• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • اقبال کا موقف اس کی نثر سے ثابت کرو(قسط1)۔۔ڈاکٹر محمد شہباز منج

اقبال کا موقف اس کی نثر سے ثابت کرو(قسط1)۔۔ڈاکٹر محمد شہباز منج

اقبال کے آخری زمانے کے اشعار سے جب ہم نے ثابت کر دیا کہ جناب آپ نے تصوف ، وحدت الوجود اورنام ور مسلم صوفیوں کی مخالفت کے لیے اقبال کو چن کر بڑی غلطی کی ہے۔ اس کے خلاف کوئی دلیل ہاتھ نہ لگی تو ارشاد ہوا کہ ” شاعری سے علمی موقف ثابت نہیں ہوتا، لہذا اقبال کا موقف ان کی نثر سے ثابت کیا جائے تو ہم مان لیں گے!”اپنے اس موقف کی تائید میں معترض موصوف نےفرمایا ہے کہ” اسرارِ خودی کے دیباچے میں یہ لکھا ہے جسے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی بتا رہے ہیں اس پر غور کیجیے”اس قابلِ مذمت تصوف نے مسلمانوں کے زوال میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مگرکیسے؟ اس کی وضاحت نثر میں ملتی ہے۔ علامہ اسرارِخودی طبع اوّل کے دیباچے میں بتاتے ہیں کہ زوال و انحطاط میں شنکر اچاریہ، ابن عربی اور وجودی ایرانی شعراکے نظریات اور شاعری نے بھی اپنا حصہ ادا کیا اور اس مسئلے نے عوام تک پہنچ کر تقریباً تمام اسلامی اقوام کو ذوقِ عمل سے محروم کر دیا۔(اسرارخودی طبع اوّل، بحوالہ مقالات اقبال، ص۱۵۵، ۱۵۶۔)

اگرچہ ہمیں کوئی خوش گمانی نہیں کہ وہ مان لیں گے، کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا، تاہم ایک دفعہ ان کی یہ خواہش بھی پوری کیے دیتے ہیں کہ اقبال کا مذکورہ موقف ان کی نثری تحریروں سے ثابت کیا جائے۔ معترض موصوف کی فرمائش تو ہم آگے چل کر ضرور پوری کریں گے، لیکن چلتے چلتے اس بات پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے چلیے کہ شاعری سے کوئی علمی موقف ثابت نہیں ہوتا۔ تو جناب اس بات کی دو جہتیں ہو سکتی ہیں :

ایک جہت یہ کہ یہ قاعدہ کلیہ ہے اور شاعری سے کہیں کوئی موقف ثابت نہیں ہوتا، اگر آپ کی مراد یہ ہے تو اس بڑھ کر مضحکہ خیز کوئی بات نہیں ہو سکتی ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اقبال کی تمام شاعری مہمل اور غیر علمی سرگرم ٹھہرے گی، جس سے دل لگی تو کی جا سکتی ہے، کوئی علمی و فکری رہنمائی نہیں لی جا سکتی۔اس صورت میں تو اقبالیات کے پورے ڈسپلن سے محققین کی جان چھوٹ جائے گی کہ جناب آپ ایسے ہی اس پر علمی و فکری توانائیاں صرف کر رہے ہیں ، یہ تو دل بہلانے کی چیز ہے، جسے کسی بوریت کے وقت گنگنا کر خوش ہو لینا چاہیے اور بس۔دوسری جہت یہ کہ شاعری میں شاعر کبھی کسی جگہ ایسے ہی شاعرانہ ترنگ میں یا تعلی وغیرہ سے کام لے کر کوئی ایسی بات کہہ جاتا ہے، جس کو اس کا حقیقی موقف نہیں سمجھنا چاہیے، اگر آپ کی یہ مراد ہے، تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ، لیکن اس صورت میں آپ کو یہ بہر حال ثابت کرنا پڑے گا کہ کس شاعر کی کوئی بات کہاں اس دائرے میں آتی ہے اور کہاں اس کے برعکس وہ اسے اپنے موقف اور نظریے کے طور پر پیش کر رہا ہے؟ تو جناب اگر آپ پہلی صورت کے قائل ہیں تو آپ کے لیے فرض ہو گا کہ آیندہ اقبال ہی نہیں کسی بھی شاعر کا کوئی شعر اس کے علمی موقف و نظریے کے طور پر پیش نہ کریں۔ اور اگر دوسری بات کے قائل ہیں تو اس میں ہم بھی آپ کا ساتھ دیتے ہیں، بشرطیکہ آپ یہ ثابت کریں کہ حلاج کے حوالے سے ہم نے جو اشعارپیش کیے تھے، جس پر آپ نے مذکورہ اعتراض اٹھایا، وہ واقعی اقبال کی شاعرانہ تعلی وغیرہ کی قبیل سے اور ان کا حقیقی موقف نہیں۔

