سوال کرنا جُرم کیوں ؟۔۔میر افضل خان طوری

شخصیت  سازی کیلئے ضروری ہے کہ انسان میں سوال کرنے کی بہترین صلاحیت موجود ہو۔ انسان کی معاشرتی زندگی کا آغاز سوال سے ہی ممکن ہوا۔ انسان سازی کا ارتقاء سوال کے بغیر ناممکن ہے۔ جب تک انسان سوال نہیں اٹھائے گا اس کو جواب مل ہی نہیں سکتا۔

ہزاروں برس پہلے قدیم یونان میں فلسفے کا آغاز سوال ہی سے ہوتا ہے۔ مشہور یونانی فلسفی سقراط کی ساری گفتگو مبنی بر سوال ہوا کرتی تھی۔ سچائی کیا ہے؟ میں کون ہوں؟ میری زندگی کا مقصد کیا ہے ؟ انسان اس دنیا میں کب سے ہے؟ کب تک رہے گا؟ اس کائنات کی وسعت کتنی ہے؟ دن اور رات کیوں آتے ہیں؟ سورج مشرق سے نکل کر مغرب میں غروب کیوں ہوتا ہے؟ مادہ کیا ہے؟ روح کیا ہے؟ اچھائی کیا ہے؟ سچائی کیا ہے؟

اس طرح کے بہت سے سوالات تھے جو انسان کے ذہن میں پیدا ہوتے تھے۔ اور انسان ان کا جواب تلاش کرنے کی کوشش میں لگا رہتا تھا۔ سوال کرنے کی آزادی نے اس وقت کے یونان میں تہذیب اور تمدن کی بے مثال شمع روشن کی۔ انسان نے مختلف چیزوں کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ اس طرح انسان ترقی اور خوشحالی کے منازل طے کرتا گیا۔

قدیم فلسفے کی ابتداء ہی سوال سے ہوئی ہے۔ اس کی مثال ایک چھوٹے سے بچے کی طرح ہے۔ وہ ہر چیز کے بارے میں سوال کرتا ہے۔ ہر سوال کا جواب بچے کی ذہنی نشونما میں اضافہ کرتا ہے۔ یہ سلسلہ ساری زندگی جاری رہتا ہے۔ انسان سازی کیلئے ضروری ہے کہ انسان مسلسل سوالات اٹھا تا رہے اور ان کے جوابات سے سیکھتا رہے۔

دنیا کی ہر ترقی یافتہ قوم کی سب سے بڑی خوبی یہی ہوتی ہے کہ وہاں پر سوال کرنے کی پابندی نہیں ہوتی۔ انسان جب تک سوال نہیں اٹھائے گا جواب اس وقت تک نہیں مل سکتا۔ دنیا کا کوئی بھی محقق ، فلسفی اور سائنسدان اپنی تحقیق کا آغاز سوال سے ہی کرتا ہے۔ جب وہ سوال کرتا ہے تو اس کا ذہن جواب تلاش کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔

ہمارے ملک کی سب سے  بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں پر سوال کرنا آپ کا سب سے بڑا جرم بن جاتا ہے۔ آپ کا سوال آپ کےلیے مسائل کے انبار کھڑے کر دیتا ہے۔ اس ملک میں نوجوان سے سوال کرنے کی صلاحیت سلب کر لی گئی  ہے۔ ہمارے نوجوان کو اپنی ذات ، اپنی زندگی اور اپنے معاشرتی مسائل کے بارے میں سوال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ان کی ذہنی نشوونما کو زبردستی روک دیا گیا ہے۔ ہمارے نوجوان کا ذہن وہی سوچتا ہے جس کا اس کو حکم دیا جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بقول ایک سیدہ عارفہ زہرا ” جو معاشرہ سوال کرنا بھول جاتا ہے وہ جواب کیسے ڈھونڈے گا”۔
یہی وہ بنیادی نقطہ ہے جس کی وجہ سے ہمارا نوجوان اس ملک میں کچھ نیا کرنے سے قاصر ہے۔ ہمارے نوجوان کی ذہنی استعداد کو مقید کر دیا کیا ہے۔ اس کو جو نصاب پڑھایا جاتا ہے۔ اس سے آگے ان کو سوچنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا نوجوان اپنے کمال تک نہیں پہنچ پاتا۔ نوجوان نسل میں کچھ نیا کرنے کی طاقت ختم ہو چکی ہے۔ عروج کا سفر رک گیا ہے۔
جب تک ہمارے ملک میں دوسری  ترقی یافتہ قوموں کی طرح سوال اٹھانے کی آزادی نہیں ہوگی۔ ہم کبھی بھی دنیا میں ترقی یافتہ اور مہذب قوم نہیں بن سکیں گے۔ اور نہ ہی باقی اقوام میں   باعزت مقام حاصل کرسکیں گے۔
جن معاشروں میں سوال کرنے کی آزادی نہیں ہوتی وہ پورا معاشرہ غلام ہوتا ہے اور غلاموں کی دنیا میں کوئی قدر اور عزت نہیں ہوتی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply