• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • دین کی آڑ میں کیا کرتے ہیں، کیا کہتے ہیں۔۔نذر حافی

دین کی آڑ میں کیا کرتے ہیں، کیا کہتے ہیں۔۔نذر حافی

اجمل خان کا کردار بڑا واضح ہے، اس کا تعلق باجوڑ سے ہے، وہ دو ہزار بارہ میں آٹھ دوستوں کے ہمراہ پاکستان آیا، اُن آٹھ افراد کا افغانستان میں شیر گُل اور پنڈی میں شاہ زیب امیر تھا، انہیں مدرسہ تعلیم القرآن راولپنڈی میں مدعو کیا گیا تھا، یہاں پر اُن کے ذمے ایک عظیم مشن لگایا گیا اور وہ مشن یہ تھا کہ وہ دس محرم الحرام کو کالے کپڑے پہن کر اپنے ہی ہم مسلک لوگوں کو قتل کریں۔ چنانچہ 10 محرم الحرام 2013ء کو مدرسہ تعلیم القرآن میں کچھ لوگ چھریاں لے کر مدرسے کی اوپر والی منزل پر چلے گئے اور کچھ نیچے والی منزل پر، پھر آگ اور خون کی ہولی کھیلی گئی۔ مجھے نہیں پتہ کہ کتنے افراد مارے گئے، لیکن خود اُسی مدرسے کے اکابرین کا کہنا تھا کہ ہمارے نوّے افراد شہید ہوئے ہیں، اس کے علاوہ مسجد و مدرسے کو بھی ان لوگوں نے خود ہی آگ لگائی اور ملحقہ اربوں روپے مالیت کی مارکیٹ بھی جلا کر خاکستر کر دی۔ اس کے بعد اس گیم کا دوسرا حصہ شروع ہوا، دوسرے حصّے میں یہ کارروائی کروانے والے ملاوں نے چار سال تک مسلسل جھوٹ بولا، دن رات یہی کہتے رہے کہ ایرانی کمانڈوز نے ہمارے مدرسے پر حملہ کیا ہے، شیعہ ماتمیوں نے ہمارے بندے قتل کئے ہیں، شیعہ انجمنوں نے ہماری مسجد اور مدرسے کو آگ لگائی ہے۔۔۔

باقاعدہ منصوبے کے تحت سینکڑوں بے گناہ لوگوں کو گرفتار کروایا گیا، اس واقعے کو شیعہ و سُنی بنا کر پیش کیا گیا۔۔۔ اور پھر اللہ بھلا کرے ہماری آئی ایس آئی اور سابق ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کا کہ جنہوں نے چار سال کی پیشہ وارانہ جدوجہد کے بعد اس سانحے کی حقیقت کو کھول کر رکھ دیا۔[1] پاکستان کے خلاف ایسی بھیانک سازش کرنے والے یہ کوئی سیکولر، لبرل یا بے دین لوگ نہیں تھے، بلکہ کٹر ملاں تھے اور ملاؤں کے ٹاؤٹ تھے۔ ایسے لوگ ہمیشہ جھوٹ سوچتے، جھوٹ بولتے، جھوٹے وعدے کرتے اور جھوٹ لکھتے رہتے ہیں، ان کا اوڑھنا بچھونا ہی جھوٹ ہے۔ حد ہوگئی ہے کہ اب انہوں نے مسلماتِ تاریخِ  پر بھی جھوٹ کی ملمع کاری شروع کر دی ہے۔ پہلے تو یہ کسی بھی قسم کا دن منانے کو بدعت، غم منانے کو گناہِ کبیرہ، مرنے والے کی یاد کو خرافات، شہید پر رونے دھونے اور جلسے جلوس نکالنے اور شہید کا یوم منانے کو گمراہی کہتے تھے، اسی طرح شہداء کا جلوس دیکھنے سے اِن کا نکاح ٹوٹ جاتا تھا اور کئی دفعہ تو یہ جلوسوں پر پتھراو کرواتے تھے، لیکن اب انہوں نے ایسا پینترا بدلا ہے کہ اللہ اللہ۔۔۔

اب انہوں نے بھی غم منانا شروع کر دیا ہے، اب یہ بھی بریلویوں اور شیعوں کے نقشِ قدم پر چلنا شروع ہوگئے ہیں، اب ان کے ہاں بھی متوفین، شہداء اور خلفاء کے جلوس نکالنے جائز بلکہ واجب ہوگئے ہیں۔ اب انہوں نے بھی جلوس نکالنے کیلئے جھوٹی موٹی تاریخیں مقرر کرنی شروع کر دی ہیں۔۔۔ یہ اپنے مفاد کیلئے جب چاہتے ہیں تو دین کے نام پر کسی بھی چیز کو حرام قرار دے دیتے ہیں اور پھر جب ان کے مقاصد پورے ہو جاتے ہیں تو پھر اُسی چیز کو اپنے اگلے مفاد کیلئے حلال کہہ دیتے ہیں۔ ان کا مفاد بدلتا ہے تو ان کا حرام و حلال بھی بدل جاتا ہے۔ پاکستان میں قائداعظم کو رافضی، پاک فوج کو ناپاک فوج اور پاکستان کو کافرستان کہہ کر دین کی آڑ میں ستر ہزار پاکستانیوں کو قتل کروانے والے یہ لوگ ہر روز نیا شوشہ چھوڑتے ہیں اور ہر روز نیا جھوٹ بولتے ہیں۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

بقولِ شاعر
خانہ جنگی کو سمجھتے ہیں بنائے ایماں
مرض الموت ہے جو اس کو دوا کہتے ہیں
یہ نصاریٰ کا خدا اور وہ علی شیعوں کا
ہائے کس ڈھنگ سے اچھوں کو برا کہتے ہیں
مقصدِ لَحمُکَ لَحُمِیُ پہ کھلی ان کی زباں
یہ تو اک راہ سے تجھ کو بھی برا کہتے ہیں
تیرے پیاروں کا جو یہ حال ہو اے شافعِ حشر
میرے جیسوں کو تو کیا جانیے کیا کہتے ہیں
بُغض لِلّٰہ کے پردے میں عداوت ذاتی
دین کی آڑ میں کیا کرتے ہیں، کیا کہتے ہیں
[1] https://dailypakistan.com.pk/21-Aug-2017/629849

Facebook Comments