ریگ ۔۔ مختار پارس

نور پیر والا وقت تھا اور میں صحرا کے بیچوں بیچ ۔ میں نے اوپرآسمانوں میں دیکھ کر ہاتھ اٹھاۓ تو دل کی دنیا ہی بدل گئی۔ مشرق کا دروازہ کھول کر رب نے ریت پر سونا یوں پھینک دیا کہ ذرہ ذرہ جاگ اٹھا۔ اخترِصبح ابھی بھی وہیں کھڑے رہنے کی ضد میں تھا۔سامنے ریت بال کھولے اپنے اتار چڑھاؤ سے بے خبر دور دور تک سو رہی تھی اور صبح کی ہوا دبے پاؤں چل رہی تھی کہ کہیں اس ریت کے اندر سویا ہوا سفر جاگ نہ جاۓ۔ مسافر کو حالتِ قیام میں ایک سرور میسر تھا جو نہ آدرش میں کہیں ہو سکتا ہے اور نہ آخرش میں ممکن ہے۔کچھ لمحے لوٹ کر نہیں جاتے۔ اس لمحے نے بھی امر کردیا۔ نہ لوٹ کر گیا اور نہ مجھےکہیں اور جانے دیا۔ صحرا مسافر میں گم ہو گیا اور مسافر ریگِ رواں کی سلوٹوں کی تاب نہ لا سکا۔

جس کو ریگزاروں کا ہم سخن ہونے کی طاقتِ گفتار عطا ہو جاۓ، اسے پھر سراب نظر نہیں آتے۔ حقیقت سب جانتی ہے۔ اسے منزلوں کی جانب بڑھنے کی جلدی نہیں ہوتی۔ سفر طے کرنے والے کو جلدی ہو تو صحرا رستہ نہیں روکتے بلکہ وسیع ہو جاتے ہیں۔ منزل پر وہی پہنچ پاتے ہیں جو سکون میں رہتے ہیں۔ انہیں رستہ نہ ملے تو راتوں کو ثریا اور الدبِ اکبر کے ستاروں سے سمتیں معلوم کر لیتے ہیں، دھوپ لگے تو سورج کو ترچھا کرکے اپنا سایہ کرلیتے ہیں اور ہونٹ زیادہ خشک ہو جائیں تو اونٹ کے پیٹ کو چاک کرکے اس میں جمع پانی کو بھی پی لیتے ہیں۔ موت آ جاۓ تو مر جاتے ہیں اور منزل مل جاۓ تو کر جاتے ہیں۔ ریت کے خانہ بدوش ٹیلوں کی سرسراتی ہواؤں کے درمیان گمنامی کی موت مر جانے کا اپنا ہی مزا ہے۔ صحرا تو زندگی کو سمجھنے کا ایک استعارہ ہے۔ صحراؤں سے باہر جتنی بھی آباد دنیا ہے، وہ بھی کسی طور کسی صحرا سے کم نہیں۔

کیا یہ ضروری ہے کہ کوئی سانحہ ہو تو صحرا نوردی کا سوچا جاۓ؟ وقت آنے پر یہ صحرا سارے دکھ سمیٹ لیتا ہے اور کسی کو کان و کان خبر بھی نہیں ہونے دیتا۔ ویرانہ بہت اچھا سامع ہوتا ہے؛ آتشِ رنج و غم میں شعلے بھڑکتے ہیں، لکڑیاں چٹختی ہیں، دھؤاں بھی اٹھتا ہے۔ سننے والا وہاں موجود ہوتا ہے۔ نہ کوئی فردِ جرم لگتی ہے اور نہ توہین کا ملزم سنگسار ہوتا ہے۔ ہم کلام ہونے سے رازِ حیات کے نقشِ قدم واضح ہو جاتے ہیں۔ ہجوم میں کوئی کلام ممکن نہیں۔ہواۓ جہل ذرا بھی تند ہو تو بستیاں بے آباد کر سکتی ہے۔ تنہائی اسی لیے ضروری ہے۔ اب تک جو سمجھ میں آیا ہے، وہ بھی ایک تنہا نے بتایا ہے۔ میں نے بھی کچھ کہنا ہو تو مجھے بھی صحرا میں جانا پڑتا ہے۔ میں نہ جا سکوں تو صحرا کو اپنے پاس بلا لیتا ہوں۔ جب ضرورت کے بغیر صحرا کا حسن اپنی جانب کھینچے تو پھر سانحے رونما نہیں ہوسکتے۔ دکھ کی مچھلی سکھ کے پانی میں جیتی ہے۔ جب پانی ہجرت کر جاتا ہے تو مچھلی کے فوسلز صدیوں بعد ریت سے برآمد ہوتے ہیں۔ وہ بھی پانی کے ساتھ چلی جاتی تو اس کے نشان تک کوئی پہنچ نہ پاتا۔ اسکا اپنی کہانی سنانے کےلیے ریت پر رہ جانا ضروری ہے۔

صحرا کی سرگوشیوں پر کان دھرنے والا رستہ نہیں بھول سکتا۔ اگر تم صحرا کی بات نہیں سنو گے تو آگ تم پر ایسے برسے گی جیسے سوتے میں کسی پر کوئی کھولتا ہوا پانی ڈال دے۔ تم نے ریگ میں رہنا سیکھ لیا تو پھر اس سے پھر فرق نہیں پڑتا کہ کہیں سایہِ دیوار بھی میسر ہے یا نہیں، کہیں بہتے پانی کی آبشار ہے کہ نہیں، کہیں کوئی رشتہ استوار ہے بھی یا نہیں۔ پیاس کا ڈر ختم ہو جاۓ تو خدا سے محبت کا آغاز ہو جاتا ہے۔ پھر اس کے بعد تم صحرا سے جان نہیں چھڑا سکتے۔ صحرا جب جینے کا ڈھنگ سکھا دیتا ہے تو وقت کو بےبس کر سکتا ہے۔ یہ کبھی آنکھ میں در آتا ہے اور کبھی دل میں گھر کر لیتا ہے۔ اس کی راتوں سے زیادہ حسیں کچھ بھی نہیں۔ کائنات کی وسعت کا احساس صرف صحرا میں ہو سکتا ہے اور کہیں نہیں۔

تاریخ کا سفر ان صحراؤں سے جڑا ہے۔ کبھی یہاں ان تہذیبوں نے جنم لیا جن کو پاۓ استقامت کہیں شہروں میں جا کر ملے۔ یہاں کبھی اتنے حسین لوگ رہتے تھے کہ ان کی مثال نہیں ملتی۔ ریگزاروں کا دامن ہمیشہ زر و جواہر سے بھرا رہا۔ انسان کو سکون نہ حسن دے سکا اور نہ سنگِ سرخ کی چمک ۔ زندگی کی تلاش میں کئی کاروان ان صحراؤں میں سے گزرے اور پھر کبھی کسی نے نہ دیکھے۔ ان صحراؤں کو پار کرکے شہر بسانے والوں کی نشانیاں بھی ہمیں کسی اور صحرا سے ملیں۔ یہ صحرا بیابان نہیں ہیں؛ ان میں رازِ زندگی تڑپ رہا ہے؛ اپنے اندر کے صحرا کو بیاباں نہیں ہونے دو؛ اسے آباد کرو۔ ان میں گزرنے والے قافلوں کو خیمہ زن ہونے دو کہ یہ تمہارے اپنے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

حق کی راہ پر روانہ ہونے والے قافلوں کو صحراؤں سے گزرنا ہے۔ یہ راستے آسان ہوتے تو سچ کا سورج سب کو نظر آتا۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ ہم بل کھاتی روشن اور پرشور شاہراہوں پر گامزن ہیں یا کسی سمندر میں ساحلوں کی آس میں کشتیاں کھیتے ہیں۔یہاں جس کو سچ سمجھ آتا ہے، وہ صحرا میں ہے اور سفر میں ہے۔ اس کی منزل حقیقت کے ریگزار کے پار نہیں بلکہ وقت کے اس پار ہے جو اس نے ابھی نہیں دیکھا۔ جب اس کا سفر ختم ہو گا تو وہ کوئی اور ہوگا۔ جہاں پر وہ خود موجود ہوگا، وہ مقام بھی منزل نہیں، کچھ اور ہو گا۔ عروج و زوال جب اپنے منتقی انجام کو پہنچتے ہیں تو صحرا انہیں اپنی وسعتوں میں سمیٹ لیتے ہیں۔ ریگزارِ حسن میں الجھے ہوۓ مسافر ! حدِ ادب۔

Facebook Comments

مختار پارس
مقرر، محقق اور مصنف، مختار پارس کا تعلق صوفیاء کی سر زمین ملتان سے ھے۔ ایک عرصہ تک انگریزی ادب کے استاد رھے۔ چند سال پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک کرنٹ افیئرز کے پروگرام کی میزبانی بھی کی ۔ اردو ادب میں انشائیہ نگار کی حیثیت سے متعارف ھوئے ۔ان کی دو کتابیں 'مختار نامہ' اور 'زمین زاد کی واپسی' شائع ہو چکی ھیں۔ ادب میں ان کو ڈاکٹر وزیر آغا، مختار مسعود اور اشفاق احمد جیسی شخصیات سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ٹوئٹر پر ان سے ملاقات MukhtarParas@ پر ھو سکتی ھے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply