لوکل مارکیٹ۔۔شہباز الرحمن خان

ہندوستان میں Amol کے 300  پراڈکٹ ہیں جو ہندوستان کی لوکل مارکیٹ کو نہ صرف سہارا دیتے ہیں بلکہ غریب کی قوت خرید میں ہیں ۔کوالٹی میں عالمی پراڈکٹ سے کسی صورت کم نہیں اور اس طرح آٹو موبائل انڈسٹری میں ہندوستان خود کفیل ہے۔ بہت مناسب قیمت اور معیار کے مطابق قوت خرید ہے ۔میں اکثر اوقات یوٹیوب کی مدد سے دنیا کے مختلف ممالک کی پارلیمنٹ کے اجلاس اور اس میں ہونے والی بحث سنتا ہوں، جس سے مجھے بہت سیکھنے کا موقع  ملتا   ہے اور عالمی طاقتوں کو درپیش مسائل کی آگہی حاصل ہوتی  ہے، کس طرح عوام کے منتخب کردہ نمائندے اس  کا حل تلاش کرتے ہیں۔

کرونا وائرس نے ہندوستان کی معیشت کو نچوڑ کر رکھ دیا ہے، مودی سرکار نے پارلیمنٹ میں تجویز دی ہے کہ  ہندوستان معاشی طور پر تباہی کی طرف ہے حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے شدید ردعمل دیا اور راہول گاندھی کا کہنا  تھا ہم کسی صورت اپنی لوکل مارکیٹ میں عالمی سرمایہ  داری نظام کو داخل نہیں ہونے دیں گے،کیونکہ جو 1 ڈالر لگائے گا وہ دس ڈالر کمائے گا ہمارا روپیہ کمزور ہے اس سے ملکی پیداوار کم ہو جائے گی اور ہندوستان میں غریب مر جائے گا ۔میں سوچ رہا تھا اتنا پُر اعتماد لیڈر صرف اس صورت میں ممکن ہوتا ہے جب اس کو اپنے ملکی سرمایہ دارو ں پر بھروسہ ہو ،ہندوستان اس وقت گوشت کی ایکسپورٹ میں دنیا کے دوسرے نمبر پر ہے۔ ہندوستان میں گائے کے بیوپار پر سخت پابندی عائد ہے، شاید یہی وجہ ہے بیف کی پروڈکشن میں  اوّل درجے تک پہنچنا اور قائم رہنا معمولی بات نہیں ۔دنیا میں پہلے نمبر پر بیف پروڈیوسر ملک برازیل ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے لوکل مارکیٹ کو کس طرح اٹھایا جائے، لوکل مارکیٹ میں سب سے اہم کردار لوکل انویسٹر کا  ہوتا ہے جس کا سرمایہ ملک سے ہی کما کر ملک میں ہی خرچ ہوتا ہے اس کی جائیداد اور بنک بیلنس سب ملک میں ہوتا ہے اور وہ اپنی اشیاء کا معیار عالمی معیار کے مطابق اور عوام کی قوت خرید کا ادراک رکھتے ہوئے طے کرتاہے۔

پاکستان کبھی ترقی نہیں کرے گا۔۔ بہت تکلیف دہ بات ہے، لیکن اسکی وجہ ہے ایک تو  یہاں ایک نہیں بہت زبانوں کے لوگ رہتے ہیں دوسری بات اور یہ لوگ زبانوں میں ہی نہیں مذہب اور مسلک کے ساتھ ساتھ  طبقاتی تفریق میں جکڑے  ہوئے ہیں۔ سب سے اہم بات کوئی ایک چیز نہیں جو سب کو ایک نقطے پر متحد کردے کسی بھی ریاست کو چلانے کا کوئی نہ کوئی طرزِ حکومت ہوتا ہے پاکستان میں   کوئی نظام نہیں ،مکمل مارشل لاء ہے نہیں صدارتی نہیں جمہوری نہیں بادشاہت ہے۔

ایک آزاد اور خودمختار نظام معاشرے کو آزاد معیشت دیتا ہے پاکستان میں کبھی کوئی مذہبی جماعت کا   صدر نہیں  آیا ،اور نہ  کبھی وزیراعظم اور شاید کبھی نہیں آئے گا، کیونکہ اسٹبلشمنٹ پاکستان کے سماج میں جہاد کے روپ میں اور کبھی ترقی پسند سوچ کو محدود رکھنے کے لئے استعمال تو  کرتی ہے لیکن ایک مولوی کو UN میں پاکستان کا مقدمہ پیش کرنے نہیں بھیج سکتی، یہ ایک الگ بحث ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہم جتنا وقت اور طاقت مغرب اور غیر مسلم کو بُرا بھلا کہنے میں برباد  کرتے ہیں اگر اس کا آدھا بھی اپنی اشیاء کو مناسب قیمت اور معیاری کوالٹی سے آراستہ کرتے تو  آج ہماری دی ہوئی قیمتوں سے مغرب کی منڈیاں گرم نہیں ہوتیں ۔

Facebook Comments

شہباز الرحمٰن خان
شہباز الراحمن خان سابق ڈپٹی جنرل سیکریٹری پیپلز پارٹی برائے نوجوان کراچی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply