کیا وزیرستان میں فوجی آپریشن ہونے جارہا ہے؟(قسط2)۔۔عارف خٹک

میرعلی سے نکل کر ہرمز ہائیر  سکینڈری  سکول کو ڈھونڈنے لگا، جہاں پر گزرے   بچپن کی حسین یادیں  آج بھی  مجھے بے چین کیے رکھتی ہیں۔ میرعالم اسٹیشنری دوکان کو کافی ڈھونڈا، مگر 1996 میں جو میں چھوڑ کر گیا تھا ایسا کچھ بھی نہیں ملا۔ نہ “گلون مسجد” کے  بلند وبالا مینار نظر آئے ،نہ ہی کوئی ایسی نشانی جس کو دیکھ کر میں اپنے  بچپن کی یادیں تازہ کرلیتا۔ پتیسی  اڈہ سے متصل گاؤں عیسوڑی کے حکیم خان کا گھر بہت بھی  تلاش کیا، مگر نہیں ملا۔ المختصر مچی خیل کے گاؤں پر ایک نظر ڈال کر خلیل وزیر کو یاد کیا اور کرام کوٹ کے اس پل کے پاس ضرور رک گیا جہاں 1994 میں دو اقوام (مچی خیل اور خدی) کے بیچ ایک لڑائی چھیڑ گئی تھی۔ بھاری اسلحہ کا بھرپور استعمال کیا گیا۔ میرے کچھ کلاس فیلو مچی خیل وزیر قبیلے سے تعلق رکھتے تھے اور باقی خدی داوڑ قبیلے سے۔ میں ہر روز دعا مانگ رہا ہوتا یا اللہ خیر فرما دونوں طرف اپنے ہی سجن ہیں۔

میں وہ صبح آج بھی نہیں بھول سکتا جب علی الصبح والدہ نے ایک رومال میں کچھ روٹیاں اور ایک دیگ سالن کی دیکر مجھے کہا جاؤ اپنے کلاس فیلوز کو، جو لڑائی میں محصور تھے ،کھانا پہنچا دو۔ کچھ دیر بعد کرام کوٹ سے نیچے ایک چھوٹے سے پل کے اندر مچی خیل وزیر دوستوں کو کھانا کھلا رہا تھا۔ ایک دوست نے کہا یار انور زیب نے بھی کھانا کھایا ہوگا یا نہیں۔ یاد رہے،انور کا تعلق خدی داوڑ قبیلے سے تھا۔ جن کیساتھ مچی خیل وزیر کی لڑائی چل رہی تھی۔

مجھے یاد ہے کہ اس لڑائی میں طیارہ شکن توپوں سے لیکر روسی RPG7 تک آزادانہ استعمال ہورہا تھا۔ افغان جہاد کے ثمرات یہاں پہنچ چکے تھے۔
عیدک جامع مسجد کے بعد ایشا سے بائیں ہاتھ مڑا اور رزمک کے پرپیچ اور دشوار گزار رستوں پر اپنی گاڑی دوڑانی شروع کردی۔ اسد خیل گاؤں پہنچ کر معلوم ہوا کہ شکتوئی کے قریب ایک فوجی قافلے پر حملہ کیا گیا ہے جس میں ایک افسر سمیت پانچ جوان جاں بحق ہوگئے ہیں۔ لہذا ڈامڈیل کے قریب ایک پوسٹ پر میری گاڑی روک دی گئی۔

شمالی وزیرستان میں قبائل کی دوبارہ آبادکاری شروع ہوگئی ہے۔ لوگ اپنے گھروں کو واپس لوٹ رہے ہیں مگر بدقسمتی سے کسی کا گھر بھی صحیح سلامت نہیں ہے لہذا حکومت کی طرف سے قلیل معاوضہ دیا گیا جس کی رسائی مقامی کرپٹ انتظامیہ کیوجہ سے مشکل بنا دی گئی ہے۔ ہمارے پاس دستیاب اطلاعات کے مطابق متاثرین کی رقوم میں سے فی صد کے حساب سے کٹوتی کی گئی ہے۔ جو افسران کی جیبوں میں جارہی ہے۔

وزیرستان میں جس سے بھی ملا ان کا ایک ہی سوال ہے کہ امن کب آئے گا۔ حالات کیسے نارمل ہوں گے؟۔ کیا دوبارہ کسی آپریشن کا جواز بناکر ہمیں بیدخل تو نہیں کیا جائیگا؟۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات فی الحال ابھی کسی کے پاس نہیں۔ ان  غیر یقینی حالات کیوجہ سے لوگ مختلف نفسیاتی امراض کا  شکار ہورہے ہیں۔ لوگوں کی بڑی تعداد بالخصوص  خواتین اور بچوں کی نفسیات پر بہت گہرے اور مہلک اثرات پڑے ہیں۔ کیونکہ انسانی تاریخ کی  اس المناک ہجرت نے جو نقصان دہ نفسیاتی اثرات ان قبائلی خواتین اور بچوں پر چھوڑے ہیں اس کا ازالہ تقریبا ً ناممکن ہے۔ ہر وقت غیر یقینی  کی صورتحال، انجانا خوف، حملے اور اپنے پیاروں کو کھو دینے کا ڈر ان کو وقت سے پہلے مارے جارہا ہے۔ حکومت جہاں انفراسٹرکچر پر توجہ دے رہی ہے  وہاں مقامی طور ان متاثرین کیلئے نفسیاتی علاج معالجہ کی بھی اشد ضرورت ہے۔

لوگوں کے اندر ایک اُبال سا امڈ رہا ہے۔  آبادی کا بڑا حصہ طالبان اور فوج کے مابین لڑائیوں سے پہلے ہی تنگ تھا اوپر سے  غیر یقینی صورتحال نے حالات کو مزید خراب کردیا ہے۔
قبائل کے لوگ مزاجا ً شدت پسند واقع ہوئے ہیں لہذا ان کو مزید ورغلانا یا کسی اور جنگ کیلئے تیار کرنا قطعا ً مشکل نہیں ہوگا۔ قبائلی نوجوانوں کا ایک حصہ جو تعلیم یافتہ، دوسرے علاقوں میں سکونت  پذیر اور بہتر معاشی حالات کا حامل ہے ان کی باتیں مدھم، پُرسوچ اور مستقبل کے لائحہ عمل کیلئے پُرعزم ہیں وہ خود کو مزید جنگوں کیلئے آمادہ نہیں پا رہے ہیں مگر دوسرا طبقہ جن کا معاشی استحصال یا انسانی حقوق کا استحصال کیا گیا ہے وہ ریاست سے ابھی بھی ناراض ہیں۔ ایسے حالات میں حقوق کے نام پر بنی تحریک مزید ان کے جذبات کو برانگیختہ کررہی  ہیں۔ قبائلی نوجوانوں کو مزید تقویت کا باعث  غیر ملکی سرحد پار قائم ریڈیو اسٹیشنز خصوصا ً وائس آف امریکہ اور مشعال ریڈیو کے وہ مخصوص پروگرام ہیں جن میں ان کے باغی جذبات کو مزید ابھارا جارہا ہے۔

اس وقت شمالی وزیرستان سے بدتر حالات جنوبی وزیرستان کے ہیں۔ شمالی وزیرستان میں تعلیمی معیار اور شرح تعلیم جنوبی وزیرستان سے زیادہ بلند ہے۔ مگر یہاں سے منتخب ایم این اے جو مقامی طور پر پی ٹی ایم کا ایک اہم رہنماء بھی ہیں۔ وہ پراکسی لڑائی کیلئے پڑھے لکھے طبقے کو بھی ٹارگٹ کررہا ہے۔
مجھے ذاتی طور پر یہ ہر گز نہیں لگتا کہ پاک فوج نے پچھلی  بیس سالہ لڑائی سے کوئی اہم سبق سیکھا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”کیا وزیرستان میں فوجی آپریشن ہونے جارہا ہے؟(قسط2)۔۔عارف خٹک

Leave a Reply to ممتاز بنگش Cancel reply