چور آپ کا باپ ہو گا۔۔ذیشان نور خلجی

سال 2023ء شروع ہو چکا ہے اور عمران خان کا بلین ٹری منصوبہ بھی اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے۔ پاکستان اب ایک چھوٹا سا ایمزون جنگل نظر آتا ہے۔ درختوں کی بہتات کی بدولت یہاں کا موسم انتہائی مرطوب ہو چکا ہے۔ زیادہ بارشوں کے باعث پانی کو استعمال میں لانے کے لئے ہر شہر کے باہر ایک عدد ڈیم بن چکا ہے۔ گو شہر بھر میں پانی ذخیرہ کرنے کے خاطر خواہ انتظامات موجود تھے، لیکن آخر زبان بھی کوئی چیز ہوتی ہے سو خان صاحب نے اپنا وعدہ ایفاء کیا اور ہر شہر کے باہر ایک عدد ڈیم بنوا دیا۔ پاکستان چونکہ ایک زرعی ملک ہے اس لئے وزیر اعظم کے قریبی دوستوں نے جن میں وفاقی وزیر خسرو بختیار اور جہانگیر ترین شامل ہیں آٹا اور چینی کے دام انتہائی سستے کر دئیے، بلکہ بعض اوقات پانچ کلو چینی کے ساتھ پانچ کلو آٹا فری ملنے کی آفر بھی سامنے آتی رہتی ہے۔ اس کے علاوہ دالیں اور سبزیاں بھی اس قدر وافر اور سستی ہو چکی ہیں کہ ہم ہمسایہ ملک بھارت کو بھی برآمد کر رہے ہیں۔ بھارت کا ذکر آیا ہے تو اس کی بھی سن لیں۔ عمران خان کی نقشہ نویسی کے آگے انڈیا گھٹنے ٹیک چکا ہے اور مقبوضہ کشمیر کی آزادنہ حیثیت تسلیم کر چکا ہے۔ پاکستان نے سری نگر کی وادی میں بڑے بڑے ساؤنڈ سسٹم نصب کر دئیے گئے ہیں تا کہ آئندہ کبھی کوئی ادھر میلی آنکھ سے بھی نہ دیکھ سکے۔ ایران اور سعودی عرب میں عمران خان کی کوششوں سے صلح ہو چکی ہے اور اسلامی ممالک کا ایک بڑا اتحاد سامنے آ چکا ہے جس کی مستقل سربراہی پاکستانی وزیر اعظم کر رہے ہیں۔ خان صاحب کی دلچسپی کے باعث امریکہ کا افغانستان سے انخلاء بھی آخری مراحل میں داخل ہو چکا ہے۔

اس سب کے بعد راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔ لیکن ٹھہرئیے، وہ 2018ء کا الیکشن تھا جب عوام نے عمران خان کا انتخاب کیا اور انہیں مسند اقتدار بخشی۔ لیکن اب یوں لگتا ہے کہ ان سب خدمات کے باوجود لوگ خان صاحب کو دوبارہ اپنے کندھوں پر بٹھانے کو تیار نہیں۔ کیوں کہ عمران خان نے بحیثیت سیاستدان قوم کو کچھ ایسا ڈیلیور کیا کہ اگلے پچاس سال بھی جس کی گونج کم نہ ہو گی۔ ان کی یہ خدمت کم از کم آنے والی دو نسلوں کو ضرور سیراب کرتی رہے گی۔

ایسی کون سی خدمت ہے جو اوپر گنوائی گئی تمام خدمات پر بھاری ہے؟ آئیے، ماضی میں جھانکتے ہیں۔

یہ چوروں کا ٹولہ ہے۔ سارا ٹبر چور ہے۔ میں ان سب کو رولاؤں گا۔ ان کی شلواریں گیلی ہو جاتی ہیں۔ اور اسی طرح کے غیر پارلیمانی الفاظ۔ اور یہ صرف عمران خان اینڈ کمپنی تک ہی محدود نہیں بلکہ اس آگ نے بڑھتے بڑھتے خان صاحب کی تیار کی گئی قوم یوتھ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یہ وہ نوجوان تھے آج جن کو تربیت کی ضرورت تھی جنہوں نے آگے جا کر قوم کی باگ ڈور سنبھالنا تھی۔ لیکن خان صاحب نے ان کی ایسی تربیت کی کہ انہیں جدھر کوئی اپنے بیانیے کے خلاف نظر آیا سو اپنے جد امجد کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اسے ادھر ہی پکڑ لیا اور پھر آؤ دیکھا نہ تاؤ اور تو تڑاخ سے ہوتے ہوئے گالم گلوچ پہ اتر آئے۔ اور پھر یہ بیماری صرف انہی تک محدود نہیں رہی بلکہ وائرس کی طرح پھیلتی ہوئی ان کی حریف سیاسی جماعت ن لیگ کے سپورٹرز میں بھی سرائیت کر گئی اور پھر کسی بڑے چھوٹے کا کوئی امتیاز باقی نہ رہا۔ اب ہوتا یہ ہے کہ کبھی قوم یوتھ کی سابقہ بھابھی کی خان صاحب کی نجی زندگی پر مشتمل ایسی کتاب سامنے آ جاتی ہے کہ جسے فیملی کے سامنے پڑھنا بھی ممکن نہیں۔ تو کبھی وفاقی وزیر مراد سعید سے ایسے ایسے واقعات منسوب کئے جاتے ہیں کہ قوم لوط بھی شرما جائے۔ اور ابھی کل ہی کی بات ہے اپنے وقت کے ایک مہذب وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی پر جب دوران تقریر اسمبلی کے فلور پر چور چور کی صداؤں سے حملہ کیا گیا تو انہوں نے بھی جواباً کہہ دیا “چور آپ کا باپ ہوگا۔”

Advertisements
julia rana solicitors

سوچ رہا ہوں یہ عمران خان کا پہلا اور آخری موقع تھا۔ آنے والی چند دہائیوں تک یہ تاریخ کے اوراق میں کہیں گم ہو جائیں گے لیکن اپنے پیچھے جو “کتم کتا” کا وائرس چھوڑ جائیں گے اسے کون ختم کرے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply