میرے پہاڑوں سے کہو اور اُونچا رہیں۔محمد خان داؤد

جب کوئی کنفیوشس کا جاننے والا جان سے جاتا تو کنفیوشس پہلے جو الفاظ ادا کرتے وہ یہ ہوتے
”سب کو اپنے اصل کی طرف لوٹ جانا ہے!“
پھر پوچھتا کہ وہ عمل میں کیسا تھا؟
اگر جواب ملتا اچھا نہ تھا
تو کنفیوشس کہتا
”ہاں وہ سچ میں مر گیا!“
اگر اسے جواب ملتا وہ عمل میں بہت اچھا تھا تو کنفیوشس کہتا
”وہ کبھی نہیں مرے گا!یہ وقت اسے فنا نہیں کر سکتا یہ وقت اس کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑا رہے گا اور وہ ہر زمانے، ہر لمحے،ہر دن کے ساتھ زندہ رہے گا!“
یہی بات بی بی فاطمہ نے فرمائی ہے کہ
”انسان عمل ہے، عمل کو موت نہیں آتی، موت تو جسم کو آتی ہے!“
اور اگر میر حاصل بزنجو اب نہیں رہا اور وہ بلوچستان کے بلند وبالا پہاڑوں کے سائے میں بھا ری پتھروں کے نیچے ایک قبر بن گئے ہیں تو ایسا بھی نہیں ہے
ایک سندھی شعر ہے کہ
”مٹی میں تہ آھن مُئا پوربا
اس ھن کھے کیو آھے دل میں دفن!“
”مٹی میں تو مردہ دفن ہو تے ہیں،ہم نے تو اسے دل میں دفن کردیا ہے!“
وہ دل میں ہی دفن کرنے جیسا انسان تھا
؎بلوچ عوام نہ صحیح
پر بلوچ پہاڑوں نے اسے اپنے دل میں دفن کر دیا ہے۔

بلوچستان کے پہاڑوں پہ وہ بارِ گراں کی مانند نہیں پر بلوچستان کے پہاڑوں پہ وہ آنسو کی مانند ہے.
جس پر بلوچستان کے پہاڑ ہمیشہ سایہ فگن رہیں گے اور اس آنسو کو کبھی خشک نہ ہونے دیں گے
اگر آنسو ہی خشک ہو گیا تو پہاڑوں کے پتھروں کو گیلا کون کریگا۔

ہم مانتے ہیں کہ وہ ریاست کے ساتھ رہ کر بلوچستان کے لیے اتنا نہ کر سکا جتنا اسے کرنا چاہیے تھا پر ہم یہ بھی تو دیکھیں کہ ریاست میں بیٹھے بلوچ کتنے ہیں جو بلوچستان کے لیے بات کرتے ہیں اور علی الاعلان بات کرتے ہیں وہ جیسا تیسا ہی صحیح،اسے جتنی اجازت ہوتی وہ اس سے بھی بڑھ کر ان صاحب ِ اقتدار لوگوں سے کہتا کہ
”میرے بلوچستان کو دیکھو!“
میر حاصل خان بزنجو کا کردار ہو بہ ہو جمال ابڑو کی کہانی”پیرانی“ میں اس ماں کا تھا
جو ماں یہ چاہتی تھی کہ پیرانی جیسی بھی ہو،پیاسی ہو۔ننگی ہو، بھوکی ہو، بیمار ہو پر اس ماں کے ساتھ رہے جو ماں پیرانی کی ہے اور پیرانی ماں کی!

پر جب سندھی جواری باپ پیرانی کو اپنے کاندھے پہ بٹھائے یہ دلاسہ دے کر لے جا رہا ہوتا ہے کہ اسے بہت سا کھانا ملے گا اور اس کا پیٹ بھر جائیگا تو معصوم پیرانی باپ کے کاندھوں پہ بیٹھے بیٹھے یہ کہتی ہے کہ ابا اماں بھی بھوکی ہے
پھر پیرانی بک جا تی ہے
اور پیرانی کی ماں اپنی پیرانی کے لیے بہت رو تی ہے
یہی کیفیت میر حاصل بزنجو کی ہوا کرتی تھی وہ بھی یہی چاہتا تھا کہ جب ظالم قوتیں بلوچوں کو کچھ دے نہیں سکتے تو یہ تو کیا جا سکتا ہے کہ جیسا بھی بلوچستان ہے۔بیمار،ننگا،بھوکا،پیاسا پر یہ رہے تو بلوچوں کے پاس!
وہ کوئی سردار نہ تھا۔ وہ کوئی پیر نہ تھا۔ وہ عوامی انسان تھا۔ وہ ایسا انسان تھا جو کسی غریب ہاری کے ساتھ زمیں پہ بھی بیٹھ سکتا تھا اس لیے میر حاصل کی جڑیں اس عوام میں تھی جس عوام کی جڑیں دھرتی میں ہو تی ہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ سیا ست میں منافقت در آئی ہے۔اور جھوٹ کے بغیر سیا ست نہیں چل پا تی،پر میر حاصل بزنجو ایسے نہ تھے وہ گندے گڑھے میں نیل کنول جیسے تھے۔ وہ سچے واعدے جیسے تھے۔

وہ سیا ست میں کوئلے کا کاروبار کرتے پر پھر بھی اپنا دامن کالک سے بچاتے رہے۔ اگر وہ اپنے راستے سے ہٹ جا تے تو سینٹ کا چئیرمین کیا وہ ملک کا صدر یا وزیر اعظم بھی بن جاتے پر اسے معلوم تھا کہ جو راستہ مختصر ہوتا ہے وہ راستہ عوام سے ہوکر نہیں جاتا۔ اس لیے میر حاصل بزنجو سینٹ کے الیکشن میں سبقی کو تو برداشت کر گئے پر وہ راستہ اختیار نہیں کیا جو راستہ عوام کا گلا کاٹ کر تیار کیا جاتا ہے جس راستے پر چل کر کوئی کسی کا نورِ نظر تو ہو سکتا ہے پر وہ عوام کا اعتبار کھو بیٹھتا ہے اس لیے میر حاصل بزنجو ہمیشہ اس راستے پر چلتے رہے جو راستہ عوام کا راستہ تھا۔ جو راستہ محنت کشوں کا راستہ تھا۔ جو راستہ مزدوروں کا راستہ تھا۔

جس راستے پر سُرخ پرچم لہراتے تھے۔میر حاصل بزنجو نے اس سُرخ پرچم کو کبھی اپنے ہاتھوں سے نہیں چھوڑا۔ وہ صحیح معنیٰ میں عوامی انسان تھے۔ میر حاصل بزنجو کا دل عوام کے ساتھ دھڑکتا اور اسے یہ بھی اندازہ تھا کہ وہ اکیلا ہے۔اور یہاں پر جس سیا ست کا راج ہے ہم جانتے ہیں۔
وہ گندی سیاست میں اعتبار جیسے شخص تھے
اس میں ایسی بات تھی کہ سیاست کی بھی اس کے سامنے حیا سے آنکھیں جھک جاتی تھیں
وہ عوام راج چاہتے تھے۔

وہ آخری دن تک سیاست میں عوام کی بھر پور شراکتی داری چاہتے تھے وہ یہی چاہتے تھے کہ عوام ہی سیاسی پارٹیوں کی پہچان اور طاقت ہو تی ہے وہ اس بات کو جانتے تھے کہ جس سیاست میں عوام کا دخل نہیں ہوگا اس سیاست میں وہ آجا تے ہیں جو بس آڈر دیتے ہیں اور،،باپ،،جیسی تخیلق کر جا تے ہیں اس لیے میر بزنجو عوام کو وہاں لے جانا چاہتے تھے جہاں فیصلہ سازی کی جا تی ہے اور وہ فیصلے،عوام سے،عوام کے لیے ہوتے ہیں اگر ان فیصلوں میں عوام نہیں ہوتا تو وی فیصلے کسی گالی،کسی کالے قانون کی طرح عوام پر مسلط کیے جا تے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آج اگر میرحاصل بزنجو کو تلاش کرنا ہے تو عوام میں کرو
وہ عوام میں مل کر عوام ہوگیا ہے
وہ مرا نہیں
مرتے جسم ہیں
وہ عمل تھا
وہ کنفیوشس کی یہ بات تھا کہ
”وہ کبھی نہیں مرے گا!یہ وقت اسے فنا نہیں کر سکتا یہ وقت اس کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑا رہے گا اور وہ ہر زمانے، ہر لمحے،ہر دن کے ساتھ زندہ رہے گا!“
میر حاصل بزنجو بلوچستان کے پہاڑوں میں تر آنسو کی طرح موجود ہے
اور بلوچستان کے پہاڑوں سے کہہ رہا ہے کہ
”میرے پہاڑوں سے کہو!اور اُونچا رہیں!“

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply