دماغ (4)۔۔وہاراامباکر

دماغ کا مقصد حرکت کو بہتر کنٹرول کرنا تھا۔ حرکت کا مقصد خوراک حاصل کرنا اور دوسرے کی خوراک بننے سے بچنا تھا۔ یہ کسی بھی جاندار کی سب سے بنیادی صلاحیت ہے۔ پیچیدہ جسم رکھنے والے جاندار کے لئے حرکت کا طریقہ تال میل سے جسم کے پٹھوں کو حرکت دینا ہے اور دماغ اس اوپرا کا کنڈکٹر ہے۔ سادہ ترین کثیر خلوی مخلوقات میں بھی اسے دیکھا جا سکتا ہے۔

لیکن حرکت کا خود میں کوئی فائدہ نہیں، اگر جاندار ماحول کے بارے میں معلومات نہ لے سکے۔ سادہ ترین جانوروں کو بھی سنسر درکار ہیں۔ خلیے جو کیمیکلز سے ری ایکٹ کر سکیں۔ یا روشنی کے فوٹون کو ڈیٹکٹ کر کے برقی سگنل اعصاب کو بھیج سکیں اور حرکت ان کے مطابق کنٹرول ہو سکے۔ یہ دیکھنے اور سونگھنے کی حس ہے اور یہ سب پراسسنگ جس عضو میں ہوتی ہے، اسے دماغ کہتے ہیں۔ چھیاسٹھ ملین سال پہلے کے پروٹنگلاٹم ڈونے میں بھی یہ سب کچھ موجود تھا۔

کسی کو ٹھیک معلوم نہیں کہ دماغ کس طرح فنکشنل اجزاء میں تقسیم ہوا لیکن جدید انسانی دماغ میں بھی نیورونز کی سب سے بڑی تعداد حرکت کو کنٹرول کرنے اور پانچ حسیات کے لئے ہے۔ انسانی دماغ کا وہ حصہ جو دوسرے جانداروں میں نہیں، بہت چھوٹا ہے اور بہت دیر سے آیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب زمین پر ہومو ہیبلیس تھے تو انہیں زندہ رہنے کے لئے سخت مقابلہ تھا۔ کچھ انواع سے ان کا مقابلہ خوراک پر ہوتا تھا اور کچھ انواع سے ان کی خوراک بننے سے بچنے کا چیلنج تھا۔ اس کے لئے انہیں نے اوزار استعمال کئے۔ نوکیلے پتھر جنہیں ڈھال کر چاقو بنائے جو گوشت کو کاٹ دیں۔ ان کی مدد سے یہ دوسری انواع سے مقابلہ کر سکے۔ اور اتنے مقبول ہوئے کہ بیس لاکھ سال تک استعمال ہوتے رہے۔ جہاں پر ہمیں ہومو ہیبیلس کے فوسل ملتے ہیں، وہاں پر یہ اوزار اتنی زیادہ تعداد میں ملتے ہیں کہ بچ کر چلنا پڑتا ہے کہ ان پر پیر نہ آ جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اٹھارہ لاکھ سال پہلے ہمیں ہومو اریکٹس کے آثار ملتے ہیں جو نہ صرف سیدھے کھڑے ہوتے تھے بلکہ ان کا قد بھی پانچ فٹ تھا۔ ان کا دماغ ہومو ہیبلس سے زیادہ بڑا تھا۔ یہ دنیا کو دیکھ سکتے تھے اور اس کے چیلنجز کا مقابلہ کسی اور طرح سے کرتے تھے۔ ان کے پاس پلاننگ کی مہارت تھی جس سے یہ لکڑی اور پتھر کے پیچیدہ اوزار بنا سکتے تھے۔ کلہاڑیاں، چاقو، اور دوسرے۔ دماغ کی آرٹ یا لٹریچر کے مقابلے میں اوزار بنانے کی صلاحیت زیادہ مفید تھی۔ یہ ان سے شکار کر سکتے تھے اور ان کی خوراک میں گوشت کی مقدار زیادہ ہو رہی تھی۔ یہ ایک بڑی تبدیلی تھی۔ زیادہ پروٹین کا استعمال کئی لحاظ سے مفید تھا۔ انہوں نے آگ کا استعمال بھی کیا، جس سے نہ صرف کھانا بلکہ سرد موسم میں بچاوٗ کرنا ممکن ہوا۔ یہ ہومو ایرکٹس کے کئے گئے عملی کام تھے اور اس کے ذہن نے یہ ممکن بنایا کہ یہ ایک ملین سال سے بھی زیادہ عرصہ زمین پر رہے اور افریقہ سے نکل کر یورپ اور ایشیا پہنچے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جہاں پر ذہانت نے شکار اور ذبح کرنے کے پیچیدہ اوزار بنائے، وہاں ایک اور جدت بھی تھی۔ بڑے اور تیزرفتار جانوروں کو قابو کرنے کے لئے ایک شکاری کافی نہیں۔ یہ ٹیم ورک ہے۔ باسکٹ بال اور فٹبال کی ٹیم کی طرح۔ اور اس کے لئے سماجی ذہانت اور پلاننگ کی مہارت درکار ہے۔ جو بہتر رابطہ اور منصوبہ بندی کر سکتے ہیں، وہ آپس میں مل کر کام کر سکتے ہیں۔

اس نوع کے آخر کے قریب اور تقریباً نصف ملین سال قبل ہومو سپیئن کی آمد ہوئی۔ بڑی اور موٹی کھوپڑی لیکن دماغ آج کے انسان جیسا نہیں۔ اناٹومی کے اعتبار سے آج کے انسان جیسا جسم لگ بھگ دو لاکھ سال قبل کا ہے (اور نہیں، یہ بھی جدید انسان نہیں تھے)۔

یہ سفر ختم ہوتے ہوتے رہ گیا تھا۔ یہ معدوم ہونے سے بال بال بچے تھے۔ آج سے ایک لاکھ چالیس ہزار سال قبل، غالباً کسی موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے، ان انسانوں کا خاتمہ ہونے کے قریب تھا۔ ڈی این اے کا تجزیہ بتاتا ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں محض چند سو سے زیادہ نہیں بچ پائے ہوں گے۔ یہ اس چیز سے بھی آگاہ کرتا ہے کہ محض بڑا دماغ کسی نوع کی کامیابی کے لئے کافی نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کے بعد ایک انقلابی تبدیلی آئی اور ایسے کوئی آثار نہیں کہ اس کا تعلق فزیکل اناٹومی سے ہو۔ اس کا تعلق دماغ کی اناٹومی سے بھی نہیں لگتا۔ لگتا کچھ یوں ہے کہ یہ دماغ کے کام کرنے کی ری ورکنگ تھی۔ کیا ہوا؟ کیسے ہوا؟ یہ معلوم نہیں لیکن یہ ایک طرح کا میٹامورفوسس تھا۔ ویسے جیسے سنڈی سے تتلی نکل آئے۔ اگرچہ اس تبدیلی میں بظاہر کچھ تبدیل نہیں ہوا لیکن اس نے ہماری نوع کو اس قابل کیا کہ اس میں سائنسدان، آرٹسٹ، تھیولوجین، فلسفی آئیں۔ وہ لوگ، جو اس طرح سے سوچتے ہیں، جیسا کہ ہم۔

اینتھروپولوجسٹ اس آخری ذہنی ٹرانسفورمیشن کو جدید انسانی رویے کی ڈویلپمنٹ کہتے ہیں۔ جدید رویے کا مطلب شاپنگ پر جانا یا ٹی وی دیکھنا نہیں بلکہ پیچیدہ تجریدی سوچ ہے۔ وہ سوچ جس نے موجودہ انسانی کلچر کی تشکیل کی ہے۔ اس بارے میں ابھی اچھا اتفاق نہیں کہ یہ کب ہوا لیکن عام طور پر چالیس ہزار سال قبل کے وقت کو یہ لینڈ مارک سمجھا جاتا ہے جب کوگنیٹو انقلاب برپا ہوا۔

آج ہم اپنی ذیلی نوع کو، جس سے ہم تعلق رکھتے ہیں، ہومو سپیئن سپیئن کہتے ہیں جس کے معنی عقلمندوں کے عقلمند انسان کے ہیں (اگر آپ نے اپنا نام خود رکھنا ہو، تو یہ ایک اچھا انتخاب ہے)۔ لیکن بڑے دماغ تک پہنچنے کی یہ سستی تبدیلی نہیں۔ انسانی دماغ توانائی کے خرچ کے اعتبار سے جسم کا دوسرا سب سے مہنگا عضو ہے۔ (سب سے مہنگا عضو دِل ہے)۔
فطرت دماغ کے بجائے مسل کا انتخاب کر سکتی تھی۔ کیونکہ مسل دماغ کے مقابلے میں توانائی کا صرف دسواں حصہ استعمال کرتے ہیں اور بہت مفید ہیں۔ لیکن فزیکلی ہماری نوع زیادہ فِٹ یا پھرتیلی نہیں۔ چمپنیزی یا بونوبو بارہ سو پاوٗنڈ سے زیادہ کی فورس لگا سکتے ہیں۔ ان کے دانت اتنے تیز اور مضبوط ہیں کہ وہ ان سے سخت اخروٹ توڑ لیتے ہیں۔ (جبکہ مجھ سے سخت پاپ کارن نہیں چبائے جاتے)۔

دماغ جو جسم کا صرف دو فیصد ہے، بیس فیصد توانائی خر چ کرتا ہے اور یہ وجہ ہے کہ جہاں پر دوسرے جانور جنگل میں سختی برداشت کر رہے ہوتے ہیں، ہم کیفے میں بیٹھ کر چائے پی رہے ہوتے ہیں۔ اور اس کو ہلکا نہ لیں۔ جب ہم یوں بیٹھتے ہیں تو ہم سوچتے ہیں۔

اور جب ہم سوچتے ہیں، تو پھر ہم سوال کرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply