استاد بڑے فتح علی خان کی موت

استادبڑے فتح علی خان کی موت
طاہر یاسین طاہر
ہر ذی روح نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے،یہ اللہ کا امر ہے اور اس نے پورا ہو کر رہنا ہے۔الہٰی دستور یہی ہے۔ہم میں کتنے ایسے ہیں جو زمین پر بوجھ ہیں،مگر چند ہی ایسے ہیں جنھیں زمین اپنے کاندھوں پہ اٹھائے ناز کرتی ہے اور گود میں لے کر خوش ہوتی ہے۔استاد بڑے فتح علی خان بھی انہی چند میں سے ایک ہیں،جنھیں زمین اپنی گود میں لے کر خوش ہو رہی ہو گی۔کہا جاتا ہے کہ ایک عالم کی موت ،ایک عالم کی موت ہوتی ہے،آہ،آج ایک استاد کی موت کلاسیکی گائیکی کی موت ہے۔یہ قطعی مبالغہ نہیں ہے۔نوجوان نسل اور بالخصوص سوشل میڈیا کی نسل کو تو خبر ہی نہیں کہ استاد اختر حسین کون تھے؟چھوٹے غلام علی کیا چیز ہیں اور مبارک علی کس بلا کا نام ہے؟
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے؟
برصغیر میں کلاسیکی موسیقی کے صدف سے وہ گوہر نایاب نکلے کہ جن کی تاب سے ایک زمانہ ابھی تک مسحور ہے۔استاد بڑے فتح علی خان ان نشانیوں میں سے آخری ہیں جو خالص کلاسیکی باب میں رنگ باندھتے تھے۔مجھے عالمی میلا نوروز پہ تین سے چار بار استاد بڑے فتح علی خان کو اپنے علاقے چوآ خالصہ میں سننے کا شرف حاصل ہوا۔اسی طرح غلام علی خان،استاد حامد علی خان،حمیرا ارشد،شیر علی مہر علی قوال و فیضی کو بھی کئی بار بہت قریب اور بڑے احترام سے سنا ہے۔کئی اور نام بھی۔پٹیالہ گھرانے کا مگر اپنا ہی رنگ ہے۔آج کا نوجوان جس سے بے خبر ہے۔کیامغربی تیز دھنیں کلاسیکی گائیکی کا نعم البدل ہو سکتی ہیں؟ کیا پاپ میوزک روح کی غذا بن سکتی ہے؟اگر روح کی غذا موسیقی ہے تو پھر روح کو اچھی غذا دی جائے ،یہ بحث کسی اور وقت کے لیے۔بس کلاسیکل اور نیم کلاسیکل کا کوئی جواب نہیں۔انٹرنیٹ پہ استاد فتح علی خان کے بارے گوگل کو گھمایا تو پٹیالہ گھرانے کے بارے کچھ معلومات درج ملیں۔ افسوس ہے کہ موسیقی کے چار بڑے گھرانوں پر چند لائنیں اور اچھل کود کرنے والوں پہ دفتر بھرے پڑے ہیں۔ دراصل جب کوئی معاشرہ معاشی،سیاسی ،سائنسی اور تہذیبی طور پر مغلوب ہو جاتا ہے تو وہ غالب اقوام کے سارے اطوار واجب سمجھ کر اختیار کرتا ہے۔یہی کچھ ہماری کلاسیکل موسیقی کے ساتھ ہو رہا ہے۔کتھک رقص بھی اچھل کود کے سامنے اپنی بقا کی جنگ میں ہے۔کلاسیکل رنگ میں ڈوبی ہوئی،اور اساتذہ کی فنی نزاکتوں سے نکھری ہوئی شاعری بھی اپنی آبرو کی حٖفاظت کی دھائی دے رہی ہے۔الغرض فنونِ لطیفہ کی ساری اصناف مغربی رنگ میں رنگنے کی غیر سنجیدہ کوششوں نے لطیف طبیعتوں کو بہت بے مزا کیا ہے۔حکومتیں اور ثقافتی ادارے اس کے بے شک ذمہ دار ہیں۔
برصغیر میں کسی گھرانے کی چار مسلسل نسلوں کو موسیقی میں خدمات سر انجام دینے کے بعد اس گھرانے کو موسیقار گھرانے لا لقب دیا گیا۔ملک میں اس وقت چار قابل فخر گھرانے ایسے ہیں جن کی نسل کلاسیکی موسیقی کے فن کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ان گھرانوں میں پٹیالہ ، شام چوراسی ، گوالیار اور قصور گھرانے شامل ہیں ۔ استاد بڑے فتح علی خان کا تعلق بر صغیر پاک و ہند کے مشہور پٹیالہ گھرانے سے ہی ہے۔ اس گھرانے کی بنیاد ان کے دادا علی بخش اور ان کے دوست فتح علی خان نے رکھی تھی۔ ان کے فن گائیکی کو داد تحسین پیش کرتے ہوئے لارڈ ایلگن نے علی بخش کو جرنیل اور فتح علی خان کو کرنیل کا خطاب دیا۔ علی بخش کے بیٹےاستاد اختر حسین خان کے تین بیٹے ہوئے جو دنیائے موسیقی میں استاد امانت علی خان، استاد فتح علی خان اور استاد حامد علی خان کے نام سے مشہور ہیں۔ گوالیار گھرانے کے ایک گائیک کو بھی استاد فتح علی خان کے نام سے جانا جاتا ہے، لہٰذا شناخت کے اس مخمصے سے بچنے کیلئے پٹیالہ گھرانے کے استاد فتح علی خان کو استاد بڑے فتح علی خان کہا جاتا ہے۔استاد امانت علی خان اور استاد فتح علی نے موسیقی کا فن اپنے والد استاد اختر حسین خان سے سیکھا۔ استاد اختر حسین خان خود تو اتنا زیادہ نام نہیں پیدا کر سکے لیکن انہوں نے اپنے دونوں بیٹوں پر بہت محنت کی۔ استاد امانت علی خان اور استاد فتح علی کی پہلی پرفارمنس لاہور 1945ء میں ہوئی جہاں انہیں بہت سراہا گیا، لیکن ان کو زیادہ شہرت تب نصیب ہوئی جب انہوں نے کلکتہ میں ہونے والی آل بنگال میوزک کانفرنس میں حصہ لیا. اس وقت استاد امانت علی خان کی عمر 17 سال اور استاد فتح علی خان کی عمر 14 سال تھی، اس کے بعد اس جوڑی نے کلاسیکی موسیقی کے حلقوں میں بہت مقبولیت حاصل کی، دونوں بھائیوں کی فنی خدمات کو سراہتے ہوئے حکومت پاکستان نے 1969ء میں انہیں تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا۔
یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ استاد امانت علی خان اور استاد فتح علی خان کی جوڑی 1974ء میں استاد امانت علی خان کی ناگہانی موت سے ٹوٹ گئی۔ یہ وقت استاد فتح علی خان پر بہت کڑا تھا کیونکہ ان دونوں بھائیوں کو موسیقی کی تعلیم باپ نے اس انداز میں دی تھی کہ راگ کی سچائی اور بہلاوے کا حصہ امانت علی خان اور تان پلٹا، لے کاری فتح علی خان کو سکھایا گیا۔
استاد فتح علی خان دکھ اور پریشانی کے عالم میں موسیقی چھوڑنے پر اتر آئے تھے لیکن ماں کے کہنے پر انہوں نے دوبارہ اس حصہ پر محنت شروع کر دی جو ان کے بھائی استاد امانت علی خان گایا کرتے تھے، لہٰذا فتح علی خان کو اپنی گائیکی کے انداز میں کافی تبدیلی کرنی پڑی۔انہوں نے پہلے اپنے چھوٹے بھائی استاد حامد علی خان کے ساتھ جوڑی بنائی، پھر اسے چھوڑ کر اپنے درمیانے بھتیجے اسد امانت علی خان کو ساتھ لیا، لیکن پھر یہ مناسب سمجھا کہ اسد امانت کی جوڑی حامد علی خان کے ساتھ بنا دی جائے اور خود انہوں نے اپنے بڑے بھتیجے امجد امانت علی کو ساتھ لے کر گانا شروع کر دیا۔ امجد امانت گو اپنے باپ کی طرح بہت خوبصورت آواز کے مالک تھے لیکن وہ فنی طور پر بہت ہی پیچھے تھے، لہٰذا وہ ایک جونیئر حصے دار کے طور گاتے تھے جب کہ استاد امانت علی خان اور استاد فتح علی خان برابر کی جوڑی تھی۔ امجد امانت علی خان کی وفات کے بعد یہ جوڑی بھی ٹوٹ گئی۔ استاد فتح علی خان نے کچھ عرصہ تو اپنے بڑے بیٹے سلطان فتح علی خان کو ساتھ لے کر گایا لیکن بعد میں اپنے چھوٹے بیٹے رستم فتح علی خان کے ساتھ گاتے رہے۔
استاد فتح علی خان کے کئی البمز جاری ہوئے جن میں دو ان کے بڑے بھائی استاد امانت علی خان کے ساتھ بنے، اس کے بعد تین البمز گھرانوں کی موسیقی میں پٹیالہ گھرانے کے تحت بننے کے علاوہ آہنگ خسروی نام کے البمز میں بھی ان کی گائیکی موجود ہے۔ بیرون ملک استاد فتح علی کا البم نارویجن سیکسو فون نواز یان گاربارک کے ساتھ بنا ہے، جسے راگا اینڈ ساگا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پاکستان کے ٹی وی ڈراموں کے پس منظر میں اس ریکارڈ کے ٹکڑے اکثر سننے کو ملتے ہیں۔
کلاسیکی موسیقی کا یہ درخشندہ ستارہ ، استاد فتح علی خان 82 سال کی عمر میں 4 جنوری، 2017ء کو اسلام آباد، میں وفات پاگئے۔آہ غالب یاد آ تے ہیں
مقدور ہو تو خال سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے؟

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply