• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مخلوط اداروں میں جنسی تشدد کا بڑھتا رجحان۔۔انعام الحق عفااللہ عنہ

مخلوط اداروں میں جنسی تشدد کا بڑھتا رجحان۔۔انعام الحق عفااللہ عنہ

ہمارے معاشرے  کے   کھوکھلے پن اور  اخلاقی طور پر  دیمک زدہ ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ استاد اور شاگرد کے درمیان وحشت اور عدم اعتماد کی فضا پائی جارہی ہے۔

ایک طرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کا وہ مشہور قول ہے کہ جس نے مجھے ایک حرف بھی سکھایا وہ میرااستاد اور آقا ہے میں اسکا شاگرد اور غلام ہوں وہ چاہے تو مجھے آزاد کردے اور چاہے تو مجھے غلام ہی رکھے۔۔

دوسری جانب آج کے مسلم معاشرہ کی یہ تصویر ہے کہ عصری اداروں میں طلبہ کی جانب سے اساتذہ کی درسگاہوں کے اندر  پٹائی  کی  جاتی ہے ،رُسوا کیا جاتا ہے۔

اور تیسرا خوفناک پہلو یہ ہے کہ اساتذہ کا اخلاقی گراف خطرناک حد تک گرنے کی وجہ سے طالبات کی جانب سے اپنے اساتذہ پر متعدد اور پے درپے اخلاقی پراگندگی کے الزامات میڈیا پر آرہے ہیں
گزشتہ دنوں کراچی یونیورسٹی کی پی ایچ ڈی کی نادیہ نامی طالبہ نے خودکشی  کی،جس کو مبینہ طور پر ایک پروفیسر کے غیراخلاقی رویہ سے جوڑا جارہا ہے۔

طالبات کی رپورٹ شکایات کی شرح ایک یونیورسٹی کی  سطح پر بھی خوفناک حدوں کو چھورہی ہے۔

بی بی سی کی2017کی ایک رپورٹ کے مطابق پشاور کی تین یونیورسٹیوں میں محض سات ماہ کے دورانیہ میں سات سو شکایات جنسی ہراساں کرنے کی طالبات کی جانب سے رپورٹ کی گئیں، جس کا مطلب یہ ہوا کہ اوسطاً فی ماہ سو شکایات رپورٹ ہورہی ہیں اور 22ورکنگ ڈے کے حساب سے شکایات کی شرح فی دن پانچ کیسز کے قریب ہے اور یہ صرف رپورٹ کیسز کی شرح ہے باہمی رضامندی کی وجہ سے یابے عزتی سے بچنے کی وجہ سے رپورٹ نہ ہونے والے کیسز کی شرح اس سے کہیں زیادہ ہے۔

کراچی یونیورسٹی کی طالبہ نادیہ کی خودکشی نے پاکستانی معاشرہ کو جھنجوڑا ہے کیونکہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے ردعمل میں خودکشی کرنا ، انتہائی بے بس اور  مظلومانہ موت ہے جس پر انکے لواحقین  کو پہنچنے والے صدمے  کا اندازہ کوئی نہیں کرسکتا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ان اسباب پر غور کیا جاۓ جو ان اخلاقی گراوٹ کے محرکات ہیں۔
اس سلسلہ میں اگر قرآنی آفاقی تعلیمات پر غور کیا جاۓ توہمیں اس کا حل مل سکتاہے۔

سپارہ 22کے اوائل میں اللہ تعالی ازواج مطہرات کو مخاطب  کرکے  پوری امت کی صنف نازک کو ہدایات دے رہے ہیں کہ فلاتخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبہ مرض وقلن قولا معروفا۔۔۔
کہ مردوں کے ساتھ گفت وشنید میں ایسا انداز   نہ اپناؤ جس کی وجہ سے عورتوں کی طرف میلان کے  مریض کودلچسپی پیدا ہو اور یہ امید لگ جاۓ کہ وہ اپنی بُری خواہشات کی تکمیل کرسکتا ہے۔

آج اگر ہم معاشرہ پر نظر ڈالیں تو معاشرہ کا مخلوط ماحول اور مخلوط نظام تعلیم پردہ کو بنیادپرستی کا کانسپٹ دینے کی سوچ ہی وہ اسباب ہیں جس نے قوم کی بچیوں کی عزت داؤ  پر لگادی ہے اور تو اور وہ اپنے استاد سے بھی محفوظ نہیں ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے معاشرہ کو مسلمان معاشرہ کی تصویر میں عملاً  ڈھالیں، شریعت نے مرد وزن کے  لیے نامحرم اور محرم کی جو حدود قائم کی ہیں اس کی پاسداری کریں، پردے  کو اپنےکلچر کا حصہ بنانے میں کردار ادا کریں۔
اللہ تعالی ملک وقوم کی بچیوں کو عفت اور پاکدامنی کی لازوال نعمت سے مالا مال کرے !

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply