اعتدال پسندوں کی شام غریباں۔معاذ بن محمود

ایک زمانہ تھا جب علامہ طالب جوہری کی شامِ غریباں کو شیعہ سنی سبھی بلاتفریق دیکھا اور سنا کرتے تھے۔ طالب جوہری کی “شامِ غریباں “ پھر اسد جہاں کا نوحہ “گھبرائے گی زینب” اور پھر “سلامِ آخر” دیکھا جانا ہم سمیت کئی سنی گھرانوں میں ایک رواج کی طرح رائج تھا۔ ہم نے کبھی علامہ صاحب کو کوئی غیر اصولی یا متنازعہ بات کرتے نہ سنا تھا۔ علامہ صاحب کا وطیرہ رہا ہے کہ قرآن کے کسی حصے کو، جس کا دور دور تک واقعہ کربلا سے کوئی تعلق نہ دکھتا، لے کر ایسے پرکھتے اور یوں کربلا کے غمگین واقعے سے ملاتے کہ نہ کسی پر چوٹ ہوتی نہ کسی پر طنز اور اس کے باوجود ان کی گفتگو کا وزن برقرار رہتا۔ اس دور میں خواص کا تو معلوم نہیں لیکن کم از کم عوام کی حد تک فرقہ وارانہ زہر ناپید تھا۔

ہمارے دادا مولانا مظفر حسین صدیقی مرحوم دیوبند سے فارغ التحصیل مفتی ہونے کے باوجود والد محترم کی مذہبی تربیت کچھ ایسی کر گئے تھے کہ انہوں نے نہ کسی کو ہمارے سامنے غلط کہا نہ کہنے دیا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ زیدی انکل، سید مظاہر “زیدی” ہونے کے باوجود ہمارے والد محمود الحسن “صدیقی” کے بہترین دوست تھے۔ اعلی تربیت کا کریڈٹ میں یہاں زیدی انکل کے بزرگان کو بھی دینا لازمی سمجھتا ہوں کہ جنہوں نے مسلک کو دوستی و محبت کے  درمیان نہ آنے کی جملہ تربیت اپنی اولاد میں منتقل فرمائی۔ یوں دس محرم کی شام جب تک ہم پشاور صدر رہے، زیدی انکل بمعہ فیملی ہمارے یہاں فاقہ ترک کرنے آتے۔ نو اور دس محرم کی گریہ گیری کے بعد بجلی کے عدم میں تھکے ٹوٹے دوستوں کو دستی پنکھے کی ہوا کا تحفہ دے کر ہم اپنی محبت کا اظہار کیا کرتے۔ ان کی محبت کا ثبوت یہی کافی تھا کہ وہ اس شام ہمارے گھر موجود ہوتے۔

ذاتی تجربات بتانے کا مقصد اس محبت اور ہم آہنگی کی منظر کشی کرنا ہے جو نوے کی دہائی تک ملک میں عام ملتی تھی۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ہماری تاریخ کا سیاہ باب ہے جسے جھٹلا کر جان نہیں چھڑائی جاسکتی۔ ہمارا ننھیال زیادہ تک کراچی میں مقیم ہے۔ ہر سال کراچی تین ماہ گزارے بنا سکون نہ ملتا تھا۔ ذرا ہوش سنبھالا تو کراچی میں ہرے جھنڈے ہری پگڑیاں دکھائی دینے لگیں۔ تھوڑی پوچھ گچھ کے بعد بریلویوں کا تعارف ہوا۔ ابھی ٹھیک طرح سے تعارف نہ ہو پایا تھا کہ چند قریبی عزیز و اقارب کے ساتھ نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ مولانا زر ولی کی مسجد جانے کا اتفاق ہوا۔ مولانا صاحب کے جلال کا عالم یہ تھا کہ عین جمعے کے روز جب کراچی میں دوپہر ایک بجے مقابلہ خطاب  اپنے عروج پہ ہوتا، موصوف ایک جری بہادر کی طرح خطبے میں دوسرے مسالک کی تعریف فرماتے “کتوں سے بھی بدتر ہے یہ قوم”۔ اس قسم کے خرافات سن کر کم از کم پشاور والے ماحول پر ذہن میں سوال اٹھنے لگے۔ اللہ والد محترم کو بہترین آخرت عطا فرمائے کہ جنہوں نے مولانا زر ولی جیسے زر و اوزار سے بچا کر رکھا اور وقتاً فوقتاً ان ذہنی بیمار لوگوں کے بارے میں مطلع کر کے تشدد پسندی سے محفوظ رکھا۔ یہاں چوٹ کراچی پر ہرگز مقصود نہیں، ہمارے کے پی میں مولانا بجلی گھر اپنی ذات میں (بد زبانی کی) ایک دنیا ہیں۔

نوے اور دوہزار کی دہائیوں میں شاید اصل فرق یہی تھا کہ نوے کی دہائی جہاد کشمیر اور افغانستان کے اثر میں رہی جبکہ دو ہزار کے بعد مساجد کے لاؤڈ سپیکر زیادہ تر دیوبندی مسلک اختیار کر گئے۔ دوہزار دس کے بعد شیعہ ذاکرین کی اہلیت کا معیار اتنا پست کر دیا گیا کہ علامہ کا جو خوبصورت تصور ہم طالب جوہری سے کشید کر پائے تھے وہ ایک ناہنجار نے ذوالجناح اور جناح کو گدھا گھوڑا کر کے ضائع کر ڈالا۔ پھر ذاکرین کی ایک ایسی کھیپ بازار تک پہنچ گئی جو شیعیت کا چہرہ  ایسا دکھاتی ہے جیسے عامر لیاقت کو بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا چہرہ سمجھ لیا جائے۔ بریلوی علماء جنہیں ہم آخر تک ستی  ساوتری سمجھتے رہے ممتاز قادری کے بعد بذریعہ خادم حسین رضوی و ہمنوا ڈی چوک میں وہ چہرہ سامنے لائے جس کی نبی علیہ السلام کے متوالوں سے ہمیں امید نہ تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایسے میں جب ہر جانب سے مخصوص چھاپ والے علماء سے ملک کی نوجوان اکثریت مایوس تھی، تب ہمیں قاری حنیف ڈار صاحب جیسے عالم میسر آئے  جن تک پہنچ بوجہ   فیس بک پہ متحرک ہونا آسان تھی۔ قاری صاحب کی خوبی یہ تھی کہ ہم ان پہ کسی مخصوص مسلک کی چھاپ نہیں لگا سکتے تھے۔ قاری صاحب جیسا عاقل شخص جانے کیوں پچھلے دو ہفتوں سے اعتدال کا قتل عام کرنے میں مصروف ہے۔ ان کی جانب سے امن پسندی کا اس محرم الحرام میں حرام ہونا عقل سے بالاتر ہے۔ ممکن ہے قاری صاحب کو کسی سخت مومن کی سخت بات زیادہ سخت لگ گئی۔ شاید قاری صاحب بھول گئے کہ لسانیت اور مسلک پسندی وہ زہر ہیں جس میں بندے کو اپنی مظلومیت کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ ہماری مکالمہ کے توسط سے قاری صاحب سے التماس ہے کہ ہمارے لیے پچھلی دہائیوں کی محبت و مودت کی قصہ گوئی کریں ناکہ نفرت کی آگ میں ہائی آکٹین کا کردار ادا کریں کہ اوّل الذکر کے لیے آپ جیسوں کا قحط الرجال ہے جبکہ آخر الذکر کے لیے بڑے بڑے ذاکر، ذکر تھامے بیٹھے ہیں۔ ہمارے بس میں بس یہی گزارش تھی سو کر ڈالی، آگے جیسے قاری صاحب کی مرضی، واپس اعتدال کی جانب آجائیں یا اعتدال پسندوں کی شام غریباں جاری رکھیں۔

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply