صدارتی نظام اور موجودہ کرپٹ حکومت۔۔محمداسلم خان کھچی

آج کل پاکستان میں صدرارتی نظام کی گونج سنائی دے رہی کہ  ہر درد دل رکھنے والا پاکستانی یہ امید لگائے بیٹھا ہے کہ جلد ہی ملک میں ایک نیا سیٹ اپ تشکیل دیا جائے گا اور پاکستان ترقی کی راہ پہ گامزن ہو جائے گا۔
میری نظر میں ایسا ناممکنات میں سے ہے پاکستان میں صدارتی نظام ایک ہی صورت میں آسکتا ہے کہ اگر پاکستان میں فرانس جیسا کوئی انقلاب آجائے اور کوئی جتھہ بزور طاقت حکومت پہ قبضہ کر لے۔
صدارتی نظام کے ناممکنات ہونے کے پیچھے کچھ عوامل ہیں جنہیں آپ کے گوش گزار کرنا بہت ضروری ہیں تاکہ آپ کو اندازہ ہو سکے کہ صدارتی نظام میں حائل رکاوٹیں کتنی خوفناک ہیں
پاکستان اس وقت کرپشن کی منڈی بن چکا ہے۔ چپڑاسی سے لیکر بیوروکریٹ تک کرپشن کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔جس کا جتنا بس چلتا ہے وہ اس وقت پوری قوت سے اس ملک میں بچے کچھے رس کو نچوڑ رہ از قا ہے۔ رجسٹرار آفس میں چلے جائیں, جونیئر کلرک سے لیکر رجسڑار تک سب کے فکس بھاؤ ہیں۔ ہسپتال میں میڈیکل ایگزامینیشن کا ریٹ مقرر ہے۔ سکیل 1 سے لیکر سکیل 22 تک ٹرانسفر پوسٹنگ کے ریٹ مقرر ہیں۔ سابقہ جنرلز کی کرپشن کی ہوش ربا داستانیں منظر عام پہ آ رہی ہیں۔ نیب کی کھوکھلی کارروائیوں سے سیاستدانوں کو بھی اندازہ ہو گیا ہے کہ موجودہ سسٹم انکا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اس لئے وہ بے خوف و خطر اپنی الگ منڈی سجائے بیٹھے ہیں۔ ایم پی ایز سے لیکر سینیٹر تک کرپشن کی وادی میں اپنے اپنے تھڑے سجائے بیٹھے ہیں۔ ترقیاتی کاموں میں کمیشن کا ریٹ 12 پرسنٹ سے 20 تک پہنچ چکا ہے بلکہ اب ایم پی ایز اور ایم این ایز گرانٹ کے پیسوں کو اپنا حق سمجھ بیٹھے ہیں عوامی نمائندوں کو حکومت سے جاری کردہ گرانٹ ان محکموں کو ٹرانسفر کی جاتی ہے جو کمیشن دینے میں سب سے زیادہ بولی لگائے۔
یہاں میں سابقہ حکومت کو ضرور کریڈٹ دینا چاہوں گا کہ انکے دور حکومت میں کرپشن کا یہ حال نہیں تھا۔کمیشن ضرور تھا لیکن اتنی اندھیر نگری نہیں تھی۔ ٹرانسفر پوسٹنگ رشوت دے کر نہیں ہوتی تھی ۔ اب تو یہ حال ہے کہ جونیئر کلرک سے لیکر سیکرٹری تک ریٹ لسٹ موجود ہے۔ آپ بغیر کسی سے ڈیل کیے مطلوبہ رقم فراہم کر کے من پسند پوسٹنگ حاصل کر سکتے ہیں۔ رشوت نہ لینے آفیسر کو طرح طرح کے ڈراوے اور ترغیبات دے کے رشوت لینے پہ آمادہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اگر سچ کہوں تو موجودہ حکومت میں ملکی تاریخ کی بدترین کرپشن ہو رہی ہے اور شاید اسکی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی بھی معمولی سا ایگزیکٹو کروڑ دو کروڑ میں پوسٹنگ خریدے گا تو وہ دو کروڑ کا پچاس کروڑ بنانے کیلئے کرپشن کی آخری حدوں کو چھو لے گا۔کرپشن ختم کرنے والے ادارے کرپشن کا گڑھ بن چکے ہیں۔ اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ میں پوسٹنگ کرائی ہی اس لئے جاتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ مال بنایا جا سکے۔ حالت یہ ہو گئی ہے کہ لوگ کمیشن یا کرپشن کو اپنا حق سمجھنے لگے ہیں۔ کچھ صاحبان نے تو کمیشن کو حلال کرنے کیلئے باقاعدہ فتوے لے رکھے ہیں اور اس سارے بدبودار ماحول کا سہرہ موجودہ حکومت کے سر جاتا ہے۔
کرپشن فری پاکستان کا نعرہ دفن ہو چکا ہے۔ تبدیلی نام کا چورن اپنے انجام کی طرف گامزن ہے۔ عمران خان کے دائیں بائیں وہی مافیاز بیٹھے ہیں جن کے ہاتھ عوام کی خون پسینے کی کمائی سے رنگے ہیں۔بڑے مگرمچھ کبھی چینی بحران پیدا کر کے راتوں رات اربوں روپے سمیٹ لیتے ہیں تو کبھی آٹا بحران پیدا کر کے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان ایک ایماندار انسان ہے لیکن صرف ایک آدمی کی ایمانداری سے کسی سفید پوش یا غریب آدمی کا پیٹ نہیں بھرتا۔غریب آدمی کو روٹی چاہیئے, دوائی چاہیئے, روزگار چاہیئے۔ لاکھوں پڑھے لکھے نوجوان لڑکوں نے ٹیکسیاں خریدیں اور مختلف کمپنیوں کے ساتھ منسلک ہو گئے۔ بہترین روزگار تھا لیکن موجودہ حکومت کی ناقص پالیسیوں سے ٹیکسیاں چھپا کے گھروں میں دبکے بیٹھے ہیں کیونکہ بینکس کی ٹیمیں انکی ٹیکسیاں ہتھیانے کے چکر میں ہیں۔ سابقہ حکومتوں میں کرپشن کے وسائل جو چند ہاتھوں میں تھے۔ اب کروڑوں لوگوں کی دسترس میں ہیں ۔لوگ دیدہ دلیری سے رشوت لیتے ہیں اور ساتھ مذاق اڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ تبدیلی آئی ہے
میرا ماننا یہ ہے کہ اس کرپشن کے زہر کو زیریں سطح تک پہنچانے کا ذمہ دار عمران خان ہے۔ اسکی ناقص ٹیم سلیکشن نے ہی اس ملک کو اخلاقی طور پہ دیوالیہ کر دیا ہے ۔اگر عمران خان ایماندار انسان ہے تو اس بات سے تپتی دھوپ میں ہل چلانے والے کسان کو کیا لینا دینا۔ اسے تو بس سستی کھاد چاہیئے۔ فصل کیلئے پانی چاہیئے اور اپنی زرعی پیداوار کیلئے اچھا ریٹ چاہیئے تاکہ وہ گھر میں بیٹھی جوان بیٹی کے ہاتھ پیلے کر سکے ۔
آپ یقین کیجئے۔۔۔ اس دور میں میں نے بڑے بڑے خود دار لوگوں کو کورونا کی آڑ میں چہرہ چھپا کے بھیک مانگتے دیکھا ہے۔
عمران خان بطور وزیراعظم مکمل طور پہ ناکام ہو چکا ہے اسے خود بھی اس بات کا احساس ہو چکا ہے۔ چند دن پہلے کے انٹرویو میں عمران خان کی باڈی لینگویج سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مایوس ہو چکا ہے۔ اسکے منہ سے نکلے الفاظ کہ بیوروکریسی سائن کرنے سے ڈر رہی ہے۔ سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ اس نے تسلیم کر لیا ہے کہ دو سال گزرنے کے باوجود بھی ابھی تک وہ کوئی ایسی ٹیم تشکیل نہیں دے سکا جو اس ملک کے زخموں پہ مرھم رکھ سکے ۔ عمران خان کے ارد گرد بیٹھے مافیاز کا شکنجہ اتنا سخت ہے کہ کوشش کے باوجود بھی عمران خان ان کے چنگل سے نہیں نکل پا رہا۔ دوسرے لفظوں میں آپ یوں کہ لیں کہ موجودہ حکومت کرپشن کے لحاظ سے 77 سالہ ملکی تاریخ کی بدترین حکومت ہے۔
اب لوگ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ملک میں صدارتی نظام رائج ہونے والا ہے۔ سپریم کورٹ سے ریفرنڈم کی اجازت لیکر ملک میں ریفرنڈم کرایا جائے گا اور ملک میں نیا نظام رائج کر دیا جائے گا۔ بس خواب ہی دیکھا جا سکتا ہے کیونکہ عمران خان کے ارد گرد بیٹھنے والے لوگ ھی ریفرنڈم کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ اگر آپ ذرا غور سے انکے مقدس چہروں پہ نظر ڈالیں تو آپ کو مشرف حکومت, پیپلز پارٹی حکومت اور نواز حکومت میں یہی لوگ نظر آئیں گے۔
اٹھارویں ترمیم کی بات ہوتی ہے تو اچانک ایک شور مچ جاتا ہے کہ اگر اسے چھیڑا گیا تو پاکستان ٹوٹ جائے گا۔
اٹھارویں ترمیم کیا ہے ؟ اور اسے پاس کرانے والے لوگ کون ہیں
یہی مقدس چہرے ہیں جو پہلے بھی تھے آج بھی ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے۔ اگر آپ نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو یہی چہرے ہمیشہ نظر آئیں گے۔ یہ موجودہ نظام کو کبھی تبدیل نہیں ہونے دیں گے کیونکہ موجودہ نظام انکو سوٹ کرتا ہے۔
جب اٹھارویں ترمیم پاس ہوئی تو اس میں ایک سپیشل شق ( آرٹیکل 48 ۔۔۔6 ) کے مطابق کہ ملک میں کسی بھی مسئلے پہ کوئی ریفرنڈم کرانے کیلئے پارلیمنٹ کے جائنٹ سیشن سے دو تہائی اکثریت سے اپروول لینی پڑے گی ۔ریفرنڈم کے معاملے میں سپریم کوٹ بھی کوئی ڈائریکشن دینے کا اختیار نہیں رکھتی۔
یہ باقائدہ اٹھارویں ترمیم کا پاس شدہ آئین ہے۔
اب آپ خود سوچئے کہ موجودہ حکومت یا آنے والی کسی بھی حکومت کیلئے ایسا کچھ ممکن ہے۔ ؟
اسٹیبلیشمنٹ اس لئے مداخلت نہیں کرے گی کیونکہ انکے مفادات پہ ضرب لگتی ہے۔۔
سیاستدان کوئی پاگل تھوڑی ہیں جو اپنے پاؤں پہ کلہاڑی ماریں گے۔
عمران خان کے ہاتھ پاؤں باندھ کے بھوکے بھیڑیوں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے ۔ وہ چاہے بھی تو کچھ نہیں کر سکتا ۔
یہاں پہ چند باتوں کا کریڈٹ عمران خان کو ضرور جاتا ہے۔ 51 سال بعد ڈیم کی تعمیر شروع کر دی۔ ایم ایل ون شروع ہونے جا رہا ہے۔ راوی سٹی اگر شروع ہو جاتا ہے تو یہ ملکی تاریخ میں سنگ میل ثابت ہو گا۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ زیرو ہوا ہے۔ زر مبادلہ کے ذخائر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پہ ہیں۔ 10 ارب 40 کروڑ ڈالر قرضہ واپس کیا ہے۔ دو سال میں سٹیٹ بینک سے کوئی قرضہ نہیں لیا گیا۔ 6 پرسنٹ ایکسپورٹ بڑھی ہیں۔ امپورٹ کم ہوئی ہے ۔ رینٹل پاور پلانٹس کے ساتھ نئے معاہدے ہوئے ہیں جو کہ موجودہ حکومت کی بہترین کاوش ہے۔
لیکن اس کاوش کے ثمرات کئی دہائیوں کے بعد نچلی سطح تک پہنچیں گے۔ شاید اس وقت آپ اور میں بھی نہیں ہوں گے۔ ملک کی 70 فیصد عوام کو بنیادی ضرورتوں کی فراہمی اولین ترجیح ہونے چاہیئے تھی لیکن عمران خان, فواد چوہدری, پرویز الہی, خسرو بختیار, زبیدہ جلال جیسے لوگوں کو کیا پتہ کہ بھوک سے پیٹ میں درد کی کیا فیلنگز ہوتی ہیں۔ جب بیٹا آدھا  پاؤ دودھ کیلئے بلک رہا ہوتا ہے تو ماں کا کلیجہ کیسے چھلنی ہوتا ہے۔ ایک باپ نے تین سالہ بچی کو کلہاڑی کے وار سے قتل کر دیا کہ وہ بار بار دودھ پینے کی ضد کر رہی تھی۔ ایک باپ سے بچوں کی بھوک برداشت نہیں ہوئی اور اس نے تین معصوموں کو زہر دے دیا اور خود بھی آخری سفر پہ روانہ ہو گیا۔
ذمہ دار کون۔؟
اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مر گیا تو ذمہ دار 22 لاکھ مربع میل کا حکمران ہے۔
کیا کریں عمران خان کی ایمانداری کا۔ کسی شیشے کے مرتبان میں سجا کے رکھ دیں اور صبح شام نمسکار کر کے آرتی اتارا کریں۔
دو سال گزر گئے،اب رزلٹ چاہیئے، روٹی چاہیئے، پانی چاہیئے۔ دوائی چاہیئے، جہاں سے مرضی لائیں،ہمیں فراہم کریں، ہم ہر قسم کا کام کرنے کو تیار ہیں۔ ہم سڑکوں کی صفائی کیلئے تیار ہیں۔ گٹر صاف کرنے کو تیار ہیں۔ بس زندہ رھنے کیلئے روٹی چاہیئے۔
دس ارب درختوں سے آکسیجن تو ضرور ملے گی لیکن پیٹ نہیں بھرے گا۔ بچہ سکول میں کتابیں لیکے جانا چاہتا ہے درختوں کے پتے نہیں۔
چند اچھے کام ضرور کیے ہیں لیکن
ملکی ترقی کی شرح بہت تیزی سے نیچے آئی ہے۔ جی ڈی پی مائنس پہ چلی گئی ہے جو شاید اگلے دس سالوں میں پلس کی شکل دیکھ سکے۔ سرکولیشن آف لوکل کرنسی مکمل طور پہ ڈیڈ ہے۔ ملکی ترقی کا حامل ریئل اسٹیٹ سیکٹر مکمل طور پہ تباہ ہو چکا ہے۔ڈی ایچ اے جیسے ادارے تباہی کی طرف گامزن ہیں لوگوں کے اربوں روپے کی انویسٹمنٹ کروڑوں میں تبدیل ہو چکی ہے۔ کروڑوں لوگ بیروزگاری کا ایندھن بن چکے ہیں۔ ٹی وی پہ سب اچھا کی رپورٹ کا بھاشن دینے والے منسٹرز جھوٹ بول کے جھوٹی امیدیں دلا رہے ہیں۔
بر ملا کہنا پڑ رہا ہے کہ موجودہ حکومت کرپشن اور ملکی ترقی کے لحاظ سے ملکی تاریخ کی بدترین حکومت ہے لیکن میں اس ناکامی کا ذمہ دار عمران خان کو ہی ٹھہراؤں گا کیونکہ وہ اس ملک کا پرائم منسٹر ہے اور ساتھ ساتھ موجودہ گلے سڑے نظام اشرافیہ کو بھی ٹھہراؤں گا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس پورے سسٹم میں عمران خان واحد آدمی ہے جو اس گلے سڑے بدبودار نظام سے لڑنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ وہ لڑ نہیں پائے گا بلکہ ہو سکتا ہے اس لڑائی میں پاکستان ڈوب جائے ۔
یہاں میاں محمد نواز شریف کو ضرور کریڈٹ دوں گا کہ اس نے اسی کرپٹ سسٹم میں رہتے ہوئے بھی ملک کو ترقی کی جانب گامزن کیا۔ کرپشن ضرور ہوئی لیکن اس لیول پہ نہیں ہوئی جو آج ہے
آخر میں ایک بات عرض کرتا ہوں کہ اگر یہی تبدیلی ہے تو سابقہ حکومت کرپشن کے باوجود موجودہ حکومت سے لاکھ درجہ بہتر تھی۔
اس لئے بھول جائیے صدارتی نظام کو۔
بس خود کو بدلیے۔اگر ملک بچانا ہے، بچوں کا مستقبل بچانا ہے تو پہلے خود کو بدلنا پڑے گا اور آنے والے وقت میں بہترین انتخاب ہی ملکی سلامتی کا ضامن ہے۔
اللہ رب العالمین آپ سب کو اپنی حفاظت میں رکھے۔
آمین!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply