مدارس اور اُردو۔۔۔مبصر: غازی سہیل خان

نام کتاب:۔ مدارس اور اُردو
مرتب و ناشر:۔ ڈاکٹر فیض قاضی آبادی
سنہ اشاعت:۔2019ء
صفحات:۔352،قیمت:۔479
مطبع:۔ایچ ایس آفسیٹ پرنٹرز،دہلی
گزشتہ دچند روزسے”مدارس اور اُردو“ نامی کتاب زیر مطالعہ تھی۔کتاب میں اُردو زبان وادب کے فروغ و اشاعت میں سیر حاصل گفتگو مختلف مضامین کی صورت میں کی گئی ہے۔جیسا کہ ہم سب اس بات کو جانتے ہیں کہ اُردو کا جنم ہندوستان میں ہوا،پلی اور بڑھی بھی یہ زبان متحدہ ہندوستان میں ہی ہے۔اس زبان کو گنگا جمنی تہذیب کی نمائندہ زبان بھی کہا جاتا ہے۔جہاں اس زبان کی جنم بھومی تھی وہاں ہی سے اس کو دیس نکالا دینے کی بہت ساری ناکام کوششیں کی گئی جو تاحال ناکام ہی ثابت ہوئیں۔کبھی اس زبان کو شاطر سیاست دانوں نے مذہب کے ساتھ جوڑا تو کبھی سماج کے دشمنوں نے اس کو پاکستانی اور مسلمانوں کی زبان کہہ کے عوام کو اس زبان کی خوبصورتی سے متنفر کرنے کی کوشش کی۔آزادی کے بعد ہندوستان میں اس زبان پہ خوب سیاست کی گئی جو آج بھی جاری ہے لیکن اس زبان کا امتیاز یہ ہے  کہ یہ ہزار بار مارنے سے نہیں مری بلکہ زندہ اور تابندہ ہے، وہیں ہندوستان کے مدارس کارول اس زبان کے لئے آکسیجن سے کچھ کم نہیں۔
اسی موضوع کو لے کے کشمیر کے ایک عاشق اُردو ڈاکٹر فیض قاضی آبادی نے مدارس اور اُردو کے موضوع کو لے کے ایک بہترین کتاب مرتب کر کے محبان اُردو کو ایک اُمید دلائی ہے کہ یہ زبان تب تک نہیں مر سکتی جب تک یہاں کے مدارس اس کو اپنائے ہوئے ہیں۔موصوف نے اس کتاب کو دو حصوں میں مرتب کیا ہے اور کتاب اُردو زبان و تعمیری ادب کی خدمت کرنے والوں کے نام منسوب کی ہے۔پہلے حصے میں مجموعی طور مدارس کا اردو زبان کے حوالے سے کردار پر منفرد قسم کے مضامین شامل ہیں اور دوسرے حصے میں چند مدارس کا خصوصی طور اُردو زبان کے لئے خدمت پہ مضامین کی صورت میں روشنی ڈالی گئی ہے۔کتاب کے مشمولات پہ بات کرنے سے پہلے تمہیداً تقریظ،مقدمہ،کلمات تحسین،تاثرات اور اپنی بات عناوین کے تحت علماء اور مفکرین نے کتاب اور مرتب کے بارے میں اپنے اپنے خیالات کا اظہارا کیا ہے۔

ہم اب سیدھا کتاب کے مضامین پہ آتے ہیں۔پہلے حصہ میں پہلا مضمون مفتی نظیر احمد قاسمی نے اُردو کی بقا اور ترویج میں مدارس اسلامیہ کا ممتاز کردار عنوان کے تحت لکھتے ہوئے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح سے اردو زبان کو زندہ رکھنے کے لئے مدارس کا کردار رہا ہے اور ہندوستان میں درجنوں زبانیں بولنے کے باوجود مدارس میں ذریعہ تعلیم اُردو ہی ہے۔اُردو زبان کو سیکھنا،پھیلانا اس کی بقا و تحفظ کے متعلق محترم موصوف نے مولانا اشرف علی تھانویؒ کا ایک فتویٰ بھی پیش کیا ہے جس میں مولانا نے لکھا ہے کہ ”اُردو زبان کی حفاظت (چونکہ) دین کی حفاظت ہے اس بنا پر (اس زبان کی)حفاظت حسب استطاعت واجب ہوگی اور باوجود قدرت کے اس میں غفلت اور سستی کرنا مصیبت (بھی ہوگی)اور موجب مواخذۂ آخرت (بھی) ہوگا۔دوسرے مضمون کا عنوان اُردو اور دینی مدارس عالمی تناظر کی روشنی میں عنوان کے تحت مفتی محمد اسحاق نازکی قاسمی نے اُردو کی عالم گیریت پہ گفتگو کی ہے جس میں انہوں نے مثالوں سے بھی یہ سمجھایا ہے کہ کس طرح سے دنیا کے مختلف ممالک سے یہاں کے مدارس میں طلبہ تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں اور اُن کو بھی پہلے اُردو سیکھائی جاتی ہے پھر اُن کی اسی زبان کے ذریعے تعلیم کے نور سے منور کیاجاتا ہے،اسی طرح سے تبلیغی جماعت کا دنیا کے کونے کونے میں پہنچنا اور پھر وہاں بھی اُردو زبان کو ذریعہ دعوت و تبلیغ بنانا بھی اُردو زبان کی عالمگیریت کو بیان کرتا ہے۔تیسرے مضمون میں مدارس اسلامیہ اور اُردو کا لسانی استحکام میں پروفیسر ابو الکلام قاسمی نے مختصر لیکن جامع انداز میں یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ایک مدرسے میں محض ابتدائی تین چار سال میں ایک طالب علم کی لسانی بُنیادیں خاصی مستحکم ہو جاتی ہیں۔اگلے مضمون میں حقانی قاسمی نے اپنے مضمون بعنوان اُردو مطالعات اور مدارس میں بتایا ہے کہ کس طرح سے مدارس نے اُردو کے رسم الخط کی حفاظت کی ہے۔ہم سب یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ کس طرح سے آج کچھ نام نہاد محبان ِاُردو بھی دشمنان اُردو کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اُردو کے رسم الخط کو بدلنے سے ہی یہ زبان ترقی کر سکتی ہے۔موصوف نے آگے چل کے اپنے مضمون میں اُردو زبان و ادب کے فروغ و ارتقاء میں مدارس کا کردار اور اہمیت کے حوالے سے لکھا ہے کہ ”صرف برصغیر ہی نہیں بلکہ بیرون ممالک میں بھی ان مدارس کے فیض یافتہ فضلائے کرام نے اُردو کی شمع کو جلائے رکھا ہے اور اُن خطوں کو بھی اُردو سے روشناس کیا ہے جو لسانی اور تہذیبی اعتبار سے کلی طور مختلف ہیں،اس طرح بہت سے علاقوں میں اُردو مذہبی،سماجی اور ثقافتی شناخت کا ذریعہ بھی بن گئی ہے۔جنونی افریقہ اس کی نمایاں ترین مثال ہے جہاں اُردو کو Religious lingu Francaکی حیثیت حاصل ہے پروفیسر حبیب الحق ندوی نے اپنے مضمون،جنوبی افریقہ میں اُردو کے متعلق لکھا ہے کہ ”ڈربن میں پانچ عظیم مراکز ہیں جہاں اُردو ذریعہ تعلیم ہے۔درجنوں مدارس ہیں جن کے اساتذہ زیادہ تر ہندوستانی مدارس،مثلاً دیوبند،راندھر،ڈابھیل کے فارغین ہیں“۔ان اساتذہ کی وجہ سے جنوبی افریقہ میں اُردو کو فروغ حاصل ہوا۔آگے چلتے ہوئے ڈاکٹر واثق الخیر نے ہندوستانی مدارس اور اُردو زبان کا فروغ اور ڈاکٹر عزیر اسرائیل نے اردو زبان کے فروغ میں مدارس کا کردار کے عنواین کے تحت مفصل انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ایک اور مضمون بعنوان ہندوستانی مدارس اور اردو ماضی حال اور مستقبل میں توقیر راہی نے ہندوستان میں آزادی سے پہلے اور بعد میں بڑی بڑی عظیم علمی و ادبی شخصیات گُزری ہیں جن ہوں نے اپنے قلم و تقریرمیں اردو زبان کو ہی استعمال کیا۔ان ہی مداراس کی اہمیت کے حوالے سے موصوف نے اپنے مضمون میں ڈاکٹر اقبال کی مدارس کے متعلق ایک پیش گوئی کو بھی شامل کیا ہے۔

ایک اور مضمون مدارس اسلامیہ:اردو زبان کی تعلیم کا سب سے بڑا نیٹ ورک میں خوشتر نورانی نے تفصیلاً اپنے مضمون کے حوالے سے بات کی ہے اور اگلے مضمون میں ڈاکٹر جوہر قُدوسی نے مدارس اور دینی رسائل کے عنوان میں بڑی ہی عرق ریزی سے برصغیر کے دینی رسائل کے نام درج کیے ہیں۔ڈاکٹر محمد سراج اللہ نے اپنے مضمون بعنوان مدرسہ پس منظر کے ممتاز اردوصحافی (ماضی کے جھروکے سے) میں اردو صحافت کے چمکتے ستاروں کا ذکر کیا ہے کہ کس طرح سے مصائب و مشکلات خصوصاً انگریزوں کے مظالم اور قلم کو پابہ زنجیر کرنے کے باوجود بھی ان عظیم رجال نے ہمت شجاعت اوربہادری سے حقائق کو سامنے لا کے انسانیت کو صحیح راہ دیکھانے میں اہم رول ادا کیا۔اس کے آگے دو مضامین ایک ہی عنوان کے تحت اردو کے فروغ میں مدارس کا کرادر کے حوالے سے عبدالمجید نعمانی اور ڈاکٹر شاہ فیصل نے بھی اچھے اندازمیں ضبط تحریر میں لائے ہیں۔تعمیر پسند ادب کے فروغ میں علمائے دین کا کردار عنوان کے تحت ڈاکٹر شکیل شفائی نے علماء کرام کے کردار کو سامنے لانے کی بہترین کوشش کی ہے اور اُن کے کلام کے نثری و نظمی نمونے بھی صفحہ قرطاس پہ بکھیر دیے ہیں۔اپنے مضمون کے ابتدا ہی میں موصوف ادب کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”ادب کی تعریف میں اس وسعت کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی اور تعمیری ادب کو حد درجہ نظر انداز کیا گیا۔ادب فکشن،نظم اور ادھ کچے تنقیدی نظریات تک محدود کیا گیا۔حالانکہ ادیب صرف وہ شخص نہیں ہوتا جو فکشن تخلیق کرتا ہے،شعر کہتا ہے یا اپنی نگارشات کو افسانہ،ڈرامہ،انشائیہ،خاکہ،طنز مزاح یا کچھ محدود قسم کے تنقیدی مضامین و مقالات کے دائرے میں مقید رکھتا ہے بلکہ ادیب کا افق سنجیدہ علمی نثرتک وسیع ہوتا ہے وغیرہ۔اسی طرح ایک اور مضمون سرسید کا تصور تعلیم اور مدارس میں اردو ادب عنوان کے تحت ڈاکٹر شاد سیانوی نے سرسید احمد خان کا تصور تعلیم اور مدارس میں اردو کے حوالے سے کام کا جائزہ لیا ہے۔

کتاب کے دوسرے حصے میں چند مدارس کا نام تعارف شامل کیا گیا ہے حاض طور سے ان مدارس میں شائع ہونے والے رسائل و جرائد اور وہاں کے طریقہ کارکو بھی زیر بحث لایا ہے۔ان مضامین میں مختلف عنوانات کے تحت ان اداروں کا تعارف پیش کیا گیا ہے پہلے عنوان میں اردو زبان کی اشاعت و ارتقاء میں دارلعلوم رحمانیہ حیدرآباد کا کرادر پر مفتی شیخ محسن احسان رحمانی نے گفتگو کی ہے،دوسرے مضمون کا عنوان دارلعلوم دیوبند اور مظاہر علو م سہانپور میں اردو:ایک جائزہ پہ شاہد زبیری نے قلم کو جنبش دی ہے۔تیسرے عنوان میں مولانا محمد مزمل کھگڑیا وی نے اردو ادب کے ارتقا میں علماء دیوبند کا کردار پہ چند عظیم علماء کا تذکرہ کیاہے،اسی طرح سے ایک اور عنوان اردو زبان و ادب کے فروغ میں حاجی امداداللہ کا کرادر پہ مفتی عبدالرحمان پٹنوی نے اپنی بات قارئین کے سامنے رکھی ہے،اردو زبان کی خدمات میں دارلعلوم المصطفوی توحید گنج بارہمولہ کشمیر کا حصہ پہ مولانا محمد ادریس مسعودی نے تفصیلا ًبات کی ہے۔صوبہ جموں کے مدارس اسلامیہ کا کردار اُردو زبان کے تناظر میں عنوان پہ ڈاکٹر آصف ملک علیمی نے مختصر لیکن جامع انداز میں گفتگو کی ہے۔دارلعلوم ندوتالعلماء لکھنو اور اردو زبان کے موضوع پر ڈاکٹر واثق الخیر نے بات کی ہے،اس کتاب کا آخری مضمون اردو زبان کے فروغ میں دارلعلوم رحیمیہ بانڈی پورہ کشمیر کا رول کے حوالے سے ڈاکٹر فیض قاضی آبادی نے اس ادارے کی اردو زبان و ادب کے تئیں خدمت کو اُجاگر کیا ہے،جس میں خاص طور سے اس ادارے کے شیخ الحدیث مولانا مفتی نذیر احمد قاسمی کی اردو زبان و ادب کے تئیں خدمت کو بھی اپنے مضمون میں شامل کیا ہے جس میں خاص طور سے جموں کشمیر کے ایک روزنامہ اخبار کشمیر عظمی کے جمعہ ایڈیشن کا بھی تذکرہ کیا ہے۔متذکرہ اخبار میں خصوصی طور اتوار کو ادبی صفحہ بعنوانِ”ادب نامہ“اور جمعتہ المبارک کو دینی صفحہ شائع ہوتاہے۔جمعہ ایڈیشن میں مفتی موصوف کے فتاویٰ”دینی مسائل قرآن و سُنت کی روشنی میں“کے عنوان سے تقریباً پچھلے دس سالوں سے چھپ رہے ہیں۔“

Advertisements
julia rana solicitors london

اس کتاب کے مطالعے کے دوران جہاں اردو زبان اور مدارس کے متعلق بہترین مواد پیش کیا گیا ہے وہیں چند کمیاں بھی دوران مطالعہ محسوس ہوئیں جو دوسرے ایڈیشن میں اگر پوری ہو جائیں تویہ محبان اردو کے لئے مسرت کا باعث ہوں گی۔سب سے پہلی جو کمی مجھے محسوس ہوئی وہ مضمون نگاروں کے تعارف کے حوالے سے کیا ہی بہتر ہوتا اگر ہر ایک مضمون نگار کا مضمون کے آخر میں یا حاشیہ پہ ایک مختصر سا تعارف ہوتا جس کے سبب مضمون کو سمجھنے میں مزید آسانی ہوتی۔اسی طرح سے چند جگہوں پہ املا کی خامیاں بھی نظروں سے گُزریں۔سب سے اہم اور بڑی خامی مجھے مضامین کی تکرار (Repetition)محسوس ہوئی یعنی ایک ہی موضوع کے تحت دو دو تین تین مضامین شامل کتاب ہیں جس سے قاری اُکتاہٹ بھی محسوس کر سکتا ہے اور دوراہے گئے مضمون کا مقصد بھی فوت ہو جاتا ہے اسی طرح سے ہندوستان کے چند اہم مدارس کا ذکر شامل کتاب نہیں جس کو ہونا چاہے تھا جن کا اردو زبان و ادب کے لئے بہترین کام ہے تاہم اُمید ہے ان سب کمیوں کو اگلے ایڈیشن میں دور کیا جا یے گا۔اس سب کے باوجود ڈاکٹر فیض قاضی آبادی صاحب نے بہترین کام کو انجام دیا ہے،کتاب میں مدارس اور اردو کے حوالے سے خاصا مواد اور جانکار ی قارئین کو مل سکتی ہے۔مجموعی طور یہ کتاب ہماری نئی نسل اور خصوصاً محبان اُردو کے لئے ایک بہترین تصنیف ہے جس میں سے وہ اُردو زبان اور مدارس کے کردار کو اچھی طرح جان اور سمجھ سکتے ہیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply