مقام ابوطالب ع (حصہ اوّل)۔۔محمد کمیل اسدی

مکمل حوالہ جات کے ساتھ 2018 میں تین اقساط لکھیں تھیں۔لیکن ان کا ذکر ہی ایسا ہے کہ جب بھی لکھو ،جس وقت بھی لکھو، ہر بار ایک نئے انداز سے شان بیان کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔
حضرت علی ع کے والدین پر کفر کا الزام کیوں لگایا جاتا ہے بہت سے حقائق ہیں۔ اور یہ پروپیگنڈا کیا بھی اس لئے جاتا ہے کہ کسی طرح علی ابن ابی طالب کی شان گھٹائی جائے۔ بالکل ابتدائے اسلام سے آغاز کرتے ہیں۔
حضور پاک حضرت ابوطالب سے فرماتے ہیں کہ چچا جان قریش کو دعوت دیں میں انہیں اللہ کا پیغام دینا چاہتا ہوں۔ حضرت ابوطالب اہل قریش کو دعوت دیتے ہیں جب سب (تقریباً  40 افراد) جمع ہوگئے تو ابولہب نے کہا کہ اے ابوطالب آپ نے ہماری توہین کردی ایک بھیڑ کی بھنی ہوئی ران سے اتنے افراد کی دعوت جبکہ آپ جانتے ہیں کہ ہم  میں سے ہر ایک ، ایک ڈیڑھ بھیڑ عموماً  کھا جاتا ہے۔ 
حضرت ابو طالب نے فرمایا کہ اس بھیڑ کی ران کو میرے بھتیجے محمد نے مَس کیا ہے اس کی برکت سے یہی کافی ہوگی۔ سب ڈٹ کر کھاتے ہیں لیکن وہ بھنی ہوئی ران ختم نہیں ہوتی۔ طعام کے بعد حضور پاک اپنی بات کرنے کے لئے جیسے ہی کھڑے ہوئے۔ اچانک ابولہب کھڑا ہوا اور کہا کہ اے قریش والو سب نے کھانا تو کھا لیا محمد ص کی (نعوذ اباللہ)جادوگری دیکھ لی ،اب چلتے ہیں اور سب بات سنے بغیر وہاں سے چلے جاتے ہیں۔
یہ سب دیکھ کر حضور پاک کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ حضرت ابوطالب نےتڑپ کر کہا کہ بھتیجے کیا ہوا۔ اگر آپ کہیں تو دوسری بار دعوت رکھ لی جائے۔
آپ نے فرمایا کہ یہ میری بات سنے بغیر چلے گئے۔
آپ کی رضامندی پر دوسری مرتبہ پھر دعوت رکھی گئی۔ دوسری مرتبہ بھی ابولہب نے وہی کیا جو پہلی بار کیا تھا۔
اب تیسری بار دعوت رکھی گئی۔ حضرت ابوطالب فرماتے ہیں کہ پہلے میں مہمانوں کے انتظامات میں باہر موجود ہوتا تھا آج میں اندر خود بیٹھوں گا اور دیکھوں گا کہ کون بات نہیں سنتا۔
طعام کے بعد جیسے ہی حضور پاک کھڑے ہوئے ابولہب ایک بار پھر کھڑا ہوا اور چاہتا ہی تھا کہ کوئی بات کرے کہ حضرت ابوطالب کھڑے ہوئے اور ابولہب کو گریبان سے پکڑ کر نیچے بٹھا دیا اور کہا کہ آج محمد ص کی بات سنے بغیر میں دیکھتا ہوں کون جاتا ہے۔میں سوچ رہا تھا کہ بوڑھے ابوطالب نے جوان اور طاقتور ابولہب کو اس طاقت سے بیٹھنے پر کیسے مجبور کردیا ،تو پھر ذہن میں آیا کہ جس کا بیٹا ایک ہاتھ  سے درِ خیبر اکھاڑ سکتا ہو وہ تو علی کے بھی والد گرامی ہیں۔
حضور پاک فرماتے ہیں۔
:یا بَنِی عَبْدِالْمُطَّلِبِ إِنِّی وَاللَّهِ مَا أَعْلَمُ شَابّاً فِی الْعَرَبِ جَاءَ قَوْمَهُ بِأَفْضَلَ مِمَّا جِئْتُکُمْ بِهِ إِنِّی قَدْ جِئْتُکُمْ بِخَیرِ الدُّنْیا وَالْآخِرَةِ وَقَدْ أَمَرَنِی اللَّهُ تَعَالَى أَنْ أَدْعُوَکُمْ اِلَیهِ فَأَیکُمْ یؤَازِرُنِی عَلَى هَذا الْأَمْرِ عَلَى أَنْ یکُونَ أَخِی وَخَلِیفَتِی فِیکُم۔
اے فرزندان عبدالمطلب! خدا کی قسم! میں پورے عرب میں ایسا کوئی جوان نہیں جانتا جو مجھ سے بہتر کوئی چیز اپنی قوم کے لئے لایا ہو،میں تمہارے لئے دنیا اور آخرت کی بھلائی لایا ہوں، خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہیں اس کی طرف بلاؤں، پس کون ہے جو اس کام میں میری پشت پناہی کرے، جو میرا بھائی، اور تمہارے درمیان میرا خلیفہ اور جانشین ہو؟
کسی نے جواب نہیں دیا؛ امیرالمؤمنین (ع) جو سب سے چھوٹے تھے، اٹھے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں آپ کی پشت پناہی کروں گا۔ چنانچہ رسول اللہ (ص) نے علی (ع) کے شانے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا:
“إِنَّ هَذَا أَخِی وَ وَصِیی وَ خَلِیفَتِی فِیکُمْ فَاسْمَعُوا لَهُ وَأَطِیعُوا۔
یہ (علی )ع میرے بھائی، میرے وصی اور تمہارے درمیان میرے جانشین اور خلیفہ ہیں، پس ان کی بات سنو اور ان کی اطاعت کرو۔
سب لوگ وہاں سے ہنستے ہوئے اٹھے اور کہنے لگے: ابو طالب تم کو تمہارے بيٹے کی  اطاعت و پيروی  کا حکم ديا گيا ہے۔
ان سب میں نمایاں ابولہب تھا جس نے ابوطالب سے کہا کہ ابوطالب مبارک ہو اب بھتیجے کی اطاعت کے بعد بیٹے کی بھی اطاعت کرنا۔
سب رخصت ہو رہے تھے اور حضرت علی جن کا سن 11 یا 13 برس تھا فرما رہے تھے یا رسول اللہ اگرچہ کہ میں بچہ ہوں میری ٹانگیں پتلی ہیں لیکن میں آپ کا دفاع کروں گا۔ میں آپ کے دشمنوں کی پسلیاں توڑ دوں گا۔ آپ پر آنچ نہیں آنے دوں گا۔
مشرک تھے کافر تھے لیکن دو باتیں بہت خاص کرگئے ایک تو یہ واضح کرگئے کہ ابوطالب بھی اسی دین پر ہیں جس پر نبی اکرم ہیں اور دوسرا اسی وقت سے جان گئے کہ بعد میں بھی ہمیں کچھ ملنے والا نہیں جانشینی بھی ابھی سے طے ہوگئی ہے۔
ایک دن ابو جہل کوہ صفا کے قریب رسول اللہؐ کے سامنے آيا اور نازیبا الفاظ کہہ کر آپؐ کی شان میں اہانت کی اور آپ کو پتھر مارا کہ آپ کی پیشانی زخمی ہوگئی۔ حضرت حمزہ ع اسی روز شیر کے شکار سے واپس آئے، حضور کی پیشانی پر زخم دیکھا اور معاملہ دریافت کیا۔ بعض روایات کے مطابق حضور نے یا ایک کنیز نے بتایا کہ ابوجہل نے گستاخی کی ہے۔
حضرت حمزہ غضبناک ہو کر گھر سے نکلے اور ابو جہل کو جا لیا جو مسجد الحرام میں لوگوں کے درمیان بیٹھا تھا اور اپنی کمان اس کے سر پر دے ماری اور ابو جہل کا سرزخمی کرنے کے علاوہ کمان سے اس کی پسلیاں بھی توڑ دیں۔
واپس ہوئے اور کہا، بھتیجے میں نے ابوجہل کو سبق سکھا دیا ہے۔ حضور پاک نے فرمایا کہ مجھے آپ کی مدد کی ضرورت نہیں جب تک کہ آپ دین اسلام قبول نہیں فرماتے۔
اللہ اللہ کہاں حضرت حمزہ کی مدد ٹھکرا رہے ہیں کہ اگر وہ دین اسلام پر نہیں آتے تو ایسی مدد قبول نہیں اور کہاں قدم قدم پر حضرت ابوطالب مدد فرماتے ہیں اور ایک بار بھی نہیں کہا کہ چچا ایمان لے آئیے ورنہ آپ کی مدد قبول نہیں۔
اب ذرا اور آگے بڑھتے ہیں۔ ایک دن حضور پاک گھر تشریف لاتے ہیں توحضرت ابوطالب نے دیکھا کہ حضور لہولہان ہیں دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ مکہ کے بچوں نے پتھر مار مار کر زخمی کیا ہے۔ انتہائی غضب میں حضرت ابوطالب نے رسول اکرم کو کلائی سے پکڑا اور کہا میرے ساتھ چلیے۔
ابو سفیان کے گھر پر دستک دی اس وقت مکے کے کافی سردار بھی وہاں موجود تھے سب باہر آگئے۔ ابوطالب نے فرمایا کہ اے ابوسفیان اہل مکہ کے بچوں نے میرے محمد کو پتھروں سے زخمی کردیا۔ ابوسفیان نے کہا کہ ابوطالب بچوں کا معاملہ ہے۔
حضرت ابوطالب فرماتے ہیں کہ دیکھ لو بچے پھر ہمارے گھر میں بھی ہیں۔
ابوطالب کے جانے کے بعد سب سرداران چہ مگوئیاں کرتے ہیں کہ اس کے گھر میں تو ایک ہی بچہ علی ہے وہ بھلا اکیلا ہمارے بچوں کا کیا بگاڑ لے گا۔
اگلے روز جب سرور کائنات گھر سے نکلنے لگے تو حضرت ابوطالب نے علی کو اشارہ کیا اور حضرت علی بھی حضور پاک کے ہمراہ چل دئیے۔
ایک جگہ پہنچے تو بچوں نے پتھروں سے حملہ کردیا۔ حضرت علی آگے بڑھے سرور کائنات کی طرف آتے ہوئے پتھر اپنے سینے پر کھائے۔ پھر کسی بچے کو دیوار پر پٹخا کسی بچے کی کلائی توڑی کسی بچے کی ٹانگ توڑی کسی بچے کے  منہ پر نقش و نگاربنائے۔ حیدر کرار نے سب کو راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور کردیا۔ دفاع پیغمبر کی ابتدا ہے اور حضرت علی کا تعارف یہاں سے شروع ہورہا ہے۔
تاریخ نے اپنے آپ کو دہرایا اور ابو سفیان مکہ کے بہت سے سرداروں کے ساتھ ابوطالب کے در پر کھڑے تھے اور کہہ رہے تھے کہ علی نے ہمارے بچوں کی پٹائی کی ہے۔
اور حضرت ابوطالب وہی جملہ واپس لوٹا رہے ہیں کہ اے ابوسفیان یہ بچوں کا معاملہ ہے۔
عربوں میں رواج تھا کہ رشتہ ہمیشہ مرد ،عورت کی طرف بھیجتا تھا۔ لیکن واحد رشتہ حضرت اور بی بی خدیجہ کا ہے کہ جس میں رشتہ بی بی خدیجہ الکبریٰ کی طرف سے بھیجا گیا۔ اس میں بھی حکمت خداوندی تھی ورنہ آج اعتراض کیا جاتا کہ نعوذبااللہ رسول اللہ نے دولت کی وجہ سے حضرت خدیجہ سےشادی کی تھی۔
بی بی خدیجہ الکبریٰ کی کنیز حضرت ابوطالب کے پاس اپنا مدعا بیان کرتی ہیں آپ فرماتے ہیں کہ میرا بھتیجا  اس کا فیصلہ خود کرے گا۔ کنیز حضور پاک کے پاس جاتی ہیں اوررشتہ کی بابت بات چیت کرتی ہیں۔
حضور پاک فرماتے ہیں کہ میرے چچا ابوطالب اس کا فیصلہ کریں گے۔ یعنی وہ نبی جووحی کے بغیر بولتے ہی  نہیں، وہ رشتہ کی رضامندی کے لئے ابوطالب کی رائے کو مقدم کررہے ہیں یعنی دوسرے الفاظ میں یہ رضائے الہیٰ تھی کہ رسول اللہ اپنے چچا سے بات کریں۔
امہات المومنین میں سے واحد بی بی خدیجہ الکبریٰ ہیں جن کو رخصت کرنے کے لئے حضور پاک ان کے گھر خود تشریف لے گئے باقی سب ازواج مطہرات کو یہ شرف حاصل  نہیں ہوا۔
نکاح کے وقت حضرت ابوطالب خطبہ کا آغاز کرتے ہیں کہ الحمداللہ۔
شادی کے وقت رسول اللہ کی عمر 25 سال اور قرآن 40 سال کی عمر میں نازل ہونا شروع ہوا۔ اس مردِمومن کے بارے میں کیا کہیں گے کہ وحی سے قبل قرآن کی آیت پڑھ رہا ہے؟
کیا حضرت ابوطالب لوح َآسمانی سے دیکھ رہے تھے یا خدا کو یہ جملہ ایسا پسند آیا کہ قرآن میں شامل کردیا؟
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَنَا مِنْ زَرْعِ إِبْرَاهِيمَ وَ ذُرِّيَّةِ إِسْمَاعِيلَ وَ جَعَلَ لَنَا بَيْتاً مَحْجُوجاً وَ حَرَماً آمِناً يُجْبي إِلَيْهِ ثَمَراتُ كُلِّ شَيْ ءٍ وَ جَعَلَنَا الْحُكَّامَ عَلَي النَّاسِ فِي بَلَدِنَا الَّذِي نَحْنُ فِيهِ ثُمَّ إِنَ ابْنَ أَخِي مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَا يُوزَنُ بِرَجُلٍ مِنْ قُرَيْشٍ إِلَّا رَجَحَ وَ لَا يُقَاسُ بِأَحَدٍ مِنْهُمْ إِلَّا عَظُمَ عَنْهُ وَ إِنْ كَانَ فِي الْمَالِ قَلَّ فَإِنَّ الْمَالَ رِزْقٌ حَائِلٌ وَ ظِلٌّ زَائِلٌ وَ لَهُ فِي خَدِيجَةَ رَغْبَةٌ وَ لَهَا فِيهِ رَغْبَةٌ وَ الصَّدَاقُ مَا سَأَلْتُمْ عَاجِلُهُ وَ آجِلُهُ مِنْ مَالِي وَ لَهُ خَطَرٌ عَظِيمٌ وَ شَأْنٌ رَفِيعٌ وَ لِسَانٌ شَافِعٌ جَسِيمٌ فَزَوَّجَهُ وَ دَخَلَ بِهَا مِنَ الْغَدِ فَأَوَّلُ مَا حَمَلَتْ وَلَدَتْ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُحَمَّدٍ (صلي الله عليه وآله وسلم) .
تمام تعریف اس خدا کے لیے ہے کہ جس نے ہمیں نسل ابراہیم اور اسماعیل کی اولاد سے قرار دیا ہے اور ہمارے لیے ایسے گھر (خانہ کعبہ) کو قرار دیا ہے کہ جس کے گرد لوگ طواف کرتے ہیں اور وہ پر امن حرم قرار دیا ہے کہ تمام دنیا سے نعمتیں اسکی طرف لائی جاتی ہیں اور ہمیں اپنے دیار میں لوگوں پر حاکم قرار دیا ہے، پھر کہا: یہ میرا بھتیجا محمّد ابن عبد اللَّه ابن عبد المطّلب ہے، اسکا قریش میں جس کسی سے بھی موازنہ کیا جائے گا تو یہ اس سے برتر و بالا تر ہو گا اور اسکو کسی سے بھی قیاس نہیں کیا جا سکتا، اگرچہ مال کے لحاظ سے اسکا ہاتھ خالی ہے (لیکن یہ کوئی عیب نہیں ہے) کیونکہ مال و ثروت ایک نا پائیدار چیز اور جلدی سے گزر جانے والا سایہ ہے اور اب وہ خدیجہ کو اور خدیجہ اسکو چاہتی ہے اور حق مہر جو بھی ہو گا، وہ میرے ذمہ پر ہو گا، چاہے وہ مہر نقد ہو یا ذمہ پر ہو، وہ (رسول اللہ) بلند مقام اور اسکی شخصیت عظیم اور اسکی زبان نرم اور تاثیر گزار ہے۔
جاری ہے۔

Facebook Comments

محمد کمیل اسدی
پروفیشن کے لحاظ سے انجنیئر اور ٹیلی کام فیلڈ سے وابستہ ہوں . کچھ لکھنے لکھانے کا شغف تھا اور امید ھے مکالمہ کے پلیٹ فارم پر یہ کوشش جاری رہے گی۔ انشا ء اللہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply