جھوٹا سچ اور جھوٹے مبلغ۔۔۔ مرزا شہباز حسنین

جب سے ہمارے معاشرے میں انتہا پسندی وارد ہوئی ہے۔تب سے آج تک ہم پر جھوٹا سچ بھی مسلط کیا جا رہاہے۔شاید میں سمجھا نہ سکوں ۔مگر کوشش کرنے میں ہرج ہی کیا ہے۔میری ناقص عقل کے مطابق جس سچ میں نوے فیصد جھوٹ شامل ہو ۔اس کو جھوٹا سچ کہا جا سکتا ہے۔ہمارے معاشرے میں سرگرم نام نہاد ناصح آج کل اس قدر خجالت میں مبتلا ہو کر جھوٹ کا سہارا لینے پر مجبور ہو چکے۔شعر یاد آ گیا۔

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح۔

کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا!

اس معاشرے کا المیہ فقط یہ ہے کہ آج تلک اس کے حقیقی سلگتے مسائل کا چارہ گروں کو ادراک ہی نہیں ہو سکا۔جھوٹے سچ کے یہ مبلغ  نہ تو معاشرے کے غمگسار ہیں ۔پھر کیسے ممکن ہےکہ یہ چارہ گر بھی ہوں۔ کیونکہ چارہ گر کے لیے غمگسار ہونا ضروری ہے۔جبکہ یہ جھوٹ کے پچاری فقط جھوٹ کی بے حد آمیزش سے تیار کردہ آلودہ سچ بیان کر کے خوش فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ان نام نہاد دانشوروں کو اندازہ ہی نہیں کہ ان کے جھوٹے سچ کتنے دل توڑ کر انسان کی کس حد تک دل آزاری کا باعث بنتے ہیں ۔انھیں تو داد و تحسین درکار ہے۔چاہے کسی  کادل ٹوٹے یا روح۔ نان ایشوز  پر تبلیغ کرتے کرتے جب ان  چارہ گروں کو معلوم ہوا کہ اب ان کی بے دلیل اور منطق سے عاری باتیں اپنی اہمیت کھو چکی ہیں ۔تب  ان نام نہاد مبلغین نے اپنی بات  میں وزن پیدا کرنے کے لیے معاشرے میں قلیل ترین  برائی جس کا معاشرے کے حقیقی مسائل سے کوئی تقابل نہیں  بنتا۔اس پر اپنی علمیت کے موتی بکھیرنےکی خاطر جھوٹ پر مبنی کہانیاں تراش لیں۔ ان کہانیوں کے اندر اپنے ذہن میں  موجود  ساری گندگی انڈیل کر جھوٹا  سچ پھیلانے  کا آغاز  کر دیا۔

بدقسمتی سے یہ جھوٹ تراش جنسیت سے مغلوب ذہنی بیمار ہیں۔جنھیں بذات خود کسی نفسیاتی معالج کی اشد  ضرورت ہے ۔ان کا مسئلہ  ایمان نہیں عورت ہے۔ان ذہنی بیماروں کے ایمان کی کشتی سمندر کی لہروں سے نہیں اک عورت کے آنچل کے لہرانے سے ڈولنے لگتی ہے۔آج کی تحریر ان جھوٹے سچ کے مبلغین  کے چہروں  سے نقاب اتارنے کے لیے لکھی ہے۔۔ہمارا معاشرہ  غربت افلاس معاشی تنگدستی صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی  کے علاوہ تعلیم و تربیت سے  محروم چلا آرہا ہے۔ معاشرے میں انسانی ہمدردی  اور  حقوق العباد کی ادائیگی کا چلن ناپید ہوتا جا رہاہے ۔لوگوں میں  محبت ختم ہو کر نفرت میں بدل رہی ۔عقیدت پسندی کی جگہ انتہا  پسندی کا زہر سرایت  کر چکاہے ۔مگر ان سلگتے انسانی  مسائل کو نظر انداز کر کے عورت کو بس ایمان  کے لیے خطرہ سمجھ کر دن رات جھوٹ  ہی جھوٹ  کو سچ بنا کر تبلیغ میں  مصروف  ہیں ۔ایسی  ہی تحریر میمونہ کلیم نے لکھی ۔جس میں محض عورت کو پردہ  کرنے کی ترغیب دینے کے لیے۔باپ بیٹی  بھائی  بہن ،ماموں بھانجی چچا بھتیجی  جیسے  رشتوں کی تقدیس کو جی بھر کے پامال کیا۔ ۔

کیا ان نفسیاتی مریضوں  کو علاج  کی ضرورت  نہیں ۔اچھائی  کی ترغیب  دینے کے لیے بے شمار  دلائل اور طریقے  موجود  ہیں۔ آج ہم اس قدر لا چار  ہو گئے  کہ اپنی ےبچوں  کی تربیت  کے لیے جھوٹے اور  جنسیت  کے ہاتھوں  مغلوب  نفسیاتی  مرض میں  مبتلا نام نہاد  مبلغین  کا سہارا لیں گے۔ نجانے کیوں  عورت کا تصور  ذہن  میں  آتے ہی ان  کے ہواس مشتعل ہو جاتے ہیں ۔اسی  قسم  کی حرکت  تہمینہ  درانی پیری مریدی کے خاتمے کے لیے  اپنے ناول  کفر میں  کر چکی  ہیں ۔اچھائی  کے فروغ کے لیے  حقائق  کو مسخ کرنے اور جھوٹ  تراشنے کی ضرورت  نہیں  ہوتی ۔ہمارے  معاشرے  کی عورت  ایک مضبوط  عورت ہے۔ماں  کے روپ میں  بہن اور بیٹی  کے روپ  میں  اور وفا شعار بیوی کے روپ میں  بھی۔رشتوں  کے تقدس  سے  بھی بخوبی واقف  ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اللہ  تعالیٰ ہم سب کو جھوٹ کی آمیزش  سے تیار  کردہ سچ کے  نام پر جھوٹے  مبلغین  کے شر سے محفوظ  رکھے ۔

Facebook Comments

مرزا شہبازحسنین
علم کا متلاشی عام سا لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply