دکھ، درد، تکلیف محرک نہیں ۔ ۔عدیل ایزد

دکھ، درد، تکلیف ! اکثر ہم ان سب کیفیات سے کوسوں دور ہو کر بھی ایسا کیوں ظاہر کرتے ہیں جیسے ہم بے حد تکلیف سے گزر رہے ہوں؟

کیوں کہ  ہم  ریلیوینٹ (Relevant)   لگنا چاہتے ہیں۔ ۔ہم  یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ  ہم بھی ان لوگوں کی طرح ہیں جن کو ہم پسند کرتے  ہیں یا جن کو ہم فالو کرتے ہیں ان جیسا بننا چاہتے ہیں ۔

جیسے جب ہم برینڈڈ کپڑے  نہیں خرید پاتے ہیں تو ہم انہی برینڈز کے ڈپلیکیٹ (Duplicate) کپڑے خرید لیتے ہیں سو، دو سو میں۔ ۔کیوں کہ  ہم بھی ریلیوینٹ  (Relevant) محسوس کرنا چاہتے ہیں نئے فیشن  سٹائل سے  کہ ہم آؤٹ ڈیٹڈ نہیں ہیں ہمارا تعلق بھی اسی معاشرے سے ہے ۔ہم بھی اسی مین اسٹریم فیشن سے تعلق رکھتے ہیں۔ کیوں کہ  ارریلیوینٹ (Irrelevant) ہونا کسی کو بھی پسند نہیں ہے۔ ۔ سب چاہتے ہیں کہ ان کو نوٹس کیا جائے ، ان کو دیکھا جائے ، ان کی طرف بھی توجہ دی جائے۔

ہم سب خاص طور پر نوجوان، کامیاب اور مشہور لوگوں کی  تکلیف اور جدوجہد پر  ضرورت سے زیادہ توجہ دیتے ہیں۔اور بس اسی چیز سے تحریک  (Motivation) پکڑتے ہیں تاکہ ہم سب بھی ریلیوینٹ محسوس کر سکیں۔

ہم سوچتے ہیں کہ ہم بھی دکھ، درد، تکلیف سے گزر رہے ہیں توہم بھی کچھ بڑا کر رہے ہیں۔آج کے دور میں تحریک کا مطلب ہی دکھ، درد، تکلیف اور جدوجہد ہوگیا ہے۔

آپ کوئی بھی موٹیویشنل وڈیو دیکھ لیں وہاں بھی انہی  چیزوں پر زور دیا جاتا ہے۔۔لوگ خود کی بھی کہانی جب بیان کرتے ہیں تو اپنی ماضی کی مشکلات کو زیادہ  ہائی لائٹ کرتے ہیں۔کیسے میں یہاں تھا، تو وہاں تھا ، ایسے تھا، ویسے تھا۔۔۔ حتیٰ  کہ  بائیو گرافکل موویز  (Biography Movies) بھی  تکلیف کو بڑھا چڑھا کر دکھاتی ہیں۔کیوں کہ  یہ چیز بکتی ہے لوگ تکلیف سے آسانی سے ریلیٹ (Relate) کر لیتے ہیں تعلق بنا لیتے ہیں۔جدوجہد ہر کسی کی زندگی کا حصہ ہے۔ چاہے آپ کچھ کرو یا نہ کرو آپ کی زندگی میں چھوٹے بڑے مسائل تو آنے ہی ہیں۔ اور اس کلچر کی وجہ سے نوبت یہ ہے کہ آج لوگ کامیاب اور مشہور شخصیات کو ان کے کام کی وجہ سے کم اور ان کی تکالیف کی وجہ سے زیادہ جانتے ہیں۔

ایڈسن بلب بنانے کی بجائے آج اس وجہ سے زیادہ مشہور ہیں کہ وہ ایک ہزار بار بلب بنانے میں فیل ہو گئے تھے۔

البرٹ آئن سٹائن چار سال تک ٹھیک سے بول نہیں سکتے تھے ۔ ۔

نکولا ٹیسلاکے خلاف  سازش ہوئی تھی  بہت لوگ انھیں بس اس لیے جانتے ہیں۔

اور اسٹیفن ہاکنگ کو بس ایک مفلوج سائنسدان کے نظریے سے دیکھتے ہیں۔۔ان کی تھیوری کیا تھی؟ انھوں نے کیا نئی چیز دریافت کی؟ وہ کا م کس طرح سے کرتے تھے؟ ۔ ۔ ۔ لوگوں کو اس کی پرواہ نہیں۔

اگر ہماری پینٹگز نہیں بک رہیں ، تو ہم یہ سوچیں گے کہ  پابلو پکاسو (Pablo Picasso) کی بھی پہلی سات پینٹگز نہیں بکی تھیں۔ میری کتاب پبلش نہیں ہو رہی تو  میں کہوں گا کہ جے کے رولنگ (J. K. Rowling) (شاہکار ناول ہیری پوٹر کی مصنفہ) کی کتاب کو بھی پہلے چار پبلشرز نے انکار کر دیا تھا۔

وہ بھی ڈسلیکس (Dyslexic) تھے یا وہ بھی معذور تھے۔انھیں بھی کوئی لڑکی چھوڑ کر چلی گئی تھی ، وہ بھی غریب تھے۔ ۔ ۔ ایسا سوچ کر ہمیں آگے بڑھنے کا حوصلہ تو مل جا تا ہے ۔ ۔ ہم اپنی بری حالت کو جسٹیفائی (Justify) تو کر لیتے ہیں  لیکن صرف یہ جدوجہد ، درداور تکلیف یاد رکھنے کی وجہ سے ان کامیاب اور مشہور شخصیات  کی زندگی کا ایک اہم پہلو نظرانداز کردیتے ہیں۔ ۔ ۔ ان لوگوں نے جدوجہد تو کی، بہت سی مشکلات کا سامنا بھی   کیا لیکن انھوں نے اپنے کام کو انجوائے کیا ؟اُس سے محفوظ ہوئے؟

فن (Fun) ۔۔۔۔یہ لفظ ان سب کی شخصیت میں مشترک ہے بالکل جدوجہد کی طرح۔ چاہے وہ سائنسدان ہو یا کاروباری شخصیت یا پھر کوئی آرٹسٹ۔ ۔ ان سب نے اپنے کام، اپنی ایجاد اور اپنے آرٹ کو انجوائے کیا۔

فن کسی بھی عظیم کام کی بنیاد ہے۔ اگر ایڈسن کو بلب بنانے میں مزہ نہ آرہا ہوتا تو وہ ایک ہزار بار فیل ہونے سے پہلے ہی بلب بنانے کا ارادہ ترک کر دیتا۔ ۔ ۔ ۔

اگر البرٹ آئن سٹائن سے کچھ سیکھنا ہے تو  یہ سیکھو  کہ اس نے ٹائم اور خلا میں دلچسپی  لی ۔ ۔ ۔  کسی بھی کام میں فن  (Fun) سب سے اہم ہے۔ ۔  کسی بھی بڑی ایجاد میں فن کا ہونا ضروری ہے ۔ ۔ ۔اس میں کوئی شک نہیں باقی چیزیں بھی اہم ہیں۔۔ جیسا میں نے کہا جدوجہدسے ہمیں آگے بڑھنے کا حوصلہ ملتا ہے امید ملتی ہے لیکن  اگر آپ اپنے کام میں مزہ نہیں لے رہے تو اس کام کو کرنے کا کوئی مطلب ہی نہیں رہے گا۔۔اور اگر آپ اپنے کام انجوائے کر رہے ہو تو آپ کسی بھی  مشکل کو جھیل سکتے ہو۔

اس لیے دکھ، درد، تکلیف اور جدوجہد پر فوکس کرنے کی بجائے، ہمیں اپنے کام میں دلچسپی پر فوکس کرنا ہو گا۔ ۔ ۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے کام کو انجوائے کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہمیں وہ کام کرنا چاہیے جس  سے ہمیں مزہ آتا ہے!

Facebook Comments

عدیل ایزد
قاری اور عام سا لکھاری...شاگردِ نفسیات

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply