بلوچوں کا سستا خون اور میڈیا۔۔ملک جان کےڈی

آج کی 21 ویں صدی میں بلوچستان سے لاپرواہی کے رویے شدت کے ساتھ موجود ہیں۔ فرق پڑا ہے تو صرف اتنا کہ اب ہمیں کہیں کہیں یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ یہ نام نہاد اصول اور رسم و رواج ہمارے معاشرے کے لیے کتنے تباہ کن ہیں۔ کچھ لوگ شاید یہ کہیں کہ پاکستانی میڈیا کی کوششوں ہی سے تو یہ سارے واقعات عوام اور پھر حکامِ بالا تک پہنچتے ہیں۔

مگر سوال یہ ہے کہ اگر میڈیا اتنا ہی باشعور، ذمہ دار اور حساس ہے تو پھر بلوچوں کے ساتھ ظلم اور تشدد کی خبریں معاشرے میں احساسِ ذمہ داری پیدا کرنے میں ناکام کیوں رہی ہیں؟ اور اگر میڈیا اس سلسلے میں ناکام نہیں تو معاشرہ ایک اکائی بن کر ان مظالم کے خلاف متحد ہو کر کیوں اٹھ کھڑا نہیں ہو سکا؟

سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ ہمارا میڈیا بلوچوں اور ان کے مسائل کو کتنا وقت، جگہ اور اہمیت دیتا ہے۔ کیا ہم روزانہ بلوچوں کے ساتھ روا سلوک کے بارے میں پڑھتے اور سنتے یا دیکھتے ہیں؟ کیا ہر روز ہونے والے قتل اور لاپتہ افراد میڈیا میں اپنی جگہ بنا پاتے ہیں؟

ہمارا میڈیا اس دہرے معیار پر کیوں نہیں کھل کر بات کرتا اور یہ سب کیسے ممکن ہے؟ میڈیا پر بھی ایک طرح سے خلائی مخلوق کی ہی اجارہ داری ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اچھی نیت کے باوجود اکثر اوقات میڈیا بھی آسمانی سوچ کا شکار نظر آتا ہے۔

ایک جانا مانا اخبار بھی، لوگ کہتے ہیں کہ بلوچستان کے حقیقی اخباروں میں سے ایک ہے، بلوچوں سے ہمدردانہ احساسات رکھتا ہے،  جو بلوچستان میں شائع ہوتا ہے، اس اخبار نے ایک ایسی غلطی کہ حیات بلوچ کے قتل کی  خبر  بغیر جانچ پڑتال کے شائع کی۔

انھوں نے اخبار میں شہید حیات کے بارے میں یہ تاثر دیا ہے کہ حیات بم دھماکے کے دوران مارا گیا۔ جو انتہائی ایک افسوس ناک  خبر  ہے۔ ایسے سیکڑوں واقعات ہوئے ہیں جنھیں میڈیا غلط رنگ دے کر شائع کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حیات مرزا اپنے کھیت میں اپنے غربت زدہ باپ کا ہاتھ بٹا رہا تھا، اسے وہاں سے گھسیٹ کر سڑک پر الٹا لٹا کر آٹھ گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا، حتیٰ کہ حیات کے باپ اور ماں کے سامنے اسے قتل کر دیا گیا۔

اب ہمارے اخباروں میں ایسی  خبر  شائع ہو تو ایک باپ کے  احساسات  کیا ہوں گے؟ اگر اس باپ کی نظر اس اخبار کی اس  خبر پر پڑے تو اس پر کیا گزرے گی؟

حیات کے جابرانہ قتل کے حوالے سے بلوچستان و کراچی میں ریلیاں نکالی جا رہا ہیں اور احتجاج ہو رہے ہیں۔ کراچی کے احتجاج میں جامعہ کراچی کے استاد ڈاکٹر ریاض نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ “شہید حیات بلوچ کو شہید کر کے ریاست کے ادارے باقی طلبا پر یہ خوف لاگو کرنا چاہتے تھے مگر حقیقت تو یہ ہے کہ ان کو اپنے کیے پر شاید پچھتانے کے سوا اور کچھ نہیں ملا۔”

شہید حیات بلوچ کے قاتلوں کو گرفتار کرنے اور ان کو سخت سزا سنانے کی مد میں  سٹوڈنٹس نے جو یکجہتی دکھائی ہے وہ قابلِ فخر ہے۔ طلبا کو چاہیے کہ وہ اس کارواں کو اس وقت تک جاری و ساری رکھیں جب تک کہ وہ حیات بلوچ کے قاتلوں کو سرِعام سزا نہ دلوائیں۔

کراچی کے اسی مظاہرے میں سوشل ایکٹیوسٹ کلثوم بلوچ نے کہا کہ “حیات بلوچ جیسے طالب علم کا اس طرح ہم سے بچھڑ جانا انتہائی افسوس کا حامل ہے۔ اگر حیات بلوچ نے واقعی کوئی جرم کیا ہو تو سکیورٹی ادارے اس کے جرم کو سامنے لا کر ثابت کریں کہ انھوں نے  کسی معصوم طالب علم کو  نہیں بلکہ ایک دہشت گرد کو اس طرح بے دردی سے قتل کیا ہے۔”

انھوں نے مزید کہا کہ “حیات بلوچ کو اتنی بے دردی سے قتل کرنے میں ریاستی اداروں کا ہاتھ شامل ہے اور ہمیں یوں لگتا ہے کہ آگے جا کر بلوچ طلبا و طالبات کے لیے تعلیم حاصل کرنا ایک خواب بن کر رہ جائے گا۔” انھوں نے کہا کہ “ہم اعلیٰ عدلیہ سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ جلد از جلد اس واقعے کی تفتیش کر کے شہید حیات بلوچ کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچائے۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو ہم اپنا احتجاج اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک کہ اس معصوم طالب علم کے قاتلوں کو سخت سے سخت سزا نہ دی جائے۔”

Advertisements
julia rana solicitors

وسعت اللہ خان لکھتے ہیں کہ ”کاش حیات بلوچ کو گھسیٹ کر اور باندھ کر گولیاں مارنے کا یہی واقعہ سرینگر کی کسی سڑک پر یا مغربی یروشلم کی کسی چیک پوسٹ پر پیش آتا تو میں اس بہیمانگی کا مرثیہ لکھ لکھ کر کاغذ سے خون ٹپکا دیتا، انسانی حقوق کی پامالی کا ماتم کرتے کرتے میرا قلم غش کھا کر گر پڑتا۔ میں چیخ چیخ کر گلا بٹھا لیتا کہ کہاں ہے عالمِ اسلام؟ انسانی حقوق کے علم بردار کہاں سو رہے ہیں؟”

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply