ضیاء کیوں زندہ ہے؟ ۔۔۔ احمد صہیب اسلم

دور ضیاءالحق اپنے ہوش و حواس سنبھالنے سے پہلے کا ہے مگر ضیاء الحق کے متعلق سُنا ہے کہ شاید قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد حکمرانوں میں شاندار جنازہ انہیں ہی نصیب ہوا ہے ۔ اپنی ذاتی آبزرویشن میں دیکھا ہے کہ ضیاء کے نام کی تکرار تیس بتیس سال بھی سیاسی فضاء میں گونجتی نظر آتی ہے ۔ ہم نے تو حکمرانوں کو بے آبرو ہو کر کوچہ اقتدار سے نکلتے دیکھا ہے تو پھر ضیاء کو بیوروکریٹک شہر اسلام آباد میں شاندار جنازہ گیارہ سال کی طویل حکمرانی پر کیوں ملا ؟ جب کہ طویل حکمرانی عمومی طور پر ایک حکمران کو اَن پاپولر کر دیتی ہے؟

اپنی تو غیر معروف سوچ یہی کہتی ہے کہ ضیاء میں کچھ تو ایسا تھا کہ جسمانی وفات کے دس سال بعد سیاسی طور پر یتیم ہونے کے باوجود ان کا ذکر آج بھی ہوتا ہے ۔ وہ موت پر بھی پاپولر تھے اور شاید ان کی سوچ سماج کی سوچ سے اس قدر قریب تھی اور وہ زمانے کے اتنے شناسا تھے کہ تجزیہ کاروں اور سیاستدانوں کی باتوں کے بقول ان کی وفات کے بتیس سال بعد بھی انکی چھاپ معاشرے پر ہے ۔

جذبات و پسند ناپسند کو ایک طرف رکھ کر سوچا جائے تو ہر عام لیڈر یا ڈکٹیٹر شاید یہی چاہے گا کہ اس کی چھاپ معاشرے پر گہری ہو اور لوگ اسے قبولیت یا پاپولیرٹی بخشیں۔ ضیاء الحق وفات کے بتیس سال بعد اگر سب برائیوں کا ذمہ دار ہے تو کیا وہ سُپر ہیرو تھا یا بعد میں آنے والے حکمران کم ہمت نکلے اور ضیاء ان کے لئے بہترین قربانی کا بکرا ٹھہرا؟ ایک نئی سوچ سوچئے گا ضرور!

Advertisements
julia rana solicitors

(احمد صہیب اسلم)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply