جسے اللہ رکھے (قسط4)۔۔عزیزاللہ خان

مجھے نہ دن کا چین تھا نہ رات کا سکون بس ایک ہی دھن تھی کہ خود پر قاتلانہ حملہ کرنے والے ملزمان کو ٹریس کرنا اور اُنہیں اس کی سزا دینا؟ اس سلسلہ میں معراج خان Asi میری بھرپور مدد کر رہا تھا کیونکہ میری تعیناتی کو زیادہ عرصہ نہ ہوا تھا اور خاص طور پر دریائی علاقہ کے رہائشی افراد کے بارے میں بھی مجھے زیادہ معلومات نہ تھیں- میں روزانہ ہتھیجی چوکی جا کر بیٹھ جاتا میری بھرپور کوشش تھی کہ فائرنگ کرنے والے ملزمان ڈھونڈے جاسکیں- 2005 میں موبائل فون کا کال ریکارڈ ڈیٹا (CDR) لینے کے لیے سرکاری طور پر کوئی سہولت نہ تھی چند پولیس افسران جدید خطوط پر تفتیش کے لیے کال ڈیٹیل پرائیویٹ طور پر حاصل کرتے تھے اور اچھی خاصی رقم اپنی جیب سے ادا کرنی پڑتی تھی یہ اور بات ہے کہ یہ رقم بعد میں کسی مدعی یا ملزم مقدمہ کی جیب سے نکلتی تھی؟جنوبی پنجاب میں ملک کرامت ڈی ایس پی،انسپکٹر شمس خان خاص طور پر CDR اور IMEI پر تفتیش کرنے میں مشہور تھے اور انہوں نے اپنے اپنے اپنے اضلاع میں بُہت کام کیا- اُن دنوں جرائم پیشہ افراد دوران ڈکیٹی موبائل فون بھی ساتھ لے جایا کرتے تھے وہ جب بھی اس میں اپنی موبائل سم استعمال کرتے یا موبائل فون کہیں بیچتے تھے تو فوری ٹریس ہو جاتے تھے- آہستہ آہستہ جرائم پیشہ افراد کو جب معلوم ہوا کہ وہ موبائل فون استعمال کرنے سے پکڑے جاتے ہیں اب موبائل فون ساتھ نہیں لے جاتے اگر بُہت قیمتی سیٹ ہو تو اُس کا کیمرہ بنا کر استعمال کرتے ہیں-میں نے انفارمیشن ٹیکنالوجی سے تفتیش 1997 میں شروع کی جب مشتاق سُکھیرا صاحب رحیم یار خان میں ایس ایس پی تھے اور میری پوسٹنگ CIA میں تھی-مُلتان میں خانہ فرہنگ ایران پر لشکر جھنگوئی کے ملک اسحاق اور اُس کے ساتھوں نے حملہ کیا تھا جس سے خانہ فرہنگ کا ایرانی منتظم مارا گیا تھا- ملک اسحاق نے نیو ملتان کے رہائشی علاقہ میں ایک گھر کرایہ پر لیا ہوا تھا جب ملتان پولیس نے اس گھر پر ریڈ کیا تو وہاں سے ملک اسحاق کی ایک ڈائیری بھی ملی جس میں اُن افراد کے موبائل فون نمبرز اور لائن نمبرز تھے جن سے ملک اسحاق کا رابطہ رہتا تھا- مشتاق سُکھیرا ایس ایس پی صاحب نے وہ ڈائری میرے حوالے کی تاکہ میں ان تمام فون نمبرز رکھنے والوں کے بارے میں معلومات اکٹھی کر سکوں- اس ڈائری میں جتنے بھی نمبرز تھے سب کو میں نے انٹروگیٹ کیا پھر تو ایسی عادت پڑی کہ ریٹائرمنٹ تک CDR ,IMEI اور جیو فنسگ کے ساتھ تفتیش کرتا رہا-
مجھے میرے ایک ماتحت نے بتایا کہ ایس ایچ او تھانہ صدر احمد پور شرقیہ گجر صاحب CDR لے کر دیتے ہیں میں نے ڈی ایس پی میں عرفان اُللہ صاحب کو کہا کہ آپ ایس ایچ او احمد پور شرقیہ کو کہیں کہ وہ مجھے مشکوک نمبر کی کال ڈیٹیل لے دیے ڈی ایس پی صاحب نے انسپکٹر گجر کو کہا تو اُس نے نے اپنے تعلقات استعمال کرتے ہوئے مجھے مشکوک نمبر جس سے محرر چوکی کو کال کی گئی تھی کی CDR منگوا کر دی