اور یہ جو آپ نے فرمایا ہے کہ اسرارِ خودی کے مقدمے میں تصوف کی نفی کی گئی ہے۔ تو اس ضمن میں پہلے تو اپنے شعر اور علمی موقف والے اعتراض پر پھر ایک نگاہ ڈالتے چلیے کہ یہ بات اسرارِ خودی کے دیباچے میں کی گئی ، یعنی یہ دیباچہ شاعری کا ہے ،نثر کا نہیں، اور دیباچے میں اسی بات یا موقف کی وضاحت کی جاتی ہے، جو کتاب میں پیش کیا گیا ہو۔ قبل اس کے کا ہم اس تنقید کی حقیقت اور سیاق و سباق بیان کریں، آپ اپنے موقف پر (کہ علمی موقف نثر میں ہوتا ہے شاعری میں نہیں ) نوحہ پڑھتے چلیے۔ حضورِ والا! اس کے مقدمے میں تصوف پر تنقید اسی لیے تو کی گئی کہ اس مثنوی میں شعروں کے اندر بھی تصوف پر تنقید کی گئی تھی۔اگر شعرکوئی علمی موقف نہ ہوتے ،تو اس کے دیباچے میں بات کو موکد کرنے کی ضرور ت کیا تھی؟ مزید سنیے، اسرارِ خودی میں اقبال کے افکار پر صوفیوں کے حلقے سے شدید ردعمل آیا، جس میں خواجہ حسن نظامی کا سخت ردعمل مشہور ہے، تو اقبال نے خواجہ حسن نظامی سمیت مختلف لوگوں کو مختلف خطوط اور نثری تحریروں میں وضاحت دینے کی کوشش کی کہ ان کی تصوف پر تنقید کو صحیح تناظر میں لیا جائے۔مثلاً 1918ء میں اکبر الہ آبادی کو ایک خط میں واضح کیا کہ میں نے فی الواقع عجمی تصوف اور صوفیوں کی انھی چیزوں پر تنقید کی ہے ،جو قابلِ اصلاح ہیں اور ایسی تنقیدیں کوئی نئی بات نہیں ، خود صوفیوں مثلاً  جنیدبغدادی وغیرہ کی طرف سے بھی ہوتی رہی ہیں۔اس خط میں زیر بحث نکتے کے حوالے سے اہم چیز یہ ہے کہ اقبال اکبر سے گلہ کر رہے ہیں کہ آپ نےیوں لگتا ہے اسرار ِ خودی کے صرف وہی اشعار دیکھے ہیں جو حافظ شیرازی سے متعلق تنقید کا پہلو رکھتے ہیں، باقی اشعار پر نظر نہیں فرمائی۔(ملاحظہ ہو:شیخ عطا ء اللہ ، اقبال نامہ، جلد دوم ، ص 34) اب دیکھیے اگر شعر سے کوئی علمی موقف ثابت نہیں ہوتا تو اقبال یہ واضح کرنے کی بجائے کہ آپ صرف حافظ سے متعلق اشعار دیکھ کر میرا مطلب پورا نہیں لے رہے، دیگر اشعار بھی دیکھتے تو آپ کو بات پوری سمجھ آتی ، صرف یہی کہہ کر جان چھڑا لیتے کہ یار! آپ ایسے ہی پریشان ہو رہے ہیں ، یہ تو بس شاعری ہے، علمی موقف تھوڑی ہے ، جو تم میرے پیچھے پڑے ہو! لیکن ہمیں اس حوالے سے اقبال کی وضاحتوں میں ایسا کوئی تاثر سرے سے دکھائی نہیں دیتا ،جس سے واضح ہے کہ وہ شاعری میں اپنا علمی موقف پیش کرتے تھے، نہ کہ یہ محض دل لگی ہوتی تھی۔

اب آئیےاس بحث کی طرف کے انھوں نے نثر میں تصوف کی نفی کی، جیسا کہ اسرارِ خودی کے مقدمے سے واضح ہے۔ تو جناب آپ کو یہ غلط فہمی اس وجہ سے ہے کہ نہ آپ کو تصوف ، ابن عربی اور وحدت الوجود سے متعلق اقبال کی حقیقی پوزیشن کی تحقیق ہے، نہ اس بارے میں ان کے ارتقائی نظریات و افکار کا کچھ علم ہے۔
اگر آپ نے اس بارے ذرا بھی تحقیق کی ہوتی تو آپ جاوید نامہ اور ضرب کلیم کی تردید کےلیے اسرارِ خودی کا سہارا ہر گز نہ لیتے۔ اس لیے کہ جاوید نامہ اور ضرب کلیم اسرارِ خودی کے بہت بعد میں شائع ہوئیں ۔ اور کسی بھی شخصیت کا اصل موقف بعد والا ہوتا ہے نہ کہ پہلے والا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرارِ خودی میں اقبال نے تصوف اور صوفیہ پر سخت گرفت کی۔ لیکن اس ضمن میں یہ بات ذہن نشیں رہے کہ ایک تو یہ تنقید کسی مخالف اور دشمنِِ تصوف کی نہیں تھی، بلکہ تصوف کے ہمدرد کی تھی ، جو اس میں راہ پا جانے والی خرابیوں کی اصلاح کرنا چاہتا تھا، جیسا کہ اکبر کے نام مذکورہ خط سے مترشح ہو رہا ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ اسرارِ خودی 1915ء میں شائع ہوئی ۔ یہ وہ زمانہ ہے جب اقبال کا وہ دور چل رہا تھا ، جب وہ تصوف اور صوفیہ کے سخت خلاف دکھائی دیتے ہیں، لیکن کچھ عرصہ بعد ان کی فکر میں اس حوالے سے سخت تبدیلیاں رونما ہوئیں(جیسا کہ حلاج کے حوالے سے ہم نے اپنی گذشتہ تحریر میں حوالہ بھی دیا ہے)۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال تصوف اور وحدت الوجود کے حوالے سے تین اہم ادوار سے گزرے ہیں: پہلا دور ان سے تعلق اور وارافتگی کا تھا، دوسرا ان سے دوری اور اس کی مخالفت کا اور تیسرا پھر اس کی طرف واپسی کا۔ اب ذرا اس ارتقا کی ایک جھلک دیکھیے:

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

ڈاکٹر شہباز منج
استاذ (شعبۂ علومِ اسلامیہ) یونی ورسٹی آف سرگودھا،سرگودھا، پاکستان۔ دل چسپی کے موضوعات: اسلام ، استشراق، ادبیات ، فرقہ ورانہ ہم آہنگی اور اس سے متعلق مسائل،سماجی حرکیات اور ان کا اسلامی تناظر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply