آزادی۔۔محمد عیسیٰ سلطان

ملک وہ جگہ جہاں انسان کی پیدائش ہو وہ جگہ فطری طور پر انسان کو محبوب ہوتی ہے. چاہے وہاں ظلم ہو یا انسان کی زندگی تنگ ہو لیکن ہمیشہ وہ جگہ اس کو محبوب ہی رہتی ہے. وطن سے محبت کرنا سنت رسول بھی ہے.

نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کو جب مکہ سے مدینہ ہجر کا حکم ہو اتو آپ کریم صل اللہ علیہ وسلم نے مکہ شہر سے باہر نکل کر اک دفعہ شہر کی طرف منہ کر کے کہا اے شہر مکہ مجھے تجھ سے محبت ہے لیکن تیرے لوگ مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے.اسی طرح ہر وہ مہاجر جو آزادی کے بعد پاکستان آگئے آج بھی ان کی نسلوں میں اس جگہ کی محبت قائم ہے جہاں سے ان کے آبا ؤ اجداد ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے.
آزادی کی قدر اگر آپ نے جاننی ہے تو کشمیر کے لوگوں سے پوچھیں جو پچھلے 70 سال سے اک غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں. فلسطین کے لوگوں سے پوچھیں جن کے ملک پہ قصبہ ہوا ہے اور کوئی پتہ نہیں کب کوئی آئے اور ان کے گھروں پہ حملہ کر دے. یہ آزادی کی قدر تو جانوروں میں بھی ہوتی ہے.

Advertisements
julia rana solicitors

میری پیدائش پاکستان کی ہے اور اسی طرح میرے والد صاحب کی لیکن میرا داد اور تایا اور ان کے اباؤ اجداد کی پیدائش ہندوستان کے صوبے پنجاب ضلع پٹیالہ کی ہے. یقین کریں یہ ہجرت آسان نہیں تھی ان کے لیے آج بھی جب وہ واقعہ سناتے ہیں تو ان کی آنکھوں میں آنسو اور اس علاقے سے دور ہونے کا غم نظر آتا ہے.
ہماری ہجرت کی کہانی بھی ویسی ہی ہے جیسے سب کی تھی. جس گاؤں و علاقے میں میرے داد اور ان کے رشتے دار رہتے تھے پتہ چلا ایک یا دو دن میں  سکھوں نے حملہ کرنا ہے. کچھ رشتے داروں نے تیاری کر لی تو کچھ نے سوچا جب حملہ ہو گا تب سوچیں گے. میرے داد اس وقت کسی وجہ سے جیل میں تھے تو ان کی ماں نے کہا جب تک میرا بیٹا نہیں آتا میں نہیں جاؤ نگی. اسی ایک دو دن بعد جب رات کو حملہ ہوا تو پردادی جو بزرگ تھی ان کو کسی طرح ہمارے رشتے دار اپنے ساتھ لے آئے. ماسوائے دو دن کے کھانے اور اک جوڑے کے کسی کے پاس کچھ نہیں تھا. حملوں سے بچتے کسی طرح سیالکوٹ کی زمین پہ قدم رکھا.
ماں ماں ہوتی ہے اک تو ہجرت کا سفر تو دوسری طرف بیٹے کا پیچھے رہ جانے کا غم اور تیسرا امیری سے سیدھا غربت کا سامنا . پرادادی اماں صرف سیالکوٹ میں 8 دن زندہ رہی اور اس کے بعد ان کی وفات ہو گئی.
ماں کا چہرہ بیٹا نہ دیکھ سکا اور بیٹےکی راہ دیکھتے ماں دنیا سے چلی گئی.
رشتہ دار میرے تایا اور دوسروں کی حالت بھی اچھی نہیں تھی جو کچھ تھا پاس ختم ہو گیا. کھانے کے لیے درختوں کے پتوں کو پانی میں ابال کر پیا جاتا اور کھایا جاتا تاکہ پیٹ کی آگ کم ہو. اک جوڑا جو جسم پہ ہوتا اس کے ساتھ ہی نہا لیا جاتا تاکہ کپڑے صاف ہو جائیں.
اک ماہ گزار تو میرے داد بھارت سے پاکستان کسی طرح پوچھتے پوچھتے سیالکوٹ آئے. آتے ساتھ ہی ماں کا پوچھا تو رشتہ دار ماں کی قبر پہ لے گئے. بیٹے کو ہجرت کا سفر، گاؤں کی زمین، پاکستان و بھارت، جیل کی قید اور حالات رشتہ دار کا غم تو کسی طرح ہضم ہو گیا لیکن ماں کا غم ساری عمر ساتھ رہا.
جب رشتے داروں کی حالت دیکھی تو پھر پاس جو گھر سکھ چھوڑ کر گئے ان کے تالے توڑ کر وہاں سے راشن وغیرہ کا انتظام کیا. وقت بدلتا رہا وہ جو کبھی کسی علاقے کے ممبر تھے یا 400 سے 500 کھیتوں کے مالک تھے آج وہ اک نئی جگہ پہ تھے اسی جگہ کو اپنا وطن کہہ رہے تھے.
آج بھی ہمارے بڑے جب اپنا علاقہ یاد کرتے ہیں تو اس کی گلیوں کو یاد کر کے روتے ہیں.میری پردادی کی قبر پتہ نہیں بعد میں کہاں گی کیونکہ ہمارا خاندان بعد میں گوجرانوالہ منتقل ہو گیا. میرے دادا کے بھائی کی قبر اج بھی بھارت میں ہے. میرے خاندان کے لوگ آج بھی اس علاقے کے لیے لمبی لمبی سانس لیتے ہیں.
یہ اک کہانی ہے ہجرت کی آپ کو اس سے بھی زیادہ دردناک کہانیاں ملیں گی. یہ پاکستان ایسے نہیں ملا یہ اقبال کا خواب تھا تو ہمارے جیسے خاندانوں کے خون و آنسو سے پورا ہوا.
اس وطن کی قدر کریں. اس آزادی کی قدر کریں.

Facebook Comments

محمد عیسیٰ
پیشے کے لحاظ سے ٹیلی کام اِنجینیئر۔ معاشرے میں رنگ، نسل، زبان اور مذہب کے لحاظ سے مثبت تبدیلی کا خواہاں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply