اب کے برس ساون میں رو کر۔۔گوتم حیات

اب کے برس ساون میں رو کر دل کے زخم چھپائیں گے

عامر سلیم کا یہ گیت ہم دونوں کو ہی پسند ہے، ہر بارش میں اس گیت کو سننا ہم اپنا پیدائشی حق سمجھتے تھے، اس شام بھی گھر پر یہ گیت چل رہا تھا، چائے کی گرم پیالیوں کو ہاتھوں میں پکڑے ہوئے وہ مجھے کہہ رہا تھا:
بارش مجھے ہمیشہ ہی اپنی طرف کھینچتی ہے، چاہے اردگرد کے حالات ابتر ہی کیوں نہ ہوں یا میرے اپنے شب و روز برے ہی کیوں نہ بسر ہو رہے ہوں لیکن بارش کی پہلی پھوار سے سب کچھ اتنی جلدی بدل جاتا ہے کہ مجھے خود پر حیرانی ہونے لگتی ہے۔۔۔ زندگی کی تلخیاں، دکھ، اداسیاں بارش کے برستے پانی میں کہیں زائل ہو جاتی ہیں۔ اس سمے میری اوّلین خواہش یہی ہوتی ہے کہ کاش یہ سلسلہ جاری و ساری رہے اور میری زندگی ان ہی خوشگوار، آسمان سے برستے بارش کے لمحات میں اپنے اختتام کو پہنچے۔

آخر تم آسمان سے برستی بارش کے لمحات میں ہی کیوں ختم ہونا چاہتے ہو؟
اس لیے کہ مجھے ایک یہی موسم پسند ہے، زندگی کے انگنت لمحات میں سے مجھے صرف بارش کے لمحات ہی پسند ہیں۔۔۔ بارش چاہے دورافتادہ پہاڑوں میں برس رہی  ہو یا اس گنجان آباد آلودہ شہر میں، میری خواہش یہی ہو گی کہ بس ان ہی لمحات میں میری شریانوں میں بہنے والا خون منجمد ہو جائے اور میں موت سے ہمکنار ہو جاؤں۔۔۔
گزشتہ ماہ جولائی کے پہلے ہفتے میں جب میں کشمیر روانہ ہو رہا تھا تو شہر میں بہت تیز بارش ہوئی تھی، گلیوں اور سڑکوں پر فوراً ہی پانی جمع ہو گیا تھا، فلائیٹ کا وقت تو شام ساڈھے چھ بجے کا تھا لیکن ہم بہت پہلے ہی ٹرمینل پہنچ گئے تھے، جلدی پہنچنے کی ایک وجہ بارش ہی تھی، ہمیں ڈر تھا کہ بارش کی وجہ سے اگر ٹریفک جام میں پھنس گئے تو فلائیٹ سے محروم نہ ہو جائیں۔۔۔ ہم گھر سے نکلے تو ہر طرف پانی ہی پانی تھا، بارش کا صاف پانی گلیوں اور چوراہوں میں گر کر گندا ہو چکا تھا، گٹر ابل پڑے تھے اور ان سے نکلتا ہوا پانی بےفکری سے ادھر، اُدھر بہہ رہا تھا، راہگیر بمشکل راستہ بناتے ہوئے جا رہے تھے، مجبوراً وہ اسی گندے پانی میں چلنے پر مجبور تھے۔۔۔ ان لمحات میں مجھے اچانک اس کی یاد آئی جو کہا کرتا تھا کہ مجھے بارش میں مرنا پسند ہے، یہ سوچ کر مجھے ابکائی سی آگئی اور میں نے اس کے لیے اپنے دل میں دعا کی کہ “جب وہ مرے تو کسی اچھی جگہ میں ہو اور بارش کا پانی اس طرح کا گندا نہ ہو بلکہ کسی پہاڑی مقام پر برستے صاف ستھرے پانی جیسا ہو۔۔۔”
اُس دن گھر سے ٹرمینل تک جانے کا پندرہ منٹ کا مختصر سا فاصلہ ہم نے پینتالیس منٹ میں طے کیا۔۔۔
شہر میں بارش سے ایسا ہوتا ہی ہے، گلیاں، سڑکیں، چوراہے اور میدان کسی تالاب کا سا منظر پیش کرتے ہیں۔۔۔

اب ہم جہاز میں اپنی مطلوبہ نشستوں پر بیٹھ چکے تھے، لیکن بہت سی نشستیں خالی تھیں، میں سمجھا کہ شاید کرونا کی وجہ سے مسافر کم ہوں لیکن پھر کچھ ہی دیر میں ایئر ہوسٹس کی شائستہ آواز نے مجھے اپنی جانب متوجہ کیا، وہ اعلان کر رہی تھی کہ بارش کی وجہ سے شہر کے دوردراز سے آنے والے مسافر وقت پر ٹرمینل نہیں پہنچ سکے، بیشتر مسافر ابھی تک ٹریفک جام میں پھنسے ہوئے ہیں، ایئر ہوسٹس تھوڑی تھوڑی دیر بعد اعلان کو دہرائے جا رہی تھی۔۔۔ آخر کار ڈیڑھ گھنٹے کی تاخیر کے بعد جب تمام مطلوبہ مسافر جہاز میں اطمینان سے اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے تو سفر کا آغاز ہوا۔۔۔
میری منزل چونکہ کشمیر میں واقع میرا گاؤں تھا اس لیے ہم اسلام آباد ائیرپورٹ سے نکل کر ٹیکسی کے ذریعے راولپنڈی پہنچے اور پھر وہاں سے گاؤں جانے والی ٹیکسی میں سوار ہو گئے۔۔۔ تین گھنٹے بعد ہم اپنے گاؤں میں موجود تھے۔۔۔ اس دوران کراچی، اسلام آباد اور راولپنڈی کی حبس زدہ گرمی ہم بہت پیچھے چھوڑ کر کشمیر کی ہلکی سردی میں داخل ہو چکے تھے۔۔۔ موسم غیرمعمولی طور پر بیحد دلکش تھا، پہاڑوں پر موسمِ گرما کی سرد ہوائیں چل رہیں تھیں اور رات کا پہر۔۔۔ خاموشی اور اندھیرا۔۔۔ اس اندھیرے میں دوردراز کے گھروں میں جلنے والی روشنیاں اور جھینگروں کی آوازیں عجیب سماں باندھ رہیں تھیں۔

میں تقریباً چار سال کے بعد اپنے گاؤں گیا تھا اور اس رات آنے والی اُن آوازوں کو غور سے سن رہا تھا، اس وقت میں یہ بات بالکل فراموش کر چکا تھا کہ آنے والے کئی ہفتوں تک مجھے ان ہی آوازوں کے درمیان اپنی راتیں بتانا ہوں گی۔۔۔ اور ہر رات میں انہیں ایسی ہی لگن سے سنوں گا کہ جیسے کسی چیز کو پہلی اور آخری بار سنا جاتا ہے۔۔۔
صبح اٹھا تو سورج کی چمکتی ہوئی کرنوں نے استقبال کیا، کمرے کا دروازہ کھولا تو سورج سامنے منتظر تھا، اتنا قریب اور اتنا روشن۔۔۔ آسمان گہرا نیلا تھا، کہیں کہیں سفید بادل تھے جو کسی بڑے پرندے کے سفید پروں کی مانند لگ رہے تھے۔۔۔ اتنی خوبصورت اور شفاف صبح کا نظارا میں چار سال بعد کر رہا تھا۔۔۔ درختوں کی بےدریغ کٹائی، گاڑیوں کا زہرآلود دھواں، دھڑا دھڑ بنتے محل نما مکانوں اور اردگرد پھیلی ہوئی شاید کبھی نہ ختم ہونے والی پلاسٹک کی بےشمار تھیلیوں کے باوجود یہاں کا آسمان اور زمین کتنی بھرپور ہے اور کتنی ہری بھری۔۔۔ ایسا لگتا ہے کہ ہر قسم کی آلودگی کو یہاں کے آسمان نے اپنی وسعتوں میں گُم کر دیا ہے اور اس زمین نے اپنے اندر کہیں دفن کر دیا ہے۔۔۔ اکیسویں صدی کا یہ گاؤں ہر طرح کی جدید آسائشوں کے باوجود ابھی بھی انتہا کی حد تک خوبصورت ہے۔۔۔ اسی لیے اس کو دیکھ کر کسی اور ہی دنیا کا گمان ہوتا ہے۔۔۔ لیکن یہ گاؤں حقیقی طور پر اسی دنیا کے نقشے میں موجود ہے اور میں ان کیفیات سے لطف اندوز ہو رہا ہوں جو اس گاؤں کی بدولت مجھے دیکھنے کو مل رہی ہیں۔
گاؤں میں گزارے ہوئے یہ انمول روزوشب میرے دل و دماغ کے بند دریچوں کو کھول کر فطرت کے بہت ہی قریب کر چکے ہیں۔۔۔ فطرت کی وہ حسین آوازیں اور وہ نظارے جن کو میں شہر کی آلودگی میں فراموش کر چکا تھا اب پھر سے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں اور کانوں سے سُن رہا ہوں۔۔۔ یہاں صبح سے شام تک اور پھر رات بھر آوازوں کا ایک ایسا سلسلہ ہے جو بغیر کسی وقفے کے جاری رہتا ہے۔۔۔

دن بھر بےشمار پرندوں کی آوازیں اور پھر شام ڈھلتے ہی دکھائی نہ دینے والے کیڑے مکوڑوں کی آوازیں، جو رات کے اختتام تک موسیقی کی مانند بجتی رہتی ہیں۔۔۔ رات بھر ان آوازوں کے درمیان جُگنو بھی اُڑتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔۔۔ سیاہ اندھیری راتوں میں جگنوؤں کی جگمگاہٹ کو دیکھ کر فوری طور پر یہی خیال دل میں آتا ہے کہ ان جگنوؤں کی روشنی سے کوئی بھٹکا ہوا چرند پرند ضرور اپنی منزل پر عافیت سے پہنچ کر جگنوؤں کا شکریہ ادا کرتا ہو گا۔۔۔
گاؤں میں ہر دوسرے دن بارش ہوتی، اور ہر نئی بارش کا نظارہ پچھلی بارش سے مختلف ہوتا۔۔۔ گہرے سرمئی بادلوں کا چھا جانا اور پھر دیر تک برسنا۔۔۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ دھوپ نکلی ہوئی ہے اور بارش کا پانی بھی برسے جا رہا ہے، اس دوران قوسِ قزح کے ساتوں رنگ اپنے مخصوص انداز میں جلوہ افروز ہو رہے ہیں۔۔۔ ایک صبح میں اٹھا تو سب کچھ سفید تھا، آسمان پر سورج کا نام و نشاں تک نہ تھا، بس سفیدی میں پانی برسے جا رہا تھا، اردگرد کے درخت اور پہاڑ سفیدی میں ڈوب کر اپنی شناخت گُم کر چکے تھے، بادل اگر تھے بھی تو ان کو علیحدہ سے شناخت کرنا مشکل تھا۔۔۔۔ اُس دن شام تک یہی حیران کن منظر دیکھنے کو ملا۔۔۔۔ رات کب آئی محسوس ہی نہیں ہوا، دن اور رات کا فرق مٹ سا گیا تھا۔۔۔

ان بارشوں کی حسین رتوں میں مجھے کراچی کی اچانک یاد آجاتی۔۔۔ کراچی میں بارشیں بہت کم ہوتی ہیں اور جب بھی بارش ہوتی ہے تو ہم بھرپور انجوائے کرتے ہیں۔۔۔ بچپن سے لے کر اب تک شاید ہی کوئی ایسی بارش ہوئی ہو جس سے ہم لطف اندوز نہ ہوئے ہوں، یونیورسٹی کے دنوں میں جب کبھی بارش کا موسم ہوتا تو ہماری کوشش یہی ہوتی کہ صبح سے رات تک بس یونیورسٹی کی گلیوں میں بارش میں بھیگتے رہیں، کئی یادگار بارشیں ہم نے یونیورسٹی میں گزاریں تھیں۔۔۔
گاؤں میں انٹرنیٹ کی سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں، فیس بُک تو چلتا ہی نہیں تھا بس بمشکل وٹس ایپ پر دوستوں سے رابطہ قائم تھا۔۔۔ ایک شام جبکہ وہ شام اب رات میں بدل چکی تھی کراچی کے کچھ دوستوں کی طرف سے ویڈیوز پر مبنی پیغامات مجھے وٹس ایپ پر موصول ہوئے، انٹرنیٹ کی سُست رفتار کی بدولت بہت سی ویڈیوز ڈاؤن لوڈ ہی نہیں ہو رہیں تھیں آخر بد دل ہو کر میں نے اپنے دوستوں کو میسیجز کیے کہ یہ ویڈیوز یہاں اوپن نہیں ہو رہی ہیں، گاؤں کا نیٹ بہت خراب ہے اس لیے مجھے لفظوں میں بتایا جائے کہ ان ویڈیوز میں کیا ہے۔۔۔ ایک دوست درخشاں نے مجھے بتایا کہ شہر بھر میں تیز بارش کی وجہ سے بہت سے علاقے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں، اقبال صاحب سے فون پر بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ ہاں یہ سچ ہے ناظم آباد کے کئی علاقے بھی بارش کی وجہ سے متاثر ہیں، شہر کے دوسرے مضافاتی اور نشیبی علاقوں کی بھی کم وبیش یہی صورتحال ہے۔۔۔

درخشاں اور اقبال صاحب کی ان باتوں کو سن کر مجھے افسوس ہوا، میں تو یہاں اتنے سکون سے بارشوں سے لطف اندوز ہو رہا ہوں اور وہاں میلوں دور کراچی میں بارش نے تباہی مچائی ہوئی ہے۔ اس وقت میں نے سوچا کہ یہ پہلی بار تو نہیں تھا کہ شہر میں بارش ہوئی ہو اور اس بارش کے پانی سے گلیاں اور سڑکیں تالاب کا منظر ییش کر رہی ہوں، خود میں نے بھی کئی بار بارش کے پانی سے بھری ہوئی گلیوں اور سڑکوں پر پیدل اور گاڑی پر سفر کیا تھا لیکن جانے کیوں اس بار مجھے لگ رہا تھا کہ یہ بارشیں ضرور شہر میں کوئی تباہی برپا کریں گی۔۔۔ اُس رات مختلف نیوز چینل پر بتایا جا رہا تھا کراچی میں طوفانی بارشوں نے تباہی مچا دی ہے، بہت سے رہائشی علاقے زیر آب آگئے ہیں، اور رہائشیوں کو امدادی ٹیموں کے ذریعے ان کے گھروں سے نکال کر محفوظ مقامات کی طرف منتقل کیا جا رہا ہے، بہت سے لوگ اپنے گھروں کی چھتوں پر پناہ لیے ہوئے ہیں۔۔۔ ایک دل دہلا دینے والی خبر بھی اُس رات نیوز چینل پر نشر ہوئی تھی، نیوز چینل کے مطابق شہر میں جاری مسلسل بارشوں کی وجہ سے پندرہ سے زائد افراد کرنٹ لگنے اور دیگر حادثات کی وجہ سے جاں بحق ہو چکے ہیں۔۔۔ یعنی ان بارشوں سے کرنٹ لگنے کی وجہ سے لوگ انتقال کر گئے۔۔۔

یقیناً بہت سے لوگ اپنے روزمرہ کے کاموں پر ہوں گے اور پھر گھر واپس جاتے ہوئے یا روڈ کراس کرتے ہوئے بجلی کی کرنٹ زدہ تاروں کی گرفت میں آچکے ہوں گے۔۔۔ کاش ایسی موت کسی دشمن کو بھی نصیب نہ ہو۔۔۔بارش اور کرنٹ لگنے سے لوگ جاں بحق۔۔۔ مجھے اُس دوست کا خیال آیا جو اکثر مجھے کہا کرتا تھا کہ میں بارش میں مرنا چاہتا ہوں۔۔۔ برسوں بارشوں میں ہم نے کتنا انجوائے کیا تھا، یوں تو ہماری دوستی کو صرف سات، آٹھ برس ہی ہوئے تھے لیکن اس تھوڑے سے عرصے میں ہم نے ہر سال ہی بارش کے موسم میں ساتھ چہل قدمی کی تھی، چائے اور پکوڑوں کو ندیدوں کی طرح کھایا تھا اور کئی بار ہم لوگ بارش کے گندے پانی میں بھی پھنس چکے تھے۔۔۔ مجھے فوراً ہی اس کی یاد آئی اور موبائل پر نمبر ڈائل کر دیا، مسلسل کال کرنے کے باوجود دوسری طرف سے کوئی ریسپانس نہیں تھا، اس کا نمبر بند جا رہا تھا۔۔۔ میں نے دل میں سوچا کہ شاید بجلی نہ ہونے کی وجہ سے اس کا موبائل چارج نہ ہو، اسی لیے نمبر بند جا رہا ہے۔۔۔ موبائل میز پر رکھ کر میں اپنے کمرے سے باہر چلا گیا اور کراچی کی بارشوں کو گاؤں کی سیاہ رات میں یاد کرنے لگا، اس رات موسم سرد تھا، دن بھر کی بارش نے ماحول کو سرد کر دیا تھا، رات کے چرند پرند کی آوازوں میں کھویا ہوا میں اُس دوست کو یاد کرنے لگا اور بےاختیار میرے دل سے یہ دعا نکلی کہ کاش وہ خیریت سے ہو اور ان بارشوں نے اس کو کوئی نقصان نہ پہنچایا ہو۔۔۔

نیوز چینل کی وہ خبر مجھے بے چینی میں مبتلا کر چکی تھی کہ شہر بھر میں پندرہ سے زائد لوگ بارش کی وجہ سے مر گئے ہیں۔۔۔ اس رات دیر تک میں کھلے آسمان کے نیچے اپنے گھر کے سامنے والے حصے پر تنہا چہل قدمی کرتا رہا۔۔۔ اور یہ سوچتا رہا کہ وہ کبھی کراچی کی حدود سے باہر نہیں گیا۔۔۔۔ کاش وہ کبھی بارشوں کے موسم میں ان پہاڑی مقامات پر آئے تو لمحوں میں ہی پاگل ہو جائے۔۔۔ بارش تو ویسے بھی اسے پسند ہے اور ان پہاڑی علاقوں پر برسنے والی بارش پر تو وہ فوراً ہی فدا ہو جائے گا۔۔۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ایسے میں وہ مجھے کہے گا کہ “میں بارشوں کے لمحات میں مرنا چاہتا ہوں۔۔۔ ایسی حسین بارش اور میری موت۔۔۔” اس رات میں نے نے دل ہی دل میں پروگرام بنایا کہ اگلی بار جب میں گاؤں آیا تو اس کو بھی لے کر آؤں گا، آخر وہ میرا دوست ہے اور میں چاہتا ہوں کہ وہ شہر کی آلودہ بارش سے نکل کر ان پہاڑوں کی صاف شفاف اجلی بارش سے بھی لطف اندوز ہو اور ایسی ہی کسی بارش میں اس کا اختتام ہو سکے، کم سے کم شہر کے مقابلے میں تو یہ بارش ہزار گنا بہتر ہے کہ اس میں موت کی تمنّا کی جا سکے۔۔۔ اور ہر بارش میں کی جا سکے۔۔۔

اُس رات جبکہ اب صبح ہونے والی تھی میں سونے کے لیے اپنے کمرے میں چلا گیا، رات کی وہ آوازیں اب صبح کی وجہ سے پردہ غیب میں جانے والی تھیں اور ان کی جگہ پرندوں کی آوازیں حاوی ہونے والی تھیں، ان ہی باتوں کو سوچتے ہوئے میں نیند کی وادی میں اُتر گیا اور دیر تک سوتا رہا۔۔۔ صبح کی فرحت بخش روشنی جب غائب ہو کر دن کی دھوپ میں بدل رہی تھی تو میری آنکھ کُھلی، موبائل پر وقت دیکھا، ساڑھے گیارہ بج رہے تھے۔۔۔ موبائل اسکرین پر کچھ میسجز اور مسڈ کالز کے نوٹیفیکیشن تھے، نمبر جانا پہچانا تھا، اس لیے مجھے اطمینان ہوا کہ ضرور وہ مجھے گزشتہ دنوں کی بارشوں کا آنکھوں دیکھا حال بتانے کے لیے کال کر رہا ہو گا، پچھلے کچھ سالوں میں یہ پہلا موقع تھا کہ بارشیں کراچی میں ہو رہی ہیں اور میں وہاں سے میلوں دور بیٹھا ہوا ہوں۔۔۔ کال بیک کرنے سے پہلے خیال آیا کہ کچھ دیر بعد سکون سے بات کروں گا بس پہلے یہ میسجز دیکھ لیتا ہوں، یہی سوچ کر جب میں نے میسجز کھولے تو اس کے نمبر سے کوئی تین میسیجز آئے ہوئے تھے، میں میسجز پڑھ رہا تھا اور میری خوشی غائب ہو رہی تھی، نمبر تو اس کا ہی تھا لیکن وہ لکھے ہوئے الفاظ اس کے نہیں تھے، وہ اس کی بڑی بہن روشن آرا تھی جس نے مجھے لکھا تھا کہ
“گذشتہ شام تیز بارش کی وجہ سے وہ گھر کے نزدیکی میدان میں کرنٹ لگنے کی وجہ سے موقع پر ہی ختم ہو گیا تھا، محلے کے کچھ لوگوں نے بڑی مشکل سے ایمبولینس میں ڈال کر اسے ہسپتال پہنچایا لیکن ڈاکٹروں کے مطابق اس کی موت بارش کے دوران کرنٹ لگنے سے واقع ہو چکی تھی۔۔۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

وہ بارش کے لمحات میں ختم ہوا، ایک یہی تو اس کی اوؤلین خواہش تھی کہ بارش کے لمحات میں اس کی زندگی اپنے اختتام کو پہنچے، لیکن کرنٹ کی بات تو اس نے کبھی بھولے سے بھی مجھ سے نہیں کہی تھی۔۔۔ کرنٹ سے تو ہم دونوں کو ہی خوف آتا تھا اور بجلی کا بلب یا پانی کی موٹر کا بٹن آن کرتے ہوئے بھی ہم پہلے یہ اطمینان کر لیتے تھے کہ کہیں کرنٹ نہ لگ جائے۔۔۔۔
میں ابھی تک اس بات کا فیصلہ نہیں کر سکا کہ وہ بارش کے پانی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے جاں بحق ہوا یا اس کی موت کی وجہ بجلی کی تاروں کا وہ ہولناک کرنٹ تھا جو اس کے جسم کو اپنی گرفت میں لے چکا تھا۔۔۔ اپنی موت کے آخری لمحات میں اس نے بارش کے پانی کا ذائقہ چکھا تھا یا وہ ان لمحات میں ایک نئے ذائقے سے آشنا ہوا تھا جس کو ہم کرنٹ کہتے ہیں۔۔۔؟؟؟؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply