عقل (5)۔۔وہاراامباکر

جرمن سائیکلولوجسٹ نے ایک کتاب شائع کی جو اب کلاسک سمجھی جاتی ہے۔ اس میں چمپنزی پر تجربات کے نتائج ہیں اور یہ بہت دلچسپ چیزیں آشکار کرتے ہیں۔ انہوں نے ایک کیلا چھت سے لٹکا دیا۔ چمپنیزیوں نے اس تک پہنچنے کے لئے یہ تو معلوم کر لیا کہ ڈبے رکھے جائیں تو قریب پہنچا جا سکتا ہے لیکن انہیں کوئی علم نہیں تھا کہ فورسز کیا ہیں۔ مثلاً، ڈبوں کو ایک دوسرے کے اوپر کیسے ایڈجسٹ کیا جائے۔ یا نیچے سے پتھر نکال دئے جائیں تا کہ ڈبہ نیچے نہ گرے۔ وہ رک کر ان پتھروں کو نکالنے کا کبھی نہیں سوچتے تھے۔

تین سے پانچ سال کے انسان اور چمپنیزی کے بچوں پر اسی قسم کے تجربات کئے گئے۔ جس میں بلاکس کو جوڑ کر انعام تک پہنچنا تھا۔ چمپینزی بار بار کوشش کرتے رہے اور ناکام رہے۔ انسانی بچے بھی ناکام رہے لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ مسئلہ ڈھونڈا کہ آخر کیوں ناکام ہو رہے ہیں۔ بہت ابتدائی عمر سے ہی، انسان جواب کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ اپنے ماحول کی تھیوریٹیکل سمجھ کی خواہش رکھتے ہیں اور پھر سوال پوچھتے ہیں کہ “کیوں؟”۔

اگر کسی کا بھی وقت بچوں کے ساتھ گزارا ہے تو وہ جانتا ہو گا کہ بچوں کو کیوں کا سوال کس قدر پسند ہے۔ فرینک لوریمر نے اسے نوٹ کرنا شروع کیا۔ چار سال کے بچوں کے سوال نوٹ کرنا شروع کئے۔ چار دن میں یہ چالیس سوال تھے۔ “میری بھویں کیوں ہیں؟”۔ “دیگچی کے دو ہینڈل کیوں ہیں؟”۔ “ابو کی داڑھی ہے لیکن امی کی کیوں نہیں؟”۔ دنیا بھر میں بچے زبان بولنے سے پہلے سوال کرنے لگتے ہیں۔ ہماری نوع کے لئے سوال کرنا یونیورسل ہے۔ کئی مذہبی روایات سوال کرنے کو فکر کا اعلیٰ ترین درجہ کہتی ہیں۔ سائنس اور انڈسٹری میں بھی ٹھیک سوال کرنا سب سے بڑا ٹیلنٹ سمجھا جاتا ہے۔ چمپینزی اور بونوبو اشاروں سے اپنے ٹرینر سے رابطہ کر لیتے ہیں، سوالوں کے جواب بھی دے لیتے ہیں۔ لیکن کبھی سوال نہیں پوچھتے۔ وہ طاقتور تو ہیں، لیکن وہ مفکر نہیں۔

اور یہ دنیا طاقت نے نہیں، عقل نے فتح کی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جہاں ہم پیدائشی طور پر یہ خواہش رکھتے ہیں کہ اپنے ماحول کو سمجھیں، وہاں ہم اس کی بنیادی سمجھ جبلی طور پر بھی رکھتے ہیں کہ فزکس کے قوانین کیسے کام کرتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی کام ہونے کی کوئی وجہ ہوتی ہے۔ وجدانی طور پر فزیکل قوانین کی بھی کچھ سمجھ ہوتی ہے، جنہیں نیوٹن نے ہزاروں سال کے سفر کے بعد ٹھیک طرح دریافت کیا۔

یونیورسٹی آف الینائے میں انفینٹ کوگنیشن لیبارٹری میں سائنسدان پچھلے تیس برس سے چھوٹے بچوں کی فزکس کے سمجھ پر تحقیق کر رہے ہیں۔ اس میں اس چیز کا مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ بچے واقعات کے مشاہدے پر کس طرح ری ایکشن دیتے ہیں۔ جس سائنسی سوال کی تلاش ہے، وہ یہ کہ “بچے فزیکل دنیا کے بارے میں کتنا جانتے ہیں اور کب سے جانتے ہیں”۔ یہاں پر جو دریافت ہوا ہے، وہ یہ کہ انسان میں فزکس کی سمجھ بالکل ابتدا سے ہوتی ہے۔

چھ ماہ کے بچوں پر تجربات کی ایک سیریز کی گئی۔ ایک ڈھلوان والے ریمپ کے نیچے ایک پٹڑی پر پہیے ولا کھلونا رکھا۔ ڈھلوان کے اوپر سے سلنڈر لڑھکایا۔ بچے نے اسے دلچسپی سے نیچے آتے دیکھا، ٹکر ہوئی اور یہ کھلونا اس پٹڑی پر دو فٹ دور چلا گیا۔ اس تجربے کے اگلے حصے میں دلچسپی محققین کو تھی۔ کیا بچہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ اسے کتنا دور جانا چاہیے؟

(بچوں کے ساتھ یہ تجربے کئے کیسے جاتے ہیں؟ یہ خود بہت دلچسپ تکنیک ہے۔ اگر آپ نے بچوں کے ساتھ وقت گزارا ہو تو اندازہ لگانے لگتے ہیں کہ وہ کیا سوچ رہا ہے لیکن آپ کا اندازہ کیسے درست ہے؟ بچے کا چہرہ رونے والا ہو گیا تو یہ کیسے پتا لگے کہ اس کے پیٹ میں ہوا بھری ہے یا اس نے ریڈیو پر سٹاک مارکیٹ کے گرنے کی خبر سنی ہے؟ فزکس کو جاننے کے بارے میں سائنسدان اس کا اندازہ بچے کی نگاہ کی سمت سے لگاتے ہیں۔ جتنی حیران کن چیز ہو گی، بچہ اتنا زیادہ دیر نگاہ وہاں مرکوز رکھے گا)۔

اس تجربے کے دوسرے مرحلے میں ماہرینِ نفسیات نے آدھے بچوں کے ساتھ جو دوسرا تجربہ کیا، اس میں نیچے آنے والا سلنڈر پہلے سے دگنا تھا، جبکہ آدھے بچوں کے لئے اس سے نصف سائز کا۔ لیکن تجربہ کرنے والوں نے بندوبست یہ کیا تھا کہ دونوں صورتوں میں کھلونا پہلے کے مقابلے میں زیادہ دور تک جائے گا اور پٹڑی کے آخر میں جا کر رکے گا۔

جن بچوں نے بڑے سلنڈر کے ساتھ ایسا ہوتے دیکھا، ان کے لئے یہ غیرمتوقع نہیں تھا۔ لیکن جنہوں نے چھوٹے سلنڈر کے ساتھ ایسا ہوتے دیکھا، ان میں حیرت نمایاں تھی۔ یہ ان کی توقع کے خلاف تھا۔

بڑی چیز کے ساتھ ٹکراوٗ سے کھلونا دور تک چلا جائے گا۔ یہ سمجھ آپ کو نیوٹن نہیں بنا دیتی لیکن اس چیز کا بتا دیتی ہے کہ انسان فزیکل دنیا کی سمجھ جبلی طور پر رکھتے ہیں۔ جبلی طور پر یہ سمجھ اور اس پر طرہ ہمارا تجسس اور سیکھنے کی صلاحیت، یہ وہ پورا سیٹ ہے جو انسان میں کسی بھی نوع کے مقابلے میں زیادہ ڈویلپڈ ہے۔

ہومو ہیبلیس سے ہومو سپیئن سپیئن تک، یہ دماغ طاقتور ہوتا گیا ہے اور اس آلے کی وجہ سے ہم دنیا کو جانتے گئے ہیں۔ لیکن یہاں پر ایک اور مسئلہ ہے۔ انسانی کی تاریخ کی سٹڈی کے تجربات اور خیالات اکثر فرد کو دیکھ کر کئے گئے ہیں اور اس طریقے سے کئے گئے تجزیوں میں ہم سے انسان کے معمے کا ایک بڑا حصہ مِس ہو جاتا ہے۔ بڑا دماغ فطرت کو سمجھنے کے لئے ضروری تو ہے، مگر کافی نہیں۔

انسان کے رویے میں ایک اور خاص شے ہے جو چمپنیزی، شیر، عقاب یا زرافے میں نہیں۔ اس دنیا میں سوشل انواع بہت کم ہیں لیکن جہاں پر بھی ہیں، یہ تنہا انواع کی نسبت زیادہ آسانی سے پنپتی ہیں۔ چیونٹیاں، شہد کی مکھیاں، دیمک، ایسی سوشل انواع ہیں۔ یا پھر جدید انسان۔ اور یہ ہمیں انسانی کہانی کے ایک اہم موڑ تک لے آتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments