ٹرانسپورٹ کا مسئلہ اور بے ہنگم ٹریفک۔۔ڈاکٹر محمد علی افضل

پاکستان میں لے دے کر اب کُل تین شہر ایسے بچے ہیں جو بین الاقوامی معیار کے مطابق ترقی یافتہ تو خیر ہرگز نہیں لیکن بہرحال اس خطہء پسماندہ میں پڑھا لکھا طبقہ ان ہی میں زیادہ تر رہائش اختیار کر رہا ہے اور ملک کے دور دراز تباہ حال علاقوں سے ان میں شفٹنگ کر رہا ہے۔

یہ تین شہر کراچی ، لاہور اور اسلام آباد ہیں۔ راولپنڈی کو اسلام آباد کے ساتھ جڑا ہونے کے باعث اس فہرست میں شامل کر سکتے ہیں۔باقی اللہ کے فضل و کرم سے ہر شہر میں آپ کو سیوریج کا پانی سڑکوں پر ملے گا۔ٹوٹی سڑکیں اور گرد آلود ہوائیں آپکا منہ سر ایک کر دیں گی اور چنگ چی رکشوں کے چھکڑوں پر سبزیاں پھل بیچنے والے مین شاہراؤں کو بلاک کیے کھڑے ہوں گے۔پینے کے صاف پانی اور صاف ستھری بیٹھنے یا سیر کرنے کی جگہوں، درختوں اور پارکوں کا سرے سے موجود ہی نہ ہونا اور اسی طرح کے دیگر مسائل کا احاطہ کروں تو ایک کتاب جدا لکھنی پڑے۔

باقی ملک تو رہا ایک طرف اگر صرف تین بڑے شہروں کی ٹریفک کے مسئلے کو دیکھا جائے تو آپ سب پر یہ انکشاف ہوگا کہ شہر کے اندر 5 کلومیٹر کے دائرے کا آنا جانا بھی آپکا ایک گھنٹہ برباد کردیتا ہے۔گاڑیوں کا ایک اژدہام ہے۔سڑک کے دونوں اطراف ریڑھی بان ، خوانچہ فروش اور چھابڑی والے کھڑے ہیں۔اگر کہیں انتظامیہ نے سڑک کے اطراف سے پتھارے اور ریڑھیاں ہٹوا بھی دی ہیں تو انکی کسر موٹرسائیکلیں اور کاریں پارک کر کے آدھی سے زیادہ شاہراہ کو بلاک کرکے نکال دی گئی ہے۔چار چار منزلہ پلازے ہیں اور انکی پارکنگ میں صرف 15 گاڑیوں کی جگہ ہے۔باقی گاڑیاں سڑک پر کھڑی کرو اور گزرنے والوں کو اذیت میں مبتلا رکھو۔ٹریفک پولیس لفٹر سے گاڑیاں اٹھا اٹھا کر تھک جاتی ہے۔آخر کہاں لے کر جائے؟عوام کی اکثریت ، ٹریفک پولیس اور بہت سے ماہرین بھی اسکا حل سڑکوں کو کشادہ کرنے میں ڈھونڈتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ سڑکوں کو ایک حد سے زیادہ کشادہ کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ پرانی آبادیوں اور شہر کے بیچوں بیچ گزرنے والی شاہراؤں کے دونوں اطراف پوری دنیا میں دکانیں اور ریستوران ہوا کرتے ہیں اور یہی بازار دکانیں اور قہوہ خانے شہروں کو پرکشش اور بارونق بناتے ہیں۔آپ ان کو ڈھا کر سڑکوں کو کشادہ کر بھی لیں تو آخر کتنا؟ کیا آپ شہر کے درمیان پچاس لین کی ہائی وے بنوا سکتے ہیں۔ جی نہیں۔ ایسا ممکن نہیں ہے۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ اس کا حل کیا ہے؟

آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہوگی کہ برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی اندرون شہر کئی ایک سڑکیں فقط دو یا تین لینوں پر ہی مشتمل ہیں۔لیکن اس کے باوجود انہوں نے بہترین پلاننگ سے ٹریفک کا مسئلہ بہت حد تک حل کر لیا ہے۔فدوی کوئی ٹریفک یا ڈسٹرکٹ مینجمنٹ کا اہلکار نہیں ہے لیکن اسکی ناقص عقل میں بھی اسکا بہت سادہ حل موجود ہے۔اور وہ یہ کہ کسی بھی مین بازار یا مارکیٹ ایریا کے آغاز پر حکومت اگر ایک بڑی پارکنگ کا انتظام کر دے اور بازار کی سڑک پر کسی کو بھی خواہ وہ پروٹوکول والے سائرن اور اسلح بردار سکیورٹی گارڈز کے ہمراہ ہی کیوں نہ ہو گاڑی اس بازار میں داخل کرنے کی اجازت نہ ہو۔جسے شاپنگ کرنی ہے وہ پیدل مارچ کرے اور بازار میں مطلوبہ خریداری کرکے واپس پارکنگ سے اپنی گاڑی موٹر سائیکل لے اور گھر جائے۔اللہ اللہ خیر صلا۔

اس سے مرکزی چوکوں، ٹریفک اشاروں اور شہر کی اندرونی گزرگاہوں پر رش اور لوڈ بھی کم ہوگا اور لوگوں کی صحت بھی بہتر ہوگی۔آخر بازار کا حجم ہوتا ہی کتنا ہے؟

بے حد مبالغہ آرائی سے کام لیا جائے تو کوئی بازار 5 کلومیٹر کے ایریا سے باہر نہیں جاتا ورنہ یہی کوئی ڈیڑھ 2 کلومیٹر پر پھیلا ہوتا ہے۔

کم سے کم اس بہانے پیدل چلنے کا موقع تو ملے گا۔اور دن رات کھا کھا کر جو کولہوں اور توند پر چربی کی دبیز تہیں چڑھائی گئی ہیں کم از کم وہ بھی تحلیل ہوا کریں گی۔وگرنہ آج کل اگر بس چلے تو لوگ بیت الخلا بھی موٹرسائیکل یا کار پر جایا کریں۔آپ میں سے کسی نے آج تک ہالی ووڈ کی فلموں میں جب کبھی بازاروں کا سین دکھایا جاتا ہے تو کسی گوری کو اپنے خاوند یا بوائے فرینڈ کے ساتھ بازار کے اندر موٹر سائیکل پر بیٹھے دیکھا ہے؟

بازار کے عین درمیان میں ان لوگوں کو پیدل ہی چلتے دکھایا جاتا ہے۔چاہے فلموں میں ہو یا ڈاکیومنٹریز میں۔اس میں انکی عوام کا کمال نہیں بلکہ انتظامیہ کا کمال ہے جو پُر ہجوم جگہوں پر گاڑی اور بائیک کو گھسنے نہیں دیتے اور انٹری پوائنٹ پر پارک کرواتے ہیں۔

دوسرا ہماری حکومت اور انتظامیہ کو ریڑھی بانوں ،خوانچہ فروشوں اور چھابڑی والوں کیلئے ایک جگہ ہر بازار میں الگ سے مختص کرنی چاہیئے اور صرف اسی میں ان کو اپنا سامان بیچنے کی اجازت ہو۔یہ نہیں جہاں دل کیا منہ اٹھا کر فالسے کا ٹوکرا بیچ سڑک پر رکھ کر بیٹھ گئے۔

تحریر لمبی ہورہی ہے اس لئے ایک آخری چشم دید واقعے پر اختتام کر رہا ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میرے گاؤں کے ایک چوک پر رکشہ ڈرائیوروں نے رکشے کھڑے کرنے شروع کردیے اور اسے ایک غیر قانونی رکشوں کا اڈہ ڈکلئیر کردیا جس سے عوام الناس کا گزرنا دوبھر ہوگیا۔
ایک اسسٹنٹ کمشنر نے ہمت کی اور ان کو وہاں سے ہٹایا۔
رکشہ ڈرائیور شکایت لے کر ایم این اے کے پاس گئے۔
ایم این اے نے اے سی صاحب کو اپنی فارسی میں سمجھایا کہ چونکہ یہ میرے ووٹر ہیں لہذا غریب ہیں۔اس لئے انہیں کُلّی اختیار ہے کہ عوام کو ذلیل کریں۔آپ انہیں وہاں رکشے کھڑے کرنے دیں۔اے سی نے انکار کیا تو موصوف نے انکا شہر سے ٹرانسفر کروا دیا۔اب وہاں غریب رکشہ ڈرائیور شرفا پر آوازے کستے ہیں۔سڑک سے گزرنا محال ہے۔ان کو وہاں سے ہٹائے یہ کس کی مجال ہے؟
باقی حکومت اور انتظامیہ کی مرضی۔
جو چاہے سو کرے@

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply