حقیقت۔۔رؤف الحسن

یونیورسٹی میں اکتوبر کے دوسرے ہفتے کی ایک خاموش شام اتر رہی تھی۔ سڑک کنارے بکھرے خشک پتے خزاں کی نوید سنا رہے تھے۔ اور ہم دونوں قدم سے قدم ملائے, خاموشی سے چلتے جا رہے تھے۔
یہ یونیورسٹی میں ہمارا آخری ہفتہ تھا۔ چار سال کس طرح گزر گئے, پتا ہی نہیں چلا۔ اور اب وقت جدائی بس ہوا چاہتا تھا۔ کسے معلوم کہ اس آخری ہفتے کے بعد کون ملے, کون نہ ملے۔ مجبوریاں نہ حائل ہوں تو بھی اس تیز رفتار زندگی میں کون پیچھے مڑ کے دیکھتا ہے۔ یہی تلخ سچائی ہے۔
یہی کچھ سوچتے ہم دونوں ہیلے کالج کے سامنے آ گئے۔ خاموشی اب بھی ہمارے درمیان موجود تھی۔ کسی نے سچ ہی لکھا تھا کہ جب بولنے کو بہت کچھ ہو تب بھی خاموشی در آتی ہے۔ یوں ہی چلتے ہوئے میں نے ایک نگاہ اس کے چہرے پر ڈالی۔ خنک ہوا نے بال اس کے چہرے پر بکھیرے ہوئے تھے۔ اس کی خاموش اور فسردہ آنکھوں کو دیکھ کر جانے کیوں مجھے منیر نیازی کی یاد آنے لگی:
نہ تو حقیقت ہے اور نہ میں
اور نہ تیری میری وفا کے قصے
نہ برکھا رت کی سیاہ راتوں میں
راستہ بھول کر بھٹکتی ہوئی سجل ناریوں کے جھرمٹ
نہ اجڑے نگروں میں خاک اڑاتے
فسردہ دل پریمیوں کے نوحے
اگر حقیقت ہے کچھ تو یہ اک ہوا کا جھونکا
جو ابتدا سے سفر میں ہے
اور جو انتہا تک سفر کرے گا!

Facebook Comments

Rauf Ul Hassan
I do not consider myself a writer. Instead, I am a player. As one of my friend s said: "You play with words. " He was right. I play, and play it beautifully.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”حقیقت۔۔رؤف الحسن

Leave a Reply to Shahi khan Cancel reply