مگر اُس نمبر سے صرف ایک نمبر پر کال ہوئی تھی اور وہ چوکی ہتھیجی کا تھا میں نے انسپکٹر گجر کو اس سم کا IMEI ٹریس کرنے کا کہا دو دن بعد IMEI نمبر ٹریس ہو کر آگیا اس موبائل فون میں چار اور سمیں استعمال موئی تھیں جن میں سے ایک نمبر حمید عرف حمیدہ فوجی کا تھا- حمیدہ فوجی کی قومیت نائچ تھی اور وہ چنی گوٹھ کے ساتھ واقع موضع نائچاں کا رہائشی تھا تھانہ اوچشریف و دیگر تھانوں میں اس کے خلاف ڈکیٹی اور قتل کے مقدمات درج تھے حمیدہ فوجی کے دیگر نمبروں سے شفیع ماتم ،علو ڈاہڑ ، بلو حسام ، چھلو حسام ،عابد ڈاہڑ ، منیر عرف مُنی ککس ملزمان کے نمبر ٹریس ہو گئے- ان کے نمبروں کی CDRS بھی میں نے منگوا لیں ان تمام نمبروں کی لوکیش بیٹ لنگاہ کی تھیں جہاں مجھ پر فائرنگ کی گئی تھی- اب یہ بات تو واضح ہو چکی تھی کہ چھلو حسام نے اپنے چچا ڈڈلی حسام کی پولیس مقابلہ میں ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے مجھ سمیت دوسرے پولیس ملازمین پر قاتلانہ حملہ کیا تھا اور اس حملہ میں ڈڈلی حسام اور چھلو کے قریبی دوست شفیع ماتم اور حمیدہ فوجی وغیرہ شامل تھے-
میں نے اس بارے میں اپنے ڈی پی او کپٹن عارف نواز صاحب اور ڈی ایس پی میں عرفان صاحب کو آگاہ کیا جنہوں نے مجھے محنت سے ملزمان ٹریس کرنے پر شاباش دی اور اب ان تمام ملزمان کو گرفتار کرنے کا حُکم دیا -ان ملزمان کو گرفتار کرنا میری عزت کا مسلہ بھی تھا کیونکہ اگر یہ ملزمان گرفتار نہ ہو تے تو اس کچہ کے تھانہ میں میں ایس ایچ او شپ نہیں کر سکتا تھا-
ملک مامر یار وارن اُن دنوں ایم این اے تھے اور ملک خالد وارن ایم پی اے تھے ان دونوں کے والد صاحبان کے میرے والد سردار امان اُللہ خان صاحب سے بُہت اچھے ذاتی مراسم تھے اُسی وجہ سے یہ دونوں میری عزت کرتے تھے-ملک عامر وارن اور خالد وارن ایک دوسرے کے سیاسی حریف بھی تھے جس کو کچہ کے رہائشی لوگ اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرتے تھے اور اپنے ناجائز کام کروانے کے لیے اکثر تھانہ پر سفارشیں کرواتے تھے- میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ دریائی علاقہ کےاکثر جوانوں کا پیشہ چوری چکاری تھا دریائی علاقہ کے یہ لوگ انتہائی ناقابل اعتبار تھے-
مجھے ایک کام کے سلسلہ میں اسلام آباد جانے کا اتفاق ہوا وہاں میری ملاقات ملک عامر وارن سے پارلیمنٹ لاجز میں ہوئی ذاتی تعلق کی وجہ سے اُنہوں نے مجھے کھانا پر بلایا ہوا تھا ابھی ہم کھانا کھا رہے تھے کہ اسی دوران ملک عامر وارن کے موبائل نمبر پر ایک کال آئی یہ کال چھلو حسام کی تھی جو اُنہیں بتا رہا تھا کہ پولیس پر فائرنگ اُس نے نہیں کی وہ بےگناہ ہے-میں نے ملک عامر وارن کو کہا کہ اگر یہ بے گناہ ہے تو پیش ہو جائے میں اسے کُچھ نہیں کہوں گا مگر چھلو حسام اس بات پر راضی نہ ہوا- چھلو حسام سے میں نے بھی بات کی اور اُسے پیش ہونے کا کہا مگر وہ نہ مانا اور اس بات پر بضد رہا کہ میں نے آپ پر فائرنگ نہیں کی یہ کام ڈڈلی حسام کے دوستوں کا ہے- میں اس بات پر حیران تھا کہ میری پارلیمنٹ لاجز میں موجودگی کی اطلاع چھلو حسام کو کیسے ہو گئی تھی؟؟
دو دن اسلام آباد گزارنے کے بعد میں واپس اپنی جائے تعیناتی پر نوشہرہ جدید آگیا سی دوران معراج خان Asi سے بھی میرا رابطہ رہا اور ان ملزمان کو گرفتار کرنے کی حکمت عملی بناتے رہے-مگر پتہ نہیں تمام ملزمان کو آسمان نگل گیا یا زمین کہیں سے کوئی اطلاع نہیں مل رہی تھی ؟
کیونکہ حمیدہ فوجی اور شفیع ماتم کا تعلق علی پور اور راجن پور کے کچہ کے جرائم پیشہ افراد سے بھی تھا وہ اکثر واردات کے بعد ان علاقوں میں روپوش ہو جاتے تھے جہاں بوسن گینگ کا راج تھا-دریائی علاقہ کے رہاشی کبھی بھی ان جرائم پیشہ افراد کی مخبری نہیں کرتے تھے کیونکہ اُنہیں معلوم ہوتا تھا کہ پولیس کو مخبری کے بعد اُن کا زندہ بچنا مشکل ہوتا تھا-
میں نے اپنے مخبران ہر جگہ بھجوائے ہوئے تھے اور ان کو باقاعدگی سے خرچہ بھی دے رہا تھا معراج خان Asi ,چاچا عباس ،حمید اور ناصر اور تھانہ کے سب ملازمین ملزمان کی گرفتاری کے لیے اپنی جان توڑ کوشش کر رہے تھے ایک دن مخبر نے اطلاع دی کہ چھلو حسام کل صُبح علی پور سے ملتان آنے والی بس پر آئے گا اس اطلاع پر میں نے اپنے ڈی پی او اور ڈی ای پی صاحبان سے ملتان جانے کی اجازت لی اور اپنے ملازمین کے ساتھ ایک پرائیویٹ کار اور سرکاری گاڑی پر الصُبح ملتان روانہ ہو گیا کیونکہ چھلو حسام کو ملازمین میں سے کسی نے نہیں دیکھا ہوا تھا اس لیے اُس کی شناخت کے لیے ایک مخبر بھی ہمراہ تھا-شام تک ملتان بس اڈا پر بیٹھے رہے علی پور سے آنے والی ہر بس سے اُترنے والے مسافروں کو چیک کرتے رہے مگر چھلو حسام نہ آیا ؟شاید اُس تک اطلاع پُنہچ گئی تھی کہ پولیس نے اُس کی گرفتاری کے لیے ناکہ لگایا ہوا ہے-ہم سب مایوس ہو کر شام کو واپس ہو گئے-میں اللہ پاک سے دعا کر رہا تھا کہ اللہ میری عزت رکھ لے اور ملزمان کو گرفتار کروا دے ورنہ میرا نوشہرہ تو کیا پولیس میں ملازمت کرنا دشوار ہو جانا تھا-

مگر لگتا تھا اللہ پاک نے میرے دعا سُن لی دو دن بعد میں شام کو تھانہ پر موجود تھا کہ معراج Asi ایک زمیندار کے ساتھ میرے دفتر میں داخل ہو معراج خان کے چہرہ پر میں خوشی کے آثار بخوبی دیکھ سکتا تھا-ڈی پی او کپٹن عارف نواز صاحب نے معراج خان کا تبادلہ تھانہ نوشہرہ کرتے ہوئے چوکی ہتھیجی پر لیاقت سب انسپیکٹر کو تعینات کر دیا تھا-معراج خان کی صرف ایک ڈیوٹی تھی کہ وہ فائرنگ کرنے والے ملزمان چھلوحسام اور اُس کے ساتھیوں کو گرفتار کرے-اپنے دفتر میں بیٹھے کُچھ سائلین کو میں نے فوری طور پررخصت کیا اور معراج کی طرف متوجہ ہوا معراج بولا سر چھلو کل رات سے اپنے گھر آیا ہوا ہے مگر آج شام کے بعد اُس نے پھر کہیں چلے جانا ہے ہمیں تمام راستوں کی ناکہ بندی کرنی پڑے گئی تاکہ اُسے گرفتار کیا جا سکے میں نے معراج خان کو فوری طور پر چوکی ہتھیجی روانہ کر دیا تھوڑی دیر بعد میں بھی اپنی سرکاری گاڑی پر ہتھیجی کی طرف روانہ ہوگیا لیاقت سب انسپکٹر کو میں نے پہلے ہی پابند کروا دیا تھا کہ وہ اپنے چوکی کے ملازمین کے ساتھ موجود رہے چھلو حسام کی موجودگی کا صرف مجھے اور معراج کو معلوم تھا-چوکی پُہنچ کر میں نے لیاقت سب انسپکٹر ،معراج اور زمیندار سے دوبارہ میٹنگ کی اور ناکہ بندی کرنے کے لیے جگہ کا انتخاب کیا-چھلو حسام اور ڈڈلی حسام کا گھر موضع ودھنور میں تھا جلال پور کی طرف جانے کے لیے اُسے جھانگڑہ والے پتن سے گزرنا پڑنا تھا جبکہ احمد پور شرقیہ یا بہاولہور جانے کے لیے ہتھیجی سے گزرنا پڑتا تھا فیصلہ یہ کیا گیا کہ ہتیجی سے گزرنے والے راستہ پر معراج خان اپنے ملازمین کے ساتھ ناکہ بندی کرے گا جبکہ جھانگڑہ سے گزرنے والے راستہ پر میں نے لیاقت سب انسپکٹر کے ساتھ ناکہ بندی کرنی تھی رات ہو گئی تھی پروگرام کے مطابق معراج خان اپنے ساتھ ملازمین کو لے کر ودھنور سے ہتھیجی آنے والے راستہ پر ناکہ بندی کے لیے روانہ ہو گیا میں اور لیاقت SI بھی ملازمین کے ساتھ بھنڈہ وئنس کی طرف روانہ ہو گئے ہم نے جھانگڑہ سے گزر کر ایک موڑ میں ناکہ بندی کر لی ہمراہی ملازمین کو بریف کیا کہ اُنہوں نے جب تک میں نہ کہوں فائرنگ نہیں کرنی ہے میں نے اکثر دیکھا ہے کہ افسران دوران ریڈ یا ناکہ بندی اپنے ماتحت ہمراہی ملازمین کو بریفنگ نہیں دیتے جس سے ملازمین کا جانی نقصان ہوتا ہے- معراج Asi کے لیے بھی یہی ہدایت تھیں کہ موقع پر جا کر ملازمین کو بریف کردے کہ کس کو گرفتار کرنا ہے

Advertisements
julia rana solicitors

جھانگڑہ جلال روڈ پر رات کو ٹریفک برائے نام ہوتی تھی اور چوکی ہتھیجی کی سرکاری گاڑی روڈ پر گشت کرتی تھی جس دن ملازمین گشت میں کوتاہی کرتے تھے ڈکیٹی کی واردات ضرور ہو جاتی تھی اور واردات زیادہ تر گیدڑی جھبیل کرتے تھےرات کافی ہو چُکی تھی میں اور میرے ساتھی ملازمین پوزیشن لیے بیٹھے تھے اچانک جھانگڑہ روڈ پر دور سے کسی روشنی نظر آئی تھوڑی دیر بعد موٹر سائیکل کی آواز بھی آنا شروع ہو گئی دور سے آنے والی آواز سے لگ رہا تھا کہ یہ ایک سے زیادہ موٹر سائیکل ہو سکتے ہیں میں نے معراج سے وائرلس ہر سچویشن دریافت کی جس نے اوکے بتائی اس کا مطلب تھا کہ چھلو حسام وہاں سے ابھی تک نہ گزرا تھا-زمیندار نے ہمیں یہ بھی بتایا تھا کہ چھلو کے پاس کلاشنکوف ہے اور اُس ساتھ کُچھ اور جرائم پیشہ افراد بھی ہو سکتے ہیں میں نے تمام ملازمین کو ہوشیار ہونے کا کہا اور اُنہیں بتایا کہ ملزمان کی طرف سے فائرنگ پر پہلے خود کو بچانا ہے اور بعد میں کس طرح اوٹ لے کر فائرنگ کرنی ہے-کُچھ دن قبل یہ ملزمان ہمارے مارنے کے لیے چُھپ کر بیٹھے تھے اور آج ہماری باری تھی جوں جوں روشنی اور موٹرسائیکلوں کی آوازیں قریب آرہی تھیں میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا-
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply