پاکستان کا مقصد کیا؟۔۔۔عبدالحنان ارشد

آج کچھ پل تنہائی میں بیٹھ کر سوچیئے گا ہم نے یہ الگ وطن کس مقصد کے لیے حاصل کیا تھا۔ کیا اس لیے کہ شاندار اور سٹیٹ آف  دی آرٹ اپنی الگ عبادت گاہیں بنا سکیں۔ لیکن فقیدالنظیر مسجدیں تو ہندوستان میں بھی موجود تھیں۔ سکون سے عبادات کرسکیں؟۔۔ وہ بھی وہاں کررہے تھے۔

نئے ملک میں اچھی جامعات قائم کرسکیں۔۔ لیکن وہاں کی جامعات تو بے نظیر تھیں آج بھی دنیا میں اپنا الگ مقام رکھتی ہیں۔

اچھے اچھے گھر تعمیر کر سکیں۔؟۔ وہاں کی حویلیاں تو آج بھی بے مثال ہیں۔

نہ ہی الگ ریاست اس مقصد کے لیے حاصل کی گئی تھی کہ بیوروکریٹ بابو یہاں آرام سے افسر شاہی کا ادھم مچا سکیں۔ کیونکہ افسر شاہی کو تو مشترکہ ہندوستان میں بھی دوام تھا۔

نہ ہی الگ مملکت اس لیے حاصل کی گئی تھی کہ مادرِ وطن کے سجیلے جوان یہاں دشمن کے علاقے فتح کرکے اس پر ڈی ایچ اے پر ڈی ایچ اے بناتے رہیں۔

نہ ہی الگ سرزمین کا خواب اس لیے دیکھا گیا کہ زمیندار وڈیرے لوگوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ سکیں، کیونکہ یہ سب سانجھے ہندوستان میں رہ کر بھی ہو رہا تھا۔

نہ ہی اس لیے کہ مسلمان سکون سے رہ سکیں۔ کیونکہ سکون تو اب بھی کبھی کبھی صحرا میں ملنے والے پانی کی طرح کبھی کبھی ہی میسر آتا ہے۔

نہ ہی الگ ریاست کا مقصد میٹرو اور اورنج لائن ٹرین کا اصول تھا۔

نہ ہی اس سرزمین کا قصد اس لیے کیا گیا تھا کہ نوٹوں پر قائداعظم کی تصویر چھاپی جا سکے۔ کیونکہ قائداعظم تو مشترکہ ہندوستان کے وزارت اعظمی کی آفر ٹھکرا چکے تھے۔

پھر یہ الگ مملکت کیوں اور کس  مقصد کے حصول کے لیے بنی۔۔۔ میں بتاتا ہوں۔۔۔

اس لیے ،تاکہ ہمارے کچھ بانکے تندومند نوجوان اٹھیں  اور یہ ہرے اور سفید رنگ  سے سجا یا “پوپو” والا باجا بجا سکیں۔ کیوں مشترکہ ہندوستان ہوتا تو ہندو اعتراض  اٹھاتے کہ ہرے نہیں سیفرون رنگ کا ہی باجا بنایا، بیچا اور بجایا جائے گا۔ پھر اس پر بھی اعتراض اٹھتے کس دن بجایا جائے گا۔ پھر مشترکہ ہندوستان میں باجا بجانے کی مسلمانوں کی باری ہو گی اس دن ہندو اور جس دن ہندوؤں کی باری ہو گی اس دن مسلمان اپنی گلیوں میں باجے بجانے پر لڑائی جھگڑا کرسکتے تھے۔ دونوں طرف جوان اور گرم خون ہونا تھا، اس سے بات بڑھتی بڑھتی فسادات تک  پہنچ جاتی ۔ جس سے بہت زیادہ قتل و غارت کا خطرہ تھا۔

ہمیں اپنے اکابر کی دور اندیشی کو داد دینی چاہیے کہ انہوں نے اس نازک مسئلے کو سمجھا اور الگ سرزمین کے لیے تگ و دو کی اور دنیا کے نقشے پر ایک الگ وطن لانے میں کامیاب ہوئے۔ اب یہاں ہمارے نوجوان آرام اور سکون سے “پوپو” والا باجا بجاتے ہیں۔ جس کی آواز سبھی کے کانوں پر گراں گزرتی ہے۔ سبھی کے جی میں آتا ہے کاش اس باجا دراز کا کوئی منہ کوچ لے لیکن کوئی کچھ بڑا قدم اٹھانے سے پرہیز کرتا ہے۔
سوائے اس باجا بجانے والے، باجا بیچنے والے اور باجا ایجاد کرنے والے کی شان میں قصیدہ گوئی کرنے کے ساتھ ساتھ ان سب کے ماں باپ اور خاندان کی شان میں کچھ کلمات ادا کردیتا ہے۔ اس سے زیادہ کیا کرسکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

وہ ہماری نیند میں، آرام میں الغرض زندگی میں ایک ہفتہ سے خلل ڈالے ہوئے ہیں۔ ہمیں اپنے بزرگوں کی دوراندیشی پر انہیں سراہنا چاہیے۔ ورنہ نہ جانے کتنے باجے میں اپنی پھونک مارنے والے ،جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔

Facebook Comments

عبدالحنان ارشد
عبدالحنان نے فاسٹ یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ ملک کے چند نامور ادیبوں و صحافیوں کے انٹرویوز کر چکے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ آپ سو لفظوں کی 100 سے زیادہ کہانیاں لکھ چکے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply