• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ایک دوسرے کے جذبات مجروح نہ کرنا ہی فساد کی جڑ ہے۔۔دانیال گھلو

ایک دوسرے کے جذبات مجروح نہ کرنا ہی فساد کی جڑ ہے۔۔دانیال گھلو

فرض کیجئے کہ آپکے دو قریبی دوستوں کے مابین کوئی اختلاف پیدا ہو جائے. اور یہ اختلاف بڑھتے بڑھتے مُستقل عداوت میں تبدیل ہو جائے. گُزرے وقتوں میں ہم نوالہ و ہم پیالہ رہنے والے دوست ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہ ہوں اور ایک دوسرے کے خلاف ہمیشہ سازشوں میں لگے رہیں. دشنام طرازی و الزام تراشی معمول بن جائے اور ایک کا دُکھ دوسرے کے دل کو طمانیت سے بھر دے تو ایسے میں آپ کیا کریں گے ؟

ایک باشعور انسان کے طور پر آپ اُن دونوں میں مصالحت کی راہ ہموار کریں گے. آپ کی پہلی کوشش ہو گی کہ اُن دونوں احباب کو سمجھا بجھا کر ایک دوسرے سے گفتگو پر آمادہ کیا جائے تاکہ آپسی اختلافات پر بات چیت ہو اور کوئی بیچ کی راہ نِکل سکے. اِس عمل کے دو ہی نتائج نکلیں گے اور دونوں ہی مثبت ہوں گے. اوّل یہ کہ وہ دونوں دوست آپسی اختلافات پر دِل کھول کر بات چیت کریں گے اور دِلوں کی بھڑاس مکمل طور پر نکالنے کے بعد ضرور کوئی ایسا فارمولہ نکال لیں گے کہ جس پر دوستی قائم رہ سکے. اور اگر ایسا نہیں ہو گا تو دوسری صورت میں مُستقل لا تعلقی ہو جائے گی اور یوں وہ دونوں ایک دوسرے پر الزام تراشیوں اور دشنام طرازی سے اجتناب برتیں گے سو دِلوں میں فاصلے بڑھنے کے بجائے ایک مقام پر رُک جائیں گے.

اب ذرا دوسری طرح سوچیے کہ اگر آپ اُن دونوں دوستوں کے مابین مکالمے کے بجائے یہ کہہ کر دونوں کو اُنکی روش پر عمل پیرا رہنے دیں گے کہ بھیاء کہیں اختلاف پر بات کی تو کسی کی دل آزاری نہ ہو جائے تو پھر یہ دُشمنی گُزرتے وقت کے ساتھ بڑھتی ہی چلی جائے گی اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ جب وہ دونوں دوست ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جائیں گے، اور اُنکی یہ نفرتیں معاشرے میں مستقل بگاڑ کا سبب بنیں گی.

مُسلمانوں کے فرقوں میں اصل فساد کی جڑ گوروں کا دیا یہی کسی کی دل آزاری نہ کرنے والا نظریہ ہے. اِس نظریے نے نہ صرف مکالمے کی روایت کا قتلِ عام کیا ہے بلکہ توہین کی آگ بھی اِسی فلسفے نے لگائی ہے. آپ نے ضرور پڑھا ہو گا کہ انگریزوں کی لائی اِس کمبخت جدیدیت سے قبل شعیہ سُنی اپنے عقائد پر کاربند رہتے ہوئے بھی امن سے رہتے تھے. مباحثے ہوا کرتے تھے، مکالمے عام تھے،ایک دوسرے سے سوال و جواب ہوتے تھے. مناظروں کی صورت میں ایک دوسرے کے عقائد سمجھنے اور اجتماعی اصلاح کے مواقع پیدا ہوتے تھے. معاشرے میں برداشت عام تھی.. عقیدتی اور نظریاتی تضادات کے باوجود ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی گنجائش نکالی جاتی تھی.

اور پھر ہمیں “انگریز” ہو گیا.. ایک دوسرے کی دل آزاری نہ کرنے کی نئی انسانی اقدار ہم نیم وحشیوں میں پیدا ہوئی اور ہم نے مناظروں اور مباحثوں سے توبہ کر لی. ہمارے اندر کے چھوٹے چھوٹے اختلافات جو کبھی بہت معمولی ہوا کرتے تھے اور بات چیت کی صورت میں فوری حل ہو جایا کرتے تھے اب تضادات کی عفریت بن گئے۔

فرقوں میں یہ تضادات بڑھتے ہی گئے اور آج ہم اِس مقام پر کھڑے ہیں کہ جہاں ہمارے آگے کنواں ہے تو پیچھے کھائی. ہمیں یہ بات سمجھ ہی نہیں آتی کہ اختلافات میں کوئی بیچ کی راہ بھی ہوا کرتی ہے جو امن کی منزل کی جانب اشارہ کرتی ہے. امن سے میری مُراد ہرگز یہ نہیں کہ کوئی مخصوص اقلیتی فرقہ اپنے عقیدتی اور نظریاتی اختلافات بُھلا کر کسی دوسرے طاقتور اکثریتی فرقے کی خوشنودی حاصل کر لے. امن سے مُراد یہ ہے کہ اِس بات کو سمجھا جائے کہ اِن فرقوں کی بُنیاد ہی یہی نظریاتی تضادات ہیں. اسلام کے معاملے میں اللہ کی واحدانیت اور رسول ص کے ختم النبین ہونے کے تمام فرقے قائل ہیں.. آگے تضاد جنم لیتا ہے شخصیتوں پر جو کہ اصل اختلاف ہے. اب اگر کوئی بزورشمشیر یہ اختلافات ختم کروانے کی کوشش کرے اور چاہے کہ ایک فرقے کی مقدس شخصیات دوسرے کے لئے بھی مقدس ہو جائیں تو یہ اُن فرقوں کی اساس ختم کرنے کے مترادف ہو گا اور ایسا ہونا نا ممکن ہے.

Advertisements
julia rana solicitors

اِسی لئے میں سمجھتا ہوں کہ شخصیات پر تاریخی حوالوں سے کُھلم کُھلا بات ہونی چاہیے اور توہین توہین کے نعروں سے تاریخ کو دبانے کے بجائے علمی مباحثے کئے جائیں اور ایک دوسرے کے نظریات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تاکہ جو جہاں غلط ہے وہاں اُسکی اصلاح ہو جائے اور جو جہاں صیحح ہے وہ وہاں سرخرو قرار پائے اور ہمیں اِس کافر کافر والے تماشے سے مستقل نجات مِلے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply