے۔ لیکن تب تک وہ بہت کچھ کہہ  چکا ہوتا ہے۔

ایک کامیاب شادی شدہ زندگی کے سلسلے میں ساتھی کی خوبیوں کو دیکھنا پڑتا ہے۔ جبکہ کوتاہیوں کو یا تو برداشت کے خانے میں ڈالنا پڑتا ہے یا تو پھر انھیں یک طرفہ طور پر نظرانداز کرنا پڑتا ہے۔ پس اگر کسی نے تلقین کرنی ہے تو اسی بات کی تلقین ہونی چاہیے۔
یہ دنیا ٹکراؤ اور اختلافات کی دنیا ہے۔ ناموافق حالات کی دنیا ہے۔ زندگی کے کسی شبعہ میں بھی یہاں ٹکراؤ، اختلافات اور ناموافقت سے بچنا ممکن نہیں۔ یہاں ٹکراؤ اور اختلافات کے ساتھ ہی جینا پڑتا ہے۔ (خاص کر میاں بیوی کے بندھن کے ضمن میں)۔

سمجھوتہ
سمجھوتہ انسان کو بڑے بڑے نقصانات سے بچاتا ہے۔ تھپڑ تو کیا قتل تک پر سمجھوتے ہوجاتے ہیں۔ فرد کیا بڑی بڑی اقوام حالات کے آگے سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ سمجھوتہ کسی ایک جنس کے لیے نہیں بلکہ دونوں جنسوں کے لیے بے حد ضروری ہے۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ حقیقی زندگی میں دونوں ہی جنس روزمره کی بنیادوں پر ایک دوسرے کے ساتھ سمجھوتہ کرتے رہتے بھی ہیں۔ سمجھوتہ کوئی معیوب چیز نہیں۔ اور نا ہی سمجھوتے کا مطلب کسی فریق کے آگے جھکنا ہے۔ بلکہ سمجھوتے کا مطلب تو فریق ثانی کو اسپیس دینا ہے۔ سمجھوتہ ہی سے زندگی کی گاڑی آگے بڑسکتی ہے۔ تاہم میرے تبصره کے تناظر میں کچھ خواتین یہ کہہ سکتی ہیں کہ اگر مرد کو ایک بار ہاتھ اٹھانے کا موقع دے دیا جاے تو پھر وہ بار بار اس کا تکرار کرتے ہیں۔ بالکل صحیح اس بات کا اندیشہ بھی ہے۔ لیکن فریق ثانی کے بھی کچھ اسی طرح کے تعفظات ہیں خواتین کے بارے میں۔ مرد ہو یا عورت دونوں کو چانس ملنے چاہیے اور ہاں جب پانی سر سے اونچا ہوجاۓ تو پھر آزادی لازمی ہوجاتی ہے۔ پھر انسان کواپنا آخری آپشن استعمال کرلینا چاہیے۔
جناب ہم انسان ہیں جس طرح ایک انسان کے لیے اس کا رب ہمیشہ توبہ کا دروازہ کھلا رکھتا ہے۔ اسی طرح انسانوں کو بھی آپس میں ایک دوسرے کے لیے توبہ کے دروازے کھلے رکھنے چاہیے۔ زیرو ٹالرنس دراصل موت ہے خدا سے بھی اوپر اٹھنے کی گستاخی ہے۔ زیروہ ٹالرنس کے ساتھ زندگی ناممکن ہے۔ شوہر کا بیوی کےلیے اور بیوی کا اپنے شوہر کے لیے ٹالرنس بے حد ضروری ہے۔

لیکن فلم تھپڑ ( Thappad) بنانے والے حضرات دو، تین باتوں پر بضد نظر آتے ہیں۔ اول یہ کہ برداشت اور سمجھوتا ہرگز نہیں ہونا چاہیۓ خاص کر تشدد کے معاملے میں اور دوسری بات یہ کہ عورت ہر حال میں مظلوم ہے یعنی کہ صنف نازک سے غلطی سرزد ہوہی نہیں سکتی۔ (یہ دراصل یہ ایک غلط فہمی ہے۔ غلطی کا امکان ہمیشہ ہی دونوں جانب موجود رہتا ہے۔ ہاں غلطیوں کی نوعیت الگ الگ ہوتی ہے)۔ چلو کچھ دیر کے لیے مان لیتے ہیں کہ برداشت بری چیز ہے۔ لیکن اس کا نعم البدل بھی تو کچھ دو۔ بات پوری بھی تو کرو یوں قصہ ادھورا تو نہ چھوڑو۔ کہ ایک تھپڑ کے لیے ہیروئن کو تو طلاق دلوادی۔ تاہم فلم کے آخر میں بھرے ہوئے پیٹ کے ساتھ ایک باپ کو اپنی حاملہ بیٹی کی تیمارداری کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ بس اتنا ہی ہے؟ کیا کہانی یہیں پر ختم ہوجاتی ہے؟ نہیں نہیں ہرگز نہیں بلکہ یہاں سے تو دراصل اصل کہانی کی شروعات ہوتی ہے۔ کہانی کو تو ابھی بہت طول پکڑنا ہے۔ بہت دور جانا ہے۔ ابھی تو بچے کو پیدا ہونا پھر اس کو بڑا ہونا ہے۔ لڑکی کے ماں باپ ہمیشہ نہیں رہیں گے ایک دن انھیں بھی مرجانا ہے۔ اس مردوں کے  اور مادہ پرست معاشرے میں کہ جہاں ہر چیز مفاد سے جڑی ہے۔ جہاں بھائی بھائی میں بھی ناپ تول اور حساب کتاب ہے۔ ایسے میں یہ لڑکی آخر کیا کرے گی؟ وہ دوسری شادی کرے گی؟ لیکن کیا گارنٹی ہے کہ دوسری شادی بھی تھپڑ فری شادی ہوگی؟ یا پھر وہ کوئی کام کرے گی یا بچے کو دیکھے گی؟۔ یہ بڑے گہرے اور اہم سوالات ہیں۔ اگر وہ کام کا انتخاب کرتی ہے تو بچہ یقیناً ماں کی ممتا سے محروم رہیگا۔ جو کہ ہزار تھپڑوں سے بھی بدتر اور بڑا تھپڑ ہوگا۔ میری ایک ساتھی ہے جو کہ کام کے دوران اپنی چھوٹی بچی کو آیا کے پاس چھوڑ آتی ہے کبھی کبھار جب آیا بچی کو آفس لیکر آتھی ہے تو یقین جانوں اس بچی اور ماں میں تعلق کم بلکہ آیا اور بچی میں تعلق زیادہ نظر آتا ہے۔

طلاق کا نقصان کس کو؟
طلاق کا سب سے زیادہ نقصان اور خمیازہ ماں باپ سے بھی زیادہ اولاد کو بھگتنا پڑھتا ہے۔ اس محرومی کو اولاد ہی سمجھ سکتی ہے اور کوئی نہیں۔ اب کوئی پوچھے کہ اس میں اولاد کا کیا قصور تھا۔ اپنے احساس کو پانے کے لیے زندگی بھر اولاد کو احساس محرومی میں مبتلا رکھنا بھلا کہاں کا انصاف ہے۔ اولاد کو کیوں سزا ملی؟ سوتیلا باپ ہو یا سوتیلی ماں بچوں کے لیے کبھی قابل قبول نہیں ہوتے اور ناہی و کبھی حقیقی ماں باپ کی جگہ لیے سکتے ہیں۔ اور ایک اور بات یہ کہ بغیر ماں کے یا بغیر باپ کا بچہ کبھی مکمل نہیں ہوسکتا۔ (فلم کا موضوع احساس ہے لیکن فلم میں ایک احساس کو پانے کے لیے کئی احساسات کو نظرانداز کردیا گیا۔)

فلم میں کئی مواقعوں پر نادانستہ اور غیر ارادی تھپڑ کی غلطی کی تلافی کی جاسکتی تھی تاہم ایسا نہیں کیا گیا۔ کیوں کہ فلم بنانے والے نے قسم کھا رکھی تھی کہ اختتام ہوگا تو طلاق پر ہی ہوگا۔ تاکہ خواتین کی ہمدردیوں کو سمیٹا جاسکے یا شاید وہ ایک اچھوتی فلم کا credit اپنے نام کروانا چاہ رہے تھے۔ اور فلم میں قصداً ایک نسبتاً مہذب شوہر سے طلاق لی گئی۔ تاکہ پیغام میں مزید شدت لائی جاسکے۔ یہ فلم دراصل احساس کے نام پر خوتین کی نفسیات کے ساتھ کھلواڑ ہے۔
فلم میں ایک اور کردار نوکرانی کا تھا جس کو بلاوجہ اتنی مار پڑوائی جاتی ہے کہ نہ پوچھو۔ مانا کہ عورتوں پر ہاتھ اٹھایا جاتا ہے انھیں پیٹا بھی جاتا ہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہوتا جیساکہ اس فلم میں دکھایا گیا ہے اندھیری رات میں اپنی بیوی کو بیچ سڑک سائیکل سے اتاردینا بات بات پر تھپڑ گالم گلوچ وغیرہ (ایک اور بات وہ یہ کہ مالکن نے تو ایک تھپڑ پر طلاق لے لی مگر نوکرانی کو ہزار تھپڑوں پر بھی سمجھوتا کرنا پڑا (تضاد)۔ جبکہ ہمارے معاشرے میں اصل تشدد کے مسائل سے دوچار نوکرانی کی طرح کی عورتیں ہی ہوتی ہیں۔ جو کہ آبادی کی اکثریت پر مشتمل ہے۔ جبکہ مالکن طرز کی خواتین پڑھی لکھی ہوتی ہیں۔ ان کے پاس طلاق کے بعد اپنے سکیلز کو استعمال کرنے کے اپشن ہوتے ہیں۔ ان کا اتنا مسئلہ نہیں ہوتا۔

عورت پر تشدد میں خواتین کا کردار

ایک اور بات یہ کہ کوئی بھی باشعور شخص ہمارے معاشرے میں اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ اکثر مختلف شکلوں میں عورت کو تکلیف ایک عورت ہی کے ذریعہ پہنچتی ہے۔ گو کہ ہاتھ مرد کا اٹھتا ہے لیکن اس کے پیچھے عورت ہی ہوتی ہے(جیسے کہ ساس بہو یا سوتن وغیرہ) لیکن یہاں پر بھی پردہ داری کی گئی کیونکہ عورت کو مظلوم جو ثابت کرنا تھا (یا عورت کو سینما تک لانا تھا)۔ ایسا نہیں کہ ہمارے یہاں خواتین مسائل کا شکار نہیں۔ خواتین کے مسائل ہیں ۔سنگین مسائل ہیں اور ان مسائل کا اجاگر کیا جانا بھی بے حد ضروری ہے۔ لیکن اس کے لیے مناسب طریقہ کار ہونا چاہیے۔
ہمارے یہاں تعلیم کی کمی کے باعث ہر وہ طریقہ جس میں عورت کا مرد سے ٹکراٶ ہو گا عورت کے لیے مزید پریشانی اور نقصان کاباعث ہوگا۔

اثرات

کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ہمارے معاشرے میں لوگ فلموں سے متاثر نہیں ہوتے لہذا اسطرح کی فلموں کے دیکھنے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ جوکہ دراصل ایک غلط فہمی پر مبنی مفروضہ ہے۔ یا پھر ایک مخصوص متاثرہ سوچ (کہ سب چلتا ہے) کی وجہ سے وہ ایسا کہتے ہیں۔ گیم ہو، ڈرامہ ہو، سوشل میڈیا ہو یا پھر فلم، یہ تمام چیزیں بچوں کی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ان کے باعث روز بروز بچے بڑے سب نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ خودکشیاں کررہے ہیں۔ اور خاص کر ایک محروم معاشرے میں ایسی فلمیں مزید محرومیوں کا سبب بنتی ہیں۔

صحیح اختتام
(آپ کسی کو کیا مشورہ دینگے؟)

فرض کریں کہ اگر کسی کے پڑوس میں تھپڑ یا پھر کوئی اور نزاع میاں بیوی میں ہوجاۓ۔ تو ایسے میں اچھا اور مناسب اقدام یہ ہوگا کہ دونوں کو سمجھایا جاۓ عورت کو کہا جاۓ کہ ہاں زیادتی ہوئی ہے بہت بڑی زیادتی ہوئی ہے۔ بس توڑا سا انتظار کرو دیکھتے ہیں کیا مناسب ہوسکتا ہے جلد بازی نہیں کریں۔ اور ساتھ ہی ساتھ دوسری جانب مرد پھر بھی کام جاری رکھے اور اسے بھی یہ سمجھایا جاۓ کہ بھائی وہ تمھاری بیوی ہے اور بیوی پرہاتھ  اٹھانا کہاں کی مردانگی ہے۔ وہ بھی انسان ہے اسے بھی درد، تکلیف، اور عزت نفس کا احساس ہوتا ہے۔ اسے اس کا حق دو اسے اپنے برابر جانو نا کم نا زیادہ اور اس سے فوراً معافی مانگو۔ یوں دونوں کو قریب لایا جانے کی کوشش ہونی چاہیے۔ ناکہ دونوں کے کان بھرے جاۓ یا کسی ایک فریق سے کہا جاۓ کہ بس اب قیامت آگئی سب ختم فوراً کوئی بڑا فیصلہ لو اور واپسی کے سارے راستے بند ہوچکے ہیں۔ جبکہ عملی زندگی میں ایسا نہیں ہوتا قتل تک ہوجاۓ تب بھی واپسی کا کوئی نہ کوئی راستہ ضرور موجود ہوتا ہے۔ پہلا طریقہ گھر کو بنانے کا ہے جبکہ دوسرا طریقہ گھر کو اجاڑنے کا ہے۔ فلم میکرز کے پاس دونوں اپشن تھے یعنی کہ پہلا آپشن بھی اور دوسرا آپشن بھی۔ لیکن میرے خیال سے انھوں نے دوسرے آپشن کا استعمال اس وجہ سے کیا کہ یہ ایک نئی چیز ہے اور اس سے کراوڈ آسکتا ہے۔ لہذا کراوڈ تو پھر کراوڈ ہے۔ وہ تو مداریوں کے گرد جمع ہوتی ہی ہے۔ اور یہی فلم میکرز کا مقصد تھا۔ جس میں وہ کسی حد تک کامیاب رہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ایک فلم جس نے دس سے بارہ کروڑ کا بزنس کرنا تھا وہ 30 کروڑ کا بزنس کرگئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

اور فلم کا اختتام سلوشن بیسڈ ہونا چاہیے تھا ناکہ ردعمل بیسڈ۔ فلم کے ایک سین میں برسرروزگار اور زندگی کی تمام سہولیات سے آراستہ شرمیلی  قسم کی زندگی گزارنے والی دیا مرزا یہ کہتی ہے کہ ”میں اکیلے ہی خوش ہوں“۔ اب دیکھا جاۓ تو ہمارے معاشرے میں ایسی خواتین کی تعداد کتنی ہے فقط آٹے میں نمک کے برابر( وہ بھی تنہائی کے باعث راتوں کو خواب آور دوائيوں کے باوجود بھی سو نہیں پاتی)۔ معاشرے میں اصل مسئلہ تو نوکرانی طرز خواتین کا ہے ناکہ مالکن طرز خواتین کا۔ لہذا اس میڈل اور لور میڈل کلاس کا حل دو۔ کہ ایک ڈاکٹر یا پڑھی لکھی اور برسرروزگار خاتون شائد طلاق کے بعد اپنا گھر بارتو مینج کر پاے۔ لیکن ایک غریب اور جاہل عورت کے لیے ایسی صورت میں بہت ہی کم آپشن ہوتے ہیں۔ بقول منٹو کے ”ہمارا معاشرہ ایک عورت کو کھوٹا چلانے کی اجازت تو دیتا ہے لیکن ایک ٹھیلا چلانے کی اجازت ہرگز نہیں دیتا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply