کراچی تو ڈوب گیا۔۔عمیر اقبال

کراچی ڈوب گیا پھر بھی بھٹو زندہ ہے
کراچی ڈوب گیا تبدیلی آ نہیں  رہی ،تبدیلی آچکی ہے
کراچی ڈوب گیا حل صرف جماعت اسلامی
کراچی ڈوب گیا ہمیں منزل نہیں رہنما چاییے

کراچی ڈوب گیا لیکن یہ بیہودہ دو ٹکے کے انتہائی گرے  ہوئے   سیاسی نعرے، جو شاید ان بارشوں سے ہونے والی تباہی سے پہلے اگر کرائے کے یہ سیاسی ورکرز دیکھ لیتے جو کوڑیوں کے عوض خرید لیے جاتے ہیں ،ہرگز نہ لگاتے اپنے ان لٹیرے لیڈران کے لیے، کاش کہ یہ نعرے نہ لگاتے، نہ  یہ نعرے لگتے ،نہ عوام جذباتی ہوتی، نہ عوام جذباتی ہوتی اور  نہ ہی ایسے نکمے لیڈر ہمارے سروں پر  مسلط ہوتے  اور نہ یہ دن دیکھنے پڑتے، ہائے افسوس اپنے حال پر اس قدر بے حال ہوئے، ہمارا قصور بس ان نعروں پر جذباتی ہونا ہے جو کئی  دہائیوں سے ہمیں ان مسائل سے نہیں نکال پارہے اور آگے چل کر بھی ہم انہی  کا شکار  بنتے رہیں  گے، کیونکہ ہم جذباتی ہی رہیں  گے، بھٹو کے لیے، رہنما کے لیے، منزل کے لیے تبدیلی کے لیے، اور ایسے حل کے لیے جو حل کم مسئلہ زیادہ ہو گا-

کراچی تو ڈوب گیا اب بھاڑے کے بکاؤ اینکرز اپنے پروگراموں میں سیاست دانوں کے آگے ان سے مشترکہ گٹھ جوڑ کے سوالات رکھیں  گے اور بارش سے متاثر ہوئے لوگوں کے زخموں پر نمک پاشی کریں گے، یہ سیاست دن کس ڈگر پر چل رہے  ہیں،  یہ سب کے سامنے ہے، انہیں عوام کے  دکھوں سے کوئی  سروکار نہیں، انہیں عوام کسی جانور کی مانند ہی نظر آتی ہے کہ انہیں  چرایا جائے، یہ لیٹرے لیڈر  بس سیاسی بیان بازی جانتے ہیں ، ووٹ کی بھیک مانگنا جانتے ہیں، ایک دوسرے پر الزام تراشی جانتے ہیں، فنڈز کس طرح  ہتھیانے ہیں ، بس یہ جانتے ہیں-

کراچی تو ڈوب گیا اور اب ان سیاسی لیڈروں  کے لیے اسی بارش کے پانی میں ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ اب وہ مقام سرجانی و اورنگی کی بہتی گلیاں ہیں ،یا پھر نیپا و بہادر آباد پر بنے   گندے پانی کے  تالاب، کیا ہی اچھا ہو کہ یہ سب لیٹرےاس عظیم گوجر نالے کی نذر ہوجائیں، کیونکہ یہ سڑکوں پر کھڑا پانی، یہ   ابلتے نالے،    یہ ان لیڈروں  ہی کی مرہون منت ہے، اے عوام! تم ان لیڈروں کی  کون کون سی حماقتوں کو  جھٹلاؤ گے؟ اے سیاسی ورکران! تم اپنے لیڈروں کے اور کتنے  عیب چھپاؤ   گے؟ تم بھی انہی  میں سے ہو، یہ مسائل تمہارے مسائل ہیں تمہارے پیدا کردہ  مسائل ہیں، جنہیں  اب تمہارے لیٹرے لیڈر  بس ٹاک شوز کی حد تک حل کرسکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آئیے آنے والے اس بلدیاتی انتخابات میں کم از کم یہ عہد کیجیے کہ آزاد امیدوار کو اپنے ہی اندر سے چنے گے جو اک ایسا پڑھا لکھا باشعور نوجوان ہو جو اس کراچی کے لیے درد رکھتا ہو، جو اس شہر کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف کھڑا ہونا جانتا ہو، جو کراچی کو کھانے والوں، لیٹروں کو ناکوں چنے چبوانا جانتا ہو،منتخب کریں گے۔۔ اسی صورت یہ کراچی بدل سکتا ہے ورنہ یونہی پانی میں ڈوبتے رہیے اور اپنی مشکلوں اور پریشانیوں کا رونا روتے رہیے-

Facebook Comments

عمیر اقبال
حقیقت کا متلاشی، سیاحت میرا جنون ، فوٹوگرافی میرا مشغلہ ماڈلنگ میرا شوق،

